مولانا سید آصف ندوی
اب سے محض چند دہائیوں قبل تک اس دنیا میں معاشی نظام کے طور پر اشتراکیت (Socialisam ) کو نافذ کرنے کی بہت کوششیں کی گئیں تھیں(جس نظام معیشت میں حکومت وقت کورعایا کے معاشی ومعاشرتی امور میں مداخلت نیز تمام تر وسائلِ دولت و اشیائے صرف کو بزور طاقت قومی تحویل میں لینے کامکمل اختیار حاصل تھا) ۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک مال و دولت کی حرص کو پوری کرنے اور پوری دنیا پر اپنا پنجۂ استبداد گاڑھنے کی نیت سے حکومت اور طاقت کے بوتے پر سوشلزم جیسے مہلک ترین معاشی نظام کو مجبور و بے کس رعایا پر تھوپتے چلے جارہے تھے، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں پوری دنیا اور خصوصاًماہرین معاشیات نے نہ صرف اس کے مضرات و نقصانات کو بھانپ لیا بلکہ چشمِ سر سے اسکے ذریعے معاشرہ اور سماج میں پیدا ہونے والی تباہی و بربادی کو دیکھ بھی لیا۔ اور پھرایک وقت آیا کہ رفتہ رفتہ وہ نظام معیشت اس دنیا سے ختم ہوتا چلاگیااور اس کی جگہ (Capitalisam) سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے لے لی، اور یہی نظام اس وقت پوری دنیا میں رائج ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن فطری خرابیوں کے رد عمل کے طورپر سوشلزم اور اشتراکیت کا نظام وجود میں آیا تھا ، وہ تمام خرابیاں(غریبوں کا استحصال، سرمایہ دارٹولے کا تحفظ، امراء کی جیب بھرائی ، دولت کا ارتکاز) اس سرمایہ درارانہ نظام معیشت میں بھی موجود ہے ، جس کی وجہ سے دنیا اور انسانی معاشرہ ہر نئے دن پہلے سے زیادہ غیر برابری کا شکار ہوتاچلا جارہا ہے ۔ اورچونکہ ماہرین معاشیات کسی متبادل معاشی نظام کو دریافت نہیں کرپارہے ہیں اس لئے اسی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے پر مجبور ہے ۔
لیکن ایساہو نہیں سکتا کہ دنیا میں موجودنظامِ معیشت میں پائی جانے والی عدم مساوات اور نابرابری کے مسئلے کا کوئی حل ہی نہ ہو، اور دکھی انسانیت کی نجات کا کوئی راستہ ہی نہ ہو، خالق کائنات نے جب اس کائنات کو تخلیق فرمایا ہے تو وہ اس کو وقوع قیامت سے قبل یوں تباہ نہیں ہونے دے گا، اس نے بہت پہلے ہی ہرمیدان عمل میں رہنمائی و رہبری کے لئے اپنے برگزیدہ بندوں کا ایک زرین سلسلہ اس دنیا میں مبعوث فرمایا ، سب سے اخیر میں رسالت مآب ﷺ کو رحمۃ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا اورآپ پر ایک کتاب ہدایت بھی نازل فرمائی۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ دیکھے کہ رحمۃ للعالمین ﷺ نے پہلی اسلامی ریاست (جس کے اکثریتی طبقے اور مقامی باشندوں اوس و خزرج کی خانہ جنگی نے ا ن کے معاشی و اقتصادی ڈھانچے کو تقریباً کھوکھلا کرکے رکھ دیا تھا جس کی وجہ سے وہ مجموعی طور پر غربت کا شکار تھے ، اور دوسری طرف ریاست کی آبادی کا ایک حصہ وہ مہاجرین کرام تھے جو انتہائی بے سروسامانی کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لائے تھے اور بالکل غریب تھے )کے معاشرتی ڈھانچے کو کن خطوط پرمستحکم کیا کہ جن کی وجہ سے بہت ہی قلیل عرصے میں وہ ریاست ایسی خوش حال ہوگئی کہ وہاں غربت کا مسئلہ ختم ہو کر رہ گیا۔
