وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا!

محمد غلام مصطفی عدیل

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جو قوم اور جو ملت بھی اپنے مستقبل کی تئیں منصوبہ بندی اور با مقصد زندگی گزارنے کی سعی کرتی ہے اسے ایک نہ ایک دن کامیابی مل ہی جایا کرتی ہے اور جو بلا کسی منصوبے و ٹارگٹ کے چلنے کی کوشش کی ہے اس کے مقدر میں ہمیشہ خسارہ ہی خسارہ رہا ہے، آج بے جے پی نے اپنے اک خاص اور مضبوط پلان کے ذریعہ اتر پردیش و دیگر ریاستوں میں کامیابی کا جھنڈا گاڑ دیا قطع نظر اس کے کہ وہ کس منصوبے کے تحت کام کرے گی اور کس طرز پر حکومت چلائے گی ، لیکن اس کی کامیابی نے جہاں سیکولرازم کے نام پر ضمیر فروشوں اور مسلم ووٹ کے نام پر حرام کی کمائی سے اقرباء پروری کے حرام خوروں کے بھتے کو چونا لگا دیا ہے تو دوسری طرف ہماری قوم بھی آہستہ آہستہ آج ہوش میں آنے لگی ہے اور ہوش کے ناخن لینے لگی ہے کہ کون اسکا خیر خواہ ہے اور کون نہیں، چلو جو باتیں برسوں پہلے سمجھ جانی چاہئے تھیں وہ اب جا کر ہماری کمیونٹی کے دل و دماغ میں سوال کھڑے کر رہی ہے، چلو دیر آید درست آید، اب یہاں سے ہمیں خوب اچھی طرح سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا گا کہ کس طرح اپنی اور اپنی کمیونٹی کی ساخت کو بچانا ہے، کون ہمارا خیر خواہ ہے اور کون بدخواہ، کس نے ہماری معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا،اور کس نے ہماری خاموشی کا گلا گھونٹا، وہ کون سے عناصر تھے جو آزادی ہند کے بعد سے اب تک ہمارے اعتماد کا ہماری خواہشات کا جنازہ نکال دیا، اور کس نے ہمارا بطور ووٹ بینک کے استعمال و استحصال کیا بلکہ صاف لفظوں میں کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آزادی بھارت سے لیکر آج تک سیکولرازم کے نام پر کانگریس اور اس جیسی نام نہاد سیکولر پارٹیاں اور اسکے تلوے چاٹنے والے چند مسلم خاندان امت مسلمہ کو مسلسل زک پہنچاتے رہے اور دھوکہ میں ڈالے رکھا کبھی تو ہمیں بابری مسجد کی شہادت کی دہائی دیکر بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوتے رہے تو کبھی گجرات فسادات کی آڑ میں مسلمانوں کو ڈرا ڈرا کر انکا ووٹ حاصل کرتے رہے، کانگریس کا چہرہ تو اسی وقت ظاہر ہو گیا تھا جب جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل نے گاندھی جی کو تقسیم ہند پر مجبور کر دیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ مسلم لیگ نے مانگ کی تھی لیکن اس حقیقت سے سر مو انحراف نہیں کیا جاسکتا کہ تقسیم ہند کا مسئلہ مکمل طور پر کانگریس اور اس کی کابینہ کی رضا مندی پر موقوف تھا، اگر جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل وغیرہ کی صورت میں مکروہ چہرہ یا دوسرے لفظوں میں ہندوتو کا خواب( جو انکی سرشت میں داخل ہو چکا تھا ) کانگریس کابینہ میں نہ ہوتا تو ہرگز ہرگز گاندھی جی قیام پاکستان کے لیے رضامندی ظاہر نہ کرتے ، چونکہ یہ عناصر قیام پاکستان کی صورت میں مسلم اتحاد کے شیرازہ کو بکھیرنے پر تلے تھے