صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے وکلاء کی جدوجہد کی ستائش کی ۔جمعیۃ کی قانونی پیروی سے ہنوز سو سے زائد افراد باعزت بری ہوچکےہیں۔
نئی دہلی : دہلی کی ایک عدالت نے شمال مشرقی دہلی فسادات 2020کے دوران آتش زنی اور ہنگامہ آرائی کے الزامات میں گرفتار پانچ افراد کو باعزت بری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہلی پولیس نے معاملے کی تفتیش مشینی انداز میں کی اور ملزموں کو جھوٹے طور پر پھنسا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ کیس حل کرلیا گیا ہے۔عدالت کے اس تبصرے نے دہلی پولس کے کام کاج پر ایک بار سے سوال کھڑا کردیا ہے۔
کڑکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج پروین سنگھ نے 11 دسمبر کو جاری اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات کو کسی بھی معقول شک سے بالاتر ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لیے ان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔ بری کیے گئے ملزمان میں عبد الستار، عارف، محمد خالد، حنین اور تنویر علی عرف گلو شامل ہیں۔ ان میں محمد خالد اور تنویر عرف گلو کے مقدمات کی پیروی صدر جمعیۃعلماءہند مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر ایڈوکیٹ سلیم ملک کررہے تھے ۔
عدالت نے پولیس کی جانب سے کی گئی تفتیش پر سخت سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک عوامی گواہ (PW-4) کی واحد گواہی، جبکہ دیگر دو گواہوں کو ناقابلِ اعتبار قرار دیا جاچکا ہو، کسی بھی صورت میں ملزمان کو سزا دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ایف آئی آر کے مطابق، پانچوں افراد پر الزام تھا کہ انھوں نے 24 فروری 2020 کوبھجن پورہ علاقے میں ایک پیٹرول پمپ اور متعدد گاڑیوں کو آگ لگائی۔ اسی واقعے کے دوران ترون نامی شخص، جو موٹر سائیکل میں پٹرول بھرانے آیا تھا، مبینہ طور پر ایک نامعلوم ہجوم کے حملے میں زخمی ہوگیا تھا، جس کی شکایت بھی اسی ایف آئی آر میں نتھی ہے۔بری کیے گئے ملزمان کو تقریباً ایک سال بعد جنوری اور فروری 2021 کے دوران چند گواہوں کی شناخت کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ترون کے زخمی ہونے سے متعلق جمعیۃ علماء ہند کے وکیل کے مؤثر بحث و مباحثہ کے نتیجے میں عدالت نے استغاثہ کے موقف پر بھی شک کا اظہار کیا۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ پٹرول پمپ کے ایک ملازم گواہ کے مطابق تشدد پھوٹ پڑنے کے بعد دوپہر 12:30بجے ہی پٹرول پمپ کو بند کر دیا گیا تھا، جبکہ استغاثہ کے مطابق ترون کودوبجے کے قریب زخمی کیا گیا۔عدالت نے مزید کہا کہ ترون کے والد کے بیان کے مطابق ترن پٹرول پمپ کے بجائے بھجن پورہ چوک پر ملاجو پیرول پمپ سے کافی دور ہے۔
فیصلہ آنے کے بعد اہل خانہ نے صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی، ناظم عمومی مولانا محمد حکیم الدین قاسمی اور قانونی امور کے انچارج مولانا نیاز احمد فاروقی سمیت جمعیۃ علماء ہند کے سبھی ذمہ داروں کا شکریہ ادا کیا ہے ۔دریں اثنا صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے ایڈوکیٹ سلیم ملک اور دیگر وکیلوں کی ستائش کی ہے ۔ واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند کی جد وجہد سے ہنوز سو سے زائد افراد باعزت بری ہوچکےہیں ۔ ابھی بھی ڈیرھ سو سے زائد مقدمات میں فیصلہ آنا باقی ہے ۔