پہلی اسلامی ریاست مدینہ منورہ میں وہ تمام عناصر موجود تھے جو موجودہ معاشی نظام کے بنیادی عناصر مانے جاتے ہیں یعنی حکومت ، اناج و غلہ پیدا کرنے والے افراد، صارفین، لیکن اس ریاست میں ان عناصر کے ساتھ ساتھ مزید ایک بنیادی عنصر شامل تھا جس کی وجہ سے بہت تھوڑے وقت میں ریاست معاشی طور پر مستحکم ہوگئی ، وہ عنصر تھا (وقف فی سبیل اللہ) ۔
اوقاف یا وقف فی سبیل اللہ ایک ایسا عنصر ہے کہ اگر اس کو کما حقہ متحرک و سرگرم کردیا جائے اور اس کی آمدنی سے محتاجوں و ناداروں کی دادرسی ،بیکسوں و پریشان حالوں کے دکھ درد کا مداوا، مریضوں کے علاج ومعالجہ کے لئے شفا خانوں کی تعمیر،سماج کے ناخواندہ افراد کی تعلیم وتربیت کے لئے اسکولس و کالجس اور مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے ، غرض یہ کہ مستحقین کی اعانت و سماجی خدمات کا فریضہ پوری دیانت و امانت داری اور حسن خوبی کے ساتھ ادا کیا جائے تو بلا تردد یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اسلامی معاشرہ کو درپیش متعدد بلکہ اکثر وبیشتر سماجی و معاشرتی مسائل چند ہی سالوں میں حل ہوجائیں گے۔
وطن عزیز بھارت میں موجود مسلم اوقاف کی ا راضیات واملاک کا تخمینہ پیش کرنے یا اس کا تجزیہ پیش کرنے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وقف کی اصطلاحی تعریف اور شریعت مطہرہ میں وقف کی اہمیت و عظمت کو مختصر طور پر پیش کیا جائے تاکہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے ارباب فکر و دانش بیدار ہو، اور وہ اپنے آباء و اجداد اور پرکھوں کی جانب سے وقف کردہ اربوں اور کھربوں کی املاک میں پائی جانے والی بدعنوانیوں، قطع وبرید اور بے جا تصرفات کے خاتمے کے لئے کوشاں ہوجائیں تاکہ اس کے ذریعے ہونے والی آمدنی سے مسلم معاشرہ میں پائی جانے والی بدحالی کو ختم کیا جاسکے۔
اصطلاح شریعت میں وقف کہتے ہیں اپنی ملکیت کو رضاء الہی کی خاطر خالق کائنات کی ملکیت میں دینا تاکہ اس کے مستحق بندے اس وقف کردہ ملکیت کی آمدنی سے مستفید ہوتے رہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک مرتبہ وقف کرنے کے بعد اس ملکیت کوواقف(وقف کرنے والا) دوبارہ اپنی ملکیت میں واپس نہیں لے سکتا اور نہ ہی وہ اس ملکیت کو کسی کو فروخت کرسکتا ہے نہ ہبہ کرسکتا ہے۔ وقف ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے سے ملت کو معاشی و اقتصادی اور معاشرتی طاقت و قوت حاصل ہوتی ہے ،وقف کرنے کے بعد واقف کو مستقل ثواب پہنچتا رہتا ہے ۔
اسلام سے قبل بھی وقف کی مختلف صورتیں دنیا میں پائی جاتی تھیں لیکن اسلام نے وقف کا جوبہترین تصور اور عمدہ ترین خاکہ پیش کیا ہے کوئی اور نظام وقف اس کی برابری نہیں کرسکتا، کیونکہ اسلام میں وقف کی بنیاد کتابِ مقدس کی یہ آیت بنی ہے (لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ) جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب تک اپنی محبوب چیزوں کو خرچ نہ کروگے(کامل) نیکی (کے مرتبہ) کو نہ پہنچ سکوگے۔ کتب تفسیر میں لکھا ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو حضرت طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے مقابل واقع اپنا باغ اللہ کی راہ میں وقف فرمادیا، اور یہ عمل رسالت مآب ﷺ کی ایماء اور آپ کی موجودگی میں فرمایا تھا اس بناء پر اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اپنی ملکیت کو راہِ خدا میں وقف کرنے سے انسان نیکی کے درجۂ کمال کو پالیتا ہے ۔