اور مسلم نمائندگی کو کم کرنے کا تہیہ کر چکے تھے جس کی بنا پر کیبنٹ مشن پلان فلاپ ہوا کیونکہ اگر یہ پلان کامیاب ہو جاتا تو مسلمانان ہند کو تقسیم اور اس کے بعد خونچکاں نقصانات نہ اٹھانے پڑتے آخر کار دشمن ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوگیا اور ملت اسلامیہ ہندیہ دو حصوں پر منقسم ہو کر اقلیت میں آ ہی گئی ،اور یہ تمام کا تمام کریڈٹ اسی کانگریس کے دوغلے پن کو جاتا ہے، اس کے بعد بھی کئی مرتبہ اس کی منافقانہ روش طشت از بام ہوتی رہی، لیکن ہمارے چند بے ضمیر قائد، وفادار کتے کی طرح اس کے ارد گرد دم ہلا ہلا کر ان کا جھوٹا چاٹنے میں لگے رہے اور پوری ملت اسلامیہ کی بچی کھچی پونجی کو داؤ پر لگا کر اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کرتے رہے، اگر ہم روز اول ہی میں ایسی پارٹی اور ایسی قیادت کو لات مار دی ہوتی تو آج ہماری حالت کچھ اور ہوتی، اگر ہمارے قائدین مضبوط منصوبہ بندی کے تحت اور ایک مقصد کے حصول کیلئے تگ و دو کرتے تو ہماری نوجوان نسل جو حسرت و یاس اور نا امیدی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ہمارے لئے وجہ صد تفاخر ہوتی لیکن آج ہمارے معاشرے و سوسائٹی میں ہو رہی مسلسل زیادتیاں خاص کر نوجوان نسل کی تئیں اتنی بڑھ گئیں ہیں کہ ہماری حالت اس آپریشن ٹھیٹر کے مریض کی سی ہوگئی ہے کہ جس کو سرجن نے انجیکشن لگا کر بے ہوش کر دیا ہو اور اس کے ہر ہر اعضاء کو چیر پھاڑ کرنا شروع کردیا ہو اگر بات صرف چیر پھاڑ کی حد تک ہوتی تو قابل فہم و ادراک تھی لیکن یہاں تو معاملہ پوسٹ مارٹم تک پہنچ چکا ہے کہ پہلے تو ہمیں صرف بے بنیاد الزام لگا کر پابند سلاسل کیا جاتا تھا مگر اب تو جب چاہتے ہیں اور جس وقت چاہتے ہمارا انکاؤنٹر کر دیا جاتا ہے! افسوس کہ ہمارے پاس علاوہ آہ و بکا اور منت و سماجت کے کوئی سبیل نہیں! آخر یہ زخم اور ہماری یہ درگت کے ذمہ دار کون ہیں؟ آخر کس کی دور حکمرانی میں ہندتو کو فروغ ملا؟ بلکہ مسلمانان ہند کے حصے میں جو یہ آہ و نالہ اور درد آئے ہیں یہ سب ان ہی لوگوں کے کرتوت ہیں جو ہمیشہ نام نہاد سیکولزم کا راگ الاپتے نہیں تھکتے، کیا اب بھی مجھے کانگریس اور ان جیسی پارٹیوں کو یہ کہنے کا حق حاصل نہیں کہ یہ سب آر ایس ایس ہی کے سکے کے دوسرے پہلو ہیں؟ کیا میں اپنے ہی اس مذہبی سبق کو پس پشت ڈال دوں؟ جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ “کفر سارے کے سارے ملت واحدہ ہیں” آخر کب تک ہم غلامی و محکومیت کی زندگی گزارنے پر ہی مجبور رہیں گے؟ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ جو بھی افراد ہمیں ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے چنگل سے آزاد کرنے کی سوچتا ہے اسی وقت غیر تو غیر ہم خود بھی اپنی ساری ناکامیوں کا ٹھیکرا انہیں کے سر پھوڑ دیتے ہیں ہماری قوم کا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے سیکولزم کے نام پر ان عیار و مکار اور دھوکہ باز پارٹیوں کو ہی اپنا ماوی و ملجا سمجھ رکھا ہے، ہمیں نظر نہیں آتا کہ جب انہیں کامیابی ملتی ہے تو یکسر ہمیں بھلا بیٹھتے ہیں اور جب اپنی نا اہلی کی بنا پر ناکام ہوتے ہیں تو ہمارے مسلم رہنما کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں؟