مشرّف عالم ذوقی
آج چوبیس مارچ ہے، یہ میرا دن ہے، اس دن کچھ نہ کچھ لکھنے کی عادت رہی ہے، لیکن آج میں اداس ہوں، زندگی کی پچپن بہاروں اور پچپن خزاؤں کا حساب لگاتا ہوں تو ایک بلیک ہول نظر آتا ہے، یہاں میری بہاریں قید ہیں … اور خزاں مجھ پر ہنسنے کے لئے آزاد ۔ میرے پاس آج کے دن پت جھڑ کے سوکھے ٹوٹے پتوں کے سوا کچھ بھی نہیں … تئیس مارچ کا سارا دن گزر گیا ، ١٢ بجنے میں پندرہ منٹ باقی تھے … ٢٤ مارچ کی شروعات ہونے والی تھی … میں خوش تھا کہ یہ دن کسی کو یاد نہیں ، ویسے بھی ، خزاں موسم میں ، اب کچھ یاد کرنے کے لئے بچا ہی کیا ہے، لیکن ١٢ بجتے بجتے صورتحال تبدیل ہو چکی تھی ، ڈرائنگ روم میں کافی رشتے دار آ چکے تھے ، کیک کو کاٹے جانے کی رسم باقی تھی ، میرا بیٹا عکاشہ ، تبسّم ، تبسم کی بہن ، بھائی ، بہنوئی ، ان کے دونوں چھوٹے معصوم بیٹے ریان اختر اور فرحاں اختر ، ان سب کی موجودگی نے خزاں رت کے احساس کو کچھ دیر کے لئے کم کر دیا … ایک گھنٹے سے زیادہ جشن کا ماحول رہا … پھر خزاں کے سوکھے پھولوں نے آہستہ آہستہ مجھے اپنی گرفت میں لے لیا …
مجھے کچھ کہنا ہے … لیکن کیا کہوں ؟ کیا وہی کچھ جو آج کے ماحول میں خوفزدہ موسم ہم سے کہ رہا ہے … تیئس مارچ کی شام تبسّم فرینز کفکا کا ایک ڈرامہ دیکھ کر لوٹی تھی … دی ٹرائل — غیر معروف ایجنسی کے دو اجنبی ایجینٹ جوزف کے کو گرفتار کرنے آتے ہیں، ایک ایسے جرم کے لئے جو اسنے کیا ہی نہیں … جوزف کے پر مقدمہ شروع ہوتا ہے … تبسّم ڈرامہ دیکھنے کے بعد اداس گھر واپس آیی تھی ، مجھ سے پوچھا — کیا مسلمانوں کی حالت جوزف کے سے مختلف ہے …؟
سوچتا ہوں، کہاں مختلف ہے .؟ ہم بے رحم وقت کی عدالت میں ہیں، مقدمہ شروع ہو چکا ہے ، ہم میں اور یوگی آدتیہ ناتھ میں فرق ہے، وہاں پولیس والے جرائم کی فائل لے کر آتے ہیں ، اور سارے گناہ اسی طرح دھل جاتے ہیں جیسے گجرات ملزمین کے دھل گئے – جیسے انکاؤنٹر اسپیشلسٹ بنجارا کے دھل گئے … خزاں کے اس موسم میں گناہ کرنے والے ، قاتل ، ملزم ، حیوانیت کا راستہ اختیار کرنے والے اگر مسلمان نہیں ہیں تو