خبر درخبر(506)
شمس تبریز قاسمی
بابری مسجد ملکیت کامقدمہ تقریبا پچاس سالوں تک الہ ہائی کورٹ میں چلنے کے بعد اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ،2010 میں بابری مسجد کی ملکیت کے تعلق سے الہ باد ہائی کورٹ کی لکھنوکا بینچ کا ایسا فیصلہ آیا جو دونوں فریق کیلئے ناقابل قبول تھا،کچھ ماہ بعد سپریم کورٹ نے اس پر روک لگاکر از سرنو اس مقدمہ کی سماعت شروع کی ، اسی مسئلے پر کل چیف جسٹس جگدیش سنگھ کہر کی صدارت والی بینچ نے سبرامنیم سوامی کے ذریعہ دائر کی گئی درخواست پر یہ کہاکہ بابری مسجد کا معاملہ جذبات سے جڑا ہواہے اس لئے بہتر ہوگا دونوں فریق آپس میں مذاکرت کے ذریعہ اسے حل کرلیں ،اگر ثالثی کی ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ کے اسٹنگ جج یہ فریضہ انجام دیں گے ،سپریم کورٹ نے یہ بھی کہاہے کہ 31 مارچ تک دونوں فریق مذاکرات کرکے صورت حال سے عدلیہ کو آگاہ کریں ۔
بابری مسجد کا معاملہ مسلمانوں کے مذہب اور عقیدت سے جڑا ہواہے ،1527 میں یہاں مسجد بنائی گئی تھی جب نہ تو کسی مندر کا یہاں تصور تھا اور نہ ہی کوئی رام جنم بھومی کے یہاں آثار تھے ،برٹش حکومت کے آخری ایام میں یہاں رام جنم بھومی کا شوشہ چھوڑا گیا اور 1949 میں زبردستی مسجد کے اندر مورتیاں رکھ دی گئیں،1961 میں مسجد پر زبردستی قبضہ کے خلاف مقدمہ دائر کیا گیا جس کا فیصلہ الہ آباد ہائی کورٹ نے ستمبر 2010 میں آستھا کی بنیاد پر کرتے ہے ہوئے مسجد کی جگہ کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جسے مسلمانوں نے مسترد کردیا ،اس سے قبل 1992 میں ہندؤوں نے بابری مسجد کو شہید کردیا،اس دوران تقریبا پانچ وزراء اعظم راجیوگاندھی،وی پی سنگھ،چندر شیکھر،اٹل بہاری واجپئیاور منموہن سنگھ نے مذاکرات اور بات کے ذریعہ اس تنازع کو حل کرنے کی پہل کی لیکن کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی،چندرا سوامی ،شنکر آچاریہ جیندر سرسوتی،ستیندر داس اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق صدر مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی،موجودہ صدر مولانا رابع حسنی ندوی،نائب صدر مولانا کلب صادق نے آپسی بات چیت کے ذریعہ یہ قضیہ حل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں مل سکی اور ہر ناکامی کی وجہ ہندو فریق کی ہٹ ڈھرمی تھی کیوں کہ انہوں نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کی کبھی کوشش نہیں کی ،ہمیشہ مسلمانوں سے مسجد سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ۔
برسوں تک مقدمہ کو زیر التورکھنے کے بعد سپریم کورٹ نے اب اسے آستھا اور عقیدت کا مسئلہ قراردیتے ہوئے عدالت سے باہر فیصلہ کرنے کا مشورہ دیاہے تو اس موقع پر شدت پسند ہندو،اور سبرامنیم سوامی جیسے لوگ کہ رہے کہ یہاں بہر صورت رام مندر کی تعمیر ہوگی ،خواہ رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ عدالت صادر کرے ،یامسلمان خود دستبر دار ہوجائیں یا پھر پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون بنانے کی ضرورت پڑے ، وشو ہند پریشدنے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے انکارکرتے ہوئے کہاہے کہ یہاں پر رام مندر کی تعمیر کے سوا کسی اور چیز کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یوپی کے نومنتخب وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی سپر یم کورٹ کے فیصلے کے خیر مقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ دونوں فریقوں کو آپس میں بیٹھ کر اس مسئلے کا نکالنا چاہیے۔