( قارئین کو صوبہ آسام کے الیکشن رزلٹ آنے کے بعد ترون گگوئ کا مضحکہ خیز بیان یاد ہوگا، اسی طرح ابھی حالیہ الیکشن کے بعد کے بیانات میں بھی وہی کچھ سننے کو مل رہا ہے )حد تو یہ ہے کہ ہم نے ہر دینی و ملی مسائل کے حل کے لیے ان ہی نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی جانب دیکھنے کی عادت ڈال رکھی ہے، باوجودیکہ ہم خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان عناصر کو ہماری مذہبی و ملی بیداری بالکل پسند نہیں، وہ ہماری تھوڑی سی ترقی بھی راس نہیں آ سکتی، تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں ہماری منتشر طاقت و قیادت کو ایک مضبوط پلیٹ فارم پر جمع ہونا گوارا ہو جائے؟ انکی تو معراج ہی ہمارے ہر طرح کے حقوق کو سلب کرنے اور انھیں ہڑپ کرنے میں ہے، جنہیں اسلامی رجحانات کی بھنک بھی گوارا نہیں ان سے کسی بھی قسم کی امیدیں لگانا سراسر بیوقوفی ہی ہے، لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بنام “مسلم دشمن پارٹیاں” بیک وقت ہماری حریف بھی ثابت ہوئ ہیں اور فریق بھی، ریفری رہی ہیں اور ظالم بھی، اور یہی گواہ بھی وکیل بھی اور جج بھی بلکہ پردہ راز میں فیصلہ کے بعد سزا دینے کی اتھارٹی بھی بظاہر انہی چالاک و دغاباز پارٹیوں کو حاصل ہے، اس لیے اب بلا کسی تاخیر کے ہمیں حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہوگا اور ان اسباب و عوامل کا تعین کرنا ہی پڑے گا جن کی بنا پر ہم ملت کو نقصان و زیاں اور ذلت و پستی کے دلدل سے نکال کر سرخروئی و سربلندی کے اعلی معیار پر لا سکیں اور اپنے ملی تشخص و مذہبی شناخت کو بچانے کے لیے آگے آ سکیں ، اب ملت کے حقیقی اور امت کے غم کو اپنا غم سمجھنے والے رہنماؤں سے میری دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ بجائے کسی نام نہاد سیکولر پارٹی کے آلہ کار بنے رہنے کے اپنا اک ایسا مضبوط پلیٹ فارم بنائیں جہاں سے ہم اپنے حقوق کی مکمل بازیابی کر سکیں اور جس پر ہم یکجٹ ہو کر ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے ملت اسلامیہ ہندیہ کا منتشر شیرازہ متحد ہو جائے اور جہاں سے اپنی آواز اٹھانے کی مکمل آزادی حاصل ہو، عرض آخر یہ کہ اب ہم میں مصائب و آلام سہنے کی سکت نہیں رہی، ان پارٹیوں کے دیے گئے زخم سے ہم ہمیشہ کراہتے آ رہے ہیں، خدارا ہمیں نجات دلاؤ، مرحوم کلیم عاجز کی زبانی
ع یہ آہ و نالہ و درد ہیں کسی بے وفا کی نشانیاں
یہی میرے دن کے رفیق ہیں، یہی میری رات کی رانیاں، اب مزید ایسی وفا اور عشق کے امتحاں سے گزرنے کی ضرورت نہیں کہ جس میں صرف اور صرف نقصان ہی اٹھانا پڑے.

وفا کیسی، کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا!
تو پھر اے سنگ دل، تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو!
+919059101653
Gulammustafa9059@gmail.com