اسی طرح رسالت مآب ﷺ کا ارشاد مبارک ہے (إذَا مَاتَ الإنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُہُ إلاَّ مِنْ ثَلاثٍ : صَدَقَۃٌ جَارِیَۃٌ ، وَ عِلْمٌ یُنْتَفَعُ بِہِ ، وَ وَلَدٌ صَالِحٌ یَدْعُو لَہُ۔سنن ترمذی حدیث نمبر ۱۳۷۶) جب انسان مرجاتا ہے تو سوائے تین طرح کے اعمال کے اس کے تمام اعمال (اور ان کے اجر و ثواب کا سلسلہ) منقطع ہوجاتا ہے (۱) ایسا صدقہ کرنا جس کا ثواب قیامت تک جاری رہے(۲) ایسا علم چھوڑ جائے جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہو (۳) نیک اولاد چھوڑ جائے جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صدقۂ جاریہ کا مصداق کیا ہے ؟ یا کونسا صدقہ صدقہ جاریہ کہلاتا ہے ؟ اس کا جواب نہایت ہی آسان ہے کہ صدقۂ جاریہ سے مراد وقف ہے اس لئے کہ وقف ہی ایک ایسا صدقہ ہوتا ہے جس میں اصل ’’ چیز‘‘ باقی رہتی ہے اور اس کے حاصل شدہ فوائد سے برابر صدقہ کیا جاتا ہے ۔ اور دوسری طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اپنی محبوب و پسندیدہ املاک کو وقف کرنا انبیاء کرام اور خصوصاً رسالت مآب ﷺ کی سنت رہی ہے ۔ سب سے پہلے آپ نے مدینہ کے دو یتیم بچوں کی زمین خرید کر اس پر مسجد نبوی کی تعمیر کرکے وقف کے عمل کی بنیاد ڈالی، اور آپ نے واضح الفاظ میں اس بات کی صراحت کی کہ (إنَّا مَعْشَرَ الأنبیاءِ لا نُوَرِّثُ مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ) ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے ۔ اس حدیث نبوی سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اپنی ملکیت کو راہ خداوندی میں وقف کرنے والادراصل ایک عظیم الشان سنت نبوی کو زندہ کرتا ہے اور مرنے کے بعد بھی اجر و ثواب کی شکل میں سدا جاری رہنے والا سلسلہ اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔
بہرحال اب ہم وطن عزیز میں پائی جانے والی اوقاف کی املاک کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔ بقول برادرم عبدالقیوم ندوی(جنرل سکریٹری تحریک اوقاف) : ’’بھارت میں اس وقت اوقاف کی رجسٹرڈ جائیدادوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہیں ،جس کا رقبہ چھ لاکھ ایکڑپر مشتمل ہے ، سرکاری حساب سے اس کی مالیت چھ ہزار کروڑ روپئے (60 Billion)ہیں۔تاہم بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ اتنی قیمتی جائیداد کی آمدنی صرف ۱۶۳ کروڑ روپئے ہیں یعنی کل سرمایہ کا صرف (2.7%)۔ اگر ایماندارانہ طور پر وقف پراپرٹی کا موجودہ مارکٹ ویلیو نکالا جائے تو وقف بورڈ کی سالانہ آمدنی ۱۲ تا ۱۵ ہزار کروڑ روپئے ہوسکتی ہے۔ سب سے برا حال مہاراشٹرا وقف بورڈ کا ہے ، اور سب سے زیادہ ناجائز قبضہ جات مہاراشٹر ہی میں ہوئے ہیں۔ سیاسی لیڈروں اور وقف بورڈ کے ذمہ داران کی مہربانی سے ملک کی موجودہ اوقاف جائیداد کی جوقیمت نکالی گئی وہ 12000 بلین ہے ، اگر اس رقم کا 10% حصہ یعنی 12000 کروڑ بھی مسلمانوں کے تعلیمی و سماجی مسائل پر خرچ کئے جائے تو سرکاری خزانہ کو ہاتھ لگائے بغیر ان کی ترقی ہوسکتی ہے‘‘ ۔