دوسری طرف مسلم قیادت میں اس تعلق سے شدید اختلاف نظر آرہاہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنر سکریٹری مولانا محمدولی رحمانی صاحب نے کہاہے کہ ہم نے پہلے بھی بات چیت سے انکار نہیں کیا لیکن رام جنم بھومی کے نمائندے کئی بارمذاکرات کوناکام کرچکے ہیں،تاہم چیف جسٹس آنڈیا کے مشورہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں،جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی صاحب نے ملت ٹائمز سمیت دیگر اخبارات کو ایک پریس ریلیز جاری کرکے سرے سے سپریم کورٹ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے یہ مشورہ ناقابل عمل ہے کیوں کہ یہ حق اور ملکیت کا معاملہ ہے ،مذہب سے اس کا تعلق ہے ،ماضی میں ایسی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں ،مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے بھی سپریم کورٹ کے مشورہ کو مسترد کرتے ہوئے کہاہے کہ ایسی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، اس کے برعکس مولانا سید احمد بخاری شاہی امام جامع مسجد دہلی کا کہناہے کہ بابری مسجدمعاملے پر سپریم کورٹ کے مشورے کو مسترد نہیں کیاجاناچاہیئے، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی صاحب نے آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈسے اتفاق کرتے ہوئے اپنا ردعمل پیش کیاہے کہ بورڈ یہ مقدمہ لڑرہی ہے ہم اس کے ساتھ ہیں ۔ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینرجناب ظفر یاب جیلانی کا دعوی ہے کہ ہم فیصلہ جیتنے کے موڑ پر پہونچ چکے ہیں، دلائل اور حقائق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے وہ مسجد کی ہی جگہ ہے ،اس لئے اس طر ح کا کوئی بھی مشورہ ہمارے حق میں مضرثابت ہوگا کیوں کہ عدلیہ کے باہر جو فیصلہ ہوگا وہ اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر ہوگا، حقائق سے قطع نظر عقیدت کو بنیاد بنایاجائے گا ۔ ان تمام آراء سے ہٹ کر ایک مسلم دانشور نے بابری مسجد ہندو فریق کو دینے کی پیشکش کردی ہے اور اس کے عوض انہوں نے مسلمانوں کو کچھ چیزیں دینے کا مطالبہ کیاہے جیسے علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کو اقلیتی یونیورسیٹی کا درجہ وغیرہ ۔بابری مسجد کا مقدمہ لڑنے والے تمام مسلم رہنماؤں اور تنظیموں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علاحدہ علاحدہ ردعمل دینے اور اپنا موقف ظاہر کرنے کے بجائے اکٹھے ہوکر بیٹھیں ، اس مسئلے پرغور وخوض کریں، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بینر تلے اس کا کوئی حل تلاش کریںیا پھر کوئی اور متفقہ قدم اٹھائیں ،یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ جب مسجد شہید کی جارہی تھی اس وقت اتر پردیش میں بی جے پی کی سرکار تھی اور مرکز میں کانگریس کی لیکن آج دونوں جگہ بی جے پی کی ہی ہر سرکار ہے جس کے ایجنڈے میں رام مندر کی تعمیر بھی شامل ہے اور مسلمانوں کے پاس عدلیہ کے علاوہ کہیں سے کوئی امید نہیں ہے ۔
بابری مسجد مسلمانان ہند کا سب سے نازک ،حساس اور سنگین مسئلہ ہے ،مورتی رکھے جانے سے اس کی شہادت تک اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانان ہند اس کی حصولیابی اور بازیابی کیلئے ہزراوں قربانیاں دے چکے ہیں اور عدلیہ سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے ہیں ، مقدمہ لڑنے والے مسلم فریق کو یہ یقین بھی ہے کہ دلائل اور حقائق کی روشنی میں ہم قوی اور مضبوط ہیں اوراس جگہ کے رام جنم بھومی ہونے پر کوئی ثبوت نہیں ہیں ، ایسے میں عدلیہ کی جانب سے اسے آستھا اور عقیدت کا مسئلہ قراردیکر فیصلہ نہ کرسے اجتناب کرنا مسلمانوں کے لئے مایوسی کا سبب بن گیا ہے اور پس پردہ شایدیہ پیغام دیا گیاہے کہ بابری مسجد کی اراضی کا فیصلہ عدالت سے باہر اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر کیاجائے گا جس میں مسلمان قلت افراد کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