قاسم سید
گہری نیند کے خواب حقیقتوں اور تعبیروں سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں، لیکن جاگتی آنکھوں کے خواب محرومیوں اور نامرادیوں کے ایسے زخم دے جاتے ہیں جو برسوں میں نہیں بھرتے، انسان آنکھیں بند کئے تخیلاتی جنت کی طلسماتی وادیوں میں محو سفر ہوتا ہے۔ یکایک سر کسی زمینی حقیقت سے ٹکراتا ہے تو چیخیں نکل جاتی ہیں اور خواب کا سحر پرواز کرچکا ہوتا ہے، مگر طلسماتی دنیا میں رہنے کے شوقین ٹیس کم ہوتے ہی پھر تخیلات کے گھوڑے پر سوار ہوکر مطلوبہ جنت کے حصول میں آسمانوں کی سیر پر نکل جاتے ہیں، پھر کوئی ہواؤں کی سنامی زمین پر لاٹپکتی ہے۔ کامیابیوں کی ساری کہانیاں تخیلاتی سفر سے نہیں ارادے کی پختگی اور جہد مسلسل سے عبارت ہیں۔ اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دینے، برا بھلا کہنے، کوسنے اور گالیاں دینے، چیخ و پکار کرنے، ہائے واویلا مچانے، گریبان پھاڑنے، سروں پر خاک ڈالنے، سینہ پیٹنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ رویوں کی منافقت، محنت سے جی چرانے کے ساتھ حقائق سے راہ فرار اس بات کی علامت ہے کہ خوداحتسابی کے تمام دروازے بند کرلئے ہیں۔
2014 میں جن چیلنجوں سے ہوکر گزرے بہار کے نتائج نے تھپک کر سلادیا، دہلی نے ان زخموں پر پہلے ہی مرہم رکھ دیا تھا، مگر ان دو ریاستوں میں ملی شکست کو ہر وقت تازہ دم رہنے والی فوج نے سنجیدگی سے لیا، ہمت نہیں ہاری، حکمت عملی پر نظرثانی کی اور اترپردیش میں ان دونوں مقامات کی شکست کا انتقام لیا اور حریفوں کو اس لائق بھی نہیں چھوڑا کہ وہ کسی دوسرے مورچہ پر مقابلہ کے لئے اپنی صفوں کو ازسرنو منظم کرسکیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ انھیں وہ سپہ سالار ملا ہے جو ہمہ وقت ہر محاذ پر سرگرم رہنے پر یقین رکھتا ہے، دشمنوں کی یلغار سے نہیں گھبراتا، ان کے کمزور پہلوؤں پر گہری نظر ہے، وقت کے لحاظ سے چالیں بدلتا رہتا ہے، اس کے ترکش میں ہر سائز کے تیر ہیں، وہ یلغار سے لطف اندوز ہوتا ہے، اس کا ساتھ دینے کے لئے سوشل میڈیا سے لے کر زمینی کارکنوں کی فوج ہے، وہ منظم انداز میں کام کرتا ہے، جو ہندو مذہب کے روشن ستارے کے طور پر ابھرا اور سورج بن کر چمکنے لگا۔ اس کے پاس ٹھوس سیاسی نظریہ کے ساتھ سیاسی طاقت بھی ہے اور اس کو نافذ کرنے اور کرانے کے لئے ہر سطح کے رضاکار ہیں۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے کھوکھلے نعرے لگانے والوں کو دیوار سے لگانے، کانگریس مکت بھارت بنانے کی مہم کو لگاتار کامیابی ملتی جارہی ہے، اس کا نصف سے زائد ہندوستان پر قبضہ ہوگیا ہے۔ پیش قدمی کی یہی رفتار رہی تو وہ دن دور نہیں جب سیکولرازم اور جمہوریت تاریخ کی کتابوں میں پڑھانے کے لائق رہ جائیں، کیونکہ مخالف یا حریف کے پاس منفی نعروں، منفی سیاست، کھوکھلے وعدوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ نظریہ کا مقابلہ نظریہ سے کیا جاسکتا ہے۔ مکوں کو فضا میں لہراکر نہیں ایک رخی سیاست ملک کو کدھر لے جائے گی، فی الحال کہنا بہت مشکل ہے، مگر 1925 میں آر ایس ایس کو جن مقاصد کے لئے قائم کیا گیا تھا 2025 تک وہ زمین پر اترتا نظر آرہا ہے، اِلا یہ کہ سیکولرازم اور جمہوریت کا نام لینے والی سیاسی پارٹیاں خود غرضی کے خول سے باہر نکلیں، اَنا کی قربانی دیں اور ملک کو زعفرانی رنگ سے بچانے کے لئے حقیقی و عملی جدوجہد کریں، کسی کی قیادت پر متفق ہوں ورنہ ان کی چھوٹے تالابوں کی حیثیت بھی باقی نہیں رہے گی۔ لالو اور نتیش نے دشمنی کی حد تک اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنے وجود کی بقا کے لئے ہی سہی ہاتھ ملایا اور اس طوفان کو اپنی ریاست میں داخل ہونے نہیں دیا۔ اکھلیش اور مایاوتی اس فراست کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ ہیلی کاپٹروں میں گھوم کر عوام سے دور رہ کر بادشاہوں کی طرح ہاتھ ہلاکر ان کی دعائیں دامن میں سمیٹنے کی خواہش پالنے والوں کا یہی حشر ہوتا ہے۔ عوام کو بہت دنوں تک بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ میچ وہ ٹیم جیتتی ہے جو اس دن مقابل سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھاتی ہے۔ کسی ٹیم کا ورلڈ چمپئن ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر میچ جیتے گی، اگر سامنے والا کپتانی کے فیصلے اچھے کرتا ہے تو ورلڈ چمپئن کو بھی ہراسکتا ہے۔ جیسا نتیش کمار، لالو اور اروند کیجریوال نے کیا۔ خراب شاٹ لگائیں گے، ہر گیند پر چھکا لگانے کی کوشش کریں یا وکٹ پر کھڑے ہوکر صرف ٹک ٹک کریں تو ہار یقینی ہے۔ بہترین کپتان وہ ہے جو ہر میچ کے لئے وکٹ کے حساب سے حکمت عملی ترتیب دے۔ اب سنجیدگی سے غور کریں تو سامنے والے کے پاس ہر الیکشن میں صرف ایک ہی نعرہ فرقہ پرستی بنام سیکولرازم، بی جے پی کو ہرائو، مودی کا مذاق، ان کے طرز عمل کا استہزاء، ان کے جملوں پر سیاست ظاہر ہے یہ حربے ہر جگہ کام نہیں کرسکتے، خاص طور سے فرقہ پرستی بنام سیکولرازم کی لڑائی کے نعرے پر عام آدمی جن میں مسلمان بھی شامل ہے، یہ سوال کرتا نظر آیا کہ جب ہم پانچ سال فرقہ پرستی سے لڑنے کے لئے دیتے ہیں تو آپ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ اس عرصہ میں فرقہ پرستی ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے اور ان کے نتائج کیا رہے۔ اگر ہر پانچ سال بعد یہی ایجنڈہ لے کر آتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا یہ نعرہ محض ڈھکوسلہ ہے، ووٹ لینے کا ایک ذریعہ ہے۔ آپ مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں اور ان سے ملے ہوئے ہیں۔ جس مودی کو اٹھتے بیٹھتے گالیاں دیتے ہیں، اپنی شادی تقریب میں ملائم سنگھ بلاتے ہیں اور دگوجے سنگھ بھی اسے سماجی اخلاقیات کا نام دیتے ہیں۔ رام گوپال خفیہ طور پر امت شاہ سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور اس کا انکشاف خود ملائم سنگھ کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ بی جے پی سے ملا ہوا ہے، پارٹی برباد کرنا چاہتا ہے۔ ملائم سنگھ گاہے بگاہے بی جے پی لیڈروں کی تعریف کرتے ہیں۔ بیٹے کو مضبوط کرنے کے لئے فیملی ڈرامہ رچتے ہیں اور پوری پارٹی اس جال میں پھنس جاتی ہے۔ راہل گاندھی مہینوں 27 سال بے حال کا نعرہ لگاتے لگاتے یوپی کو یہ ساتھ پسند ہے کا راگ بھیروی الاپنے لگتے ہیں۔ مصنوعی اتحاد قائم کیا جاتا ہے، جو زمین پر نہیں اترتا، اس لئے کہ جہاں منافقت، ریاکاری ہو، اصول اور موقف کو پل بھر میں بدل دینے میں شرم و حیا محسوس نہ ہو۔ وہ عوام کا اعتماد کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف زعفرانی طاقتیں 2014 کے بعد سے ہی اترپردیش میں سرگرم ہوگئیں۔ 265+ کا ہدف طے کیا۔ آر ایس ایس کے رضاکار اور اس کی ذیلی تنظیمیں لگاتار شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں سرگرم رہیں۔ ایک ایک گھر پر دستک دی، ہندوتو کی اہمیت کو سمجھایا۔ مسلم ووٹ بینک کے مفروضہ کو خوفناک حقیقت بناکر پیش کیا اور اس کے مقابلہ ہندو ووٹ بینک بنانے پر زور دیا۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں، ملک کو نیا بھارت بنانے کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دن رات ایک کردیا۔ ضرورت ہوئی تو اپنے وزیراعظم کو ایک شہر میں تین دن قیام کرایا، روڈشو ہوئے، وہ گلیوں میں گیا اور پورے علاقہ کو کیسریائی رنگ میں بدل دیا۔ تجزیہ کار کہتے رہے کہ حالت پتلی ہے، اس لئے کیمپ کرنے پر مجبور ہیں، اپوزیشن نے بھی مذاق اڑایا مگر جب نتیجہ آیا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مسلم ووٹ بینک نہ پہلے کبھی تھا نہ ہے، یہ مفروضہ پیدا کیا گیا۔ انتخابی سیاست کے حربے اور تماشے ہی الگ ہوتے ہیں۔ ہم صرف سمندر میں تیرنے والے خس و خاشاک کو دیکھ کر تجزیہ طے کرتے ہیں، اس کی گہرائی میں اترنے کی زحمت نہیں کرتے۔ سمندر کے اندر موجود لہروں کا اندازہ نہیں کرتے۔ جذباتیت، سطحی سوچ اور خوابوں کے برخلاف تعبیر پر اظہار برہمی صرف کھسیانیت، جہالت اور تکبر کا پتہ دیتا ہے کہ ہم اپنی روش اور چال بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ہم نے جو توہمات، تصورات اور خیالات ذہن کے ابابیلی گھونسلوں میں پال رکھے ہیں، مرغی کے انڈے سے ہاتھی کا بچہ پانے کی خواہش رکھتے ہیں اور برعکس نتائج آتے ہیں تو مورد الزام انڈے کو قرار دیتے ہیں۔ جب مرض کی تشخیص نہیں ہوگی، علاج بھی صحیح نہیں ہوسکے گا۔ ہمارے پاس حکماء و اطباء کی وافر تعداد ہے اور بفضل تعالیٰ ہر شخص حکیم و طبیب ہے اور نادر نسخہ تجویز کرتا رہتا ہے اور بضد ہے کہ یہی نسخہ شافی و کافی ہے۔
لگتا یہی ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اور مسلمان اترپردیش کے نتائج کو کھلے دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں، وہ ذہنی طور پر مفلوج ہیں، ای وی ایم میں گڑبڑی سے متعلق نت نئے انکشافات اس کا ایک مظہر ہے۔ یہ کہنا کہ بی جے پی کو ووٹ کم ملا ہے، اترپردیش کے ساٹھ فیصد عوام ہندوتو کی آئیڈیالوجی کے خلاف ہیں، صرف خودفریبی اور حقائق سے آنکھیں چرانا ہے۔ منظم فوج کروڑوں کی تعداد میں نہیں ہوتی، مگر وہ ملک پر قابض ہوجاتی ہے، جس کی آبادی فوج سے کئی سو گنا ہوتی ہے۔ سماجوادی پارٹی کو 2012 میں کم و بیش 30 فیصد ووٹ ملے تھے، کیا اس وقت یہ کہا گیا کہ اترپردیش کے 70 فیصد عوام ایس پی کے خلاف ہیں۔ کانگریس نے اقلیتی اکثریت کے سہارے 60 برس حکومت کی تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ ملک کے زیادہ تر عوام اس کے ہمیشہ خلاف رہے۔ اس ذہنیت کے ساتھ ہم کبھی مرض کے اسباب تلاش نہیں کرسکیں گے۔
اور ہاں، مسلمان موجودہ سیاسی صورت حال کے قطعی ذمہ دار نہیں ہیں، وہ چٹان کی طرح سیکولر اقدار کے تحفظ کے لئے کھڑے رہے، باقی ساری مذہبی اکائیاں اور برادریاں ہندوتو کی ترپال میں چلی گئیں، حتیٰ کہ یادو بھی داغ مفارقت دے گئے۔ جو لوگ اویسی یا ایوب کو ذمہ دار قرار دینا چاہتے ہیں وہ سیکولر پارٹیوں کی مکاریوں اور منافقتوں کا دفاع کرنے کو اوّلیت دے رہے ہیں۔ کوئی پارٹی ’ثواب دارین‘ کے لئے قائم نہیں کی جاتی، ووٹوں کی سیاست پر سب کا حق ہے۔ یہ سوال ضرور کرئیے کہ اگر آپ واقعی مودی یا بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے تئیں نیک ارادہ رکھتے ہیں تو ایس پی اور بی ایس پی نے ہاتھ کیوں نہیں ملایا؟ ہم نے تو ہر اس پارٹی کو خون پلایا جس نے مذاق میں بھی سیکولرازم کا نام لے لیا، جو بھی پیار سے ملا ہم اسی کے ہولئے، کسی کو مایوس نہیں کیا، جس نے بی جے پی ہرائو کا نعرہ مستانہ لگایا اس پر لبیک کہا۔ یہ سادہ لوحی ہے یا سیکولرازم کے تئیں اٹوٹ وفاداری، دونوں صورتوں میں کسوٹی پر کھرے اترے ہیں۔ خاندانی سیاست اور شخصی بادشاہت کو چائے پلانے والے نے چیلنج کیا ہے، اس کے پاس ہندوتو کا نظریہ ہے، ملک کو ’نیو انڈیا‘ میں بدلنے کا خواب، آپ کے پاس کیا ہے؟
qasimsyed2008@gmail.com