آج اگر ہم وطن عزیز بھارت میں موجود مسلم معاشرہ کا ایک طائرانہ جائزہ بھی لیتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ تعلیمی ، اقتصادی، سیاسی ، سماجی ومعاشرتی غرض یہ کہ ہر میدان عمل میں زبوں حالی و پسماندگی کا شکار ہے ۔ جب کہ اس کے سامنے اس کے اپنے آباء و اجداد اور پرکھوں کے ذریعے وقف کردہ اربوں اور کھربوں کی املاک و اراضی موجود ہیں ، لیکن حیف در حیف کہ زیادہ تر املاک دنیادارمفاد پرست متولیوں، سیاسی بازیگروں، لینڈ مافیاؤں اور سرکاری محکمہ جات کی خرد برد کا شکار ہے ۔ اور اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے زیادہ تر ارباب فکر و دانش اس اہم ترین مسئلے کی طرف سے آنکھیں موند ے خواب خرگوش کے مزے لینے میں لگے ہوئے ہیں ۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اتنے بڑے سرمایہ سے آنکھیں بند کرکے پڑے رہنا کوئی عقلمندی نہیں ہے ، اس و قت ہماری ریاست مہاشٹر میں سرکاری سطح پر از سر نو مسلم اوقاف اور اس کی املاک و اراضی کی تحقیق و معائنہ (Survey)کا عمل ہونے جارہا ہے ، اور سرکاری تحقیقات و معائنہ جات کا طرز عمل اور طریقۂ کار کس نوعیت کا ہوتا ہے اس سے ہر ذی ہوش واقف ہے ۔ لہٰذا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب فکر و دانش، مسلم وکلاء حضرات اور ہمدردان قوم وملت اوقافی املاک کے تحفظ اور اس کی سلامتی کے لئے اپنا کردار ادا کریں ، نیز علماء کرام خصوصاً ائمہ وخطباء حضرات سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ وہ عوام الناس کو وقف کی شرعی حیثیت، اس کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کریں تاکہ عوام میں شعور بیدار ہو اور وہ یہ سمجھ سکے کہ اگر وطن عزیز بھارت میں مسلم اوقاف صحیح اور مثبت طریقہ پر متحرک وسرگرم ہوجائے تو بیک وقت کئی محاذوں پر کام کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً نونہالان ملت اسلامیہ ہندیہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے اسکولس و کالجس حتی کہ یونیورسٹیز کا قیام تک عمل میں لایا جا سکتا ہے ، غریب و سلم علاقوں میں خطرناک جان لیوا امراض سے جوجھ رہے اور طبی سہولیات سے محروم افراد کے لئے شفاخانوں اور مفت ادویہ کی سہولیات فراہم کرسکتے ہیں ، اسی طرح مسلم نوجوانوں کوایسے مختلف فنون و ہنر( جن کی مارکیٹ میں ضرورت اور چلن ہو) کا ماہربنانے کے لئے پالی ٹیکنک اداروں یا ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹرس قائم کرسکتے ہیں، اسی طرح شرعی و فقہی اصولوں پر ضرورتمند مسلمانوں کو قرض حسنہ فراہم کیا جاسکتا ہے ۔ حاصل کلام یہ کہ بڑی سرعت کے ساتھ مسلم سماج کی تعلیمی ، اقتصادی، سیاسی وسماجی حالت بدل سکتی ہے ۔
خدایا آرزو کردے یہ پوری
یہی بس التجا ہے تجھ سے میری
(امام وخطیب مسجد قدسیہ قدوائی نگر و شہر صدر جمعیت علماء ناندیڑ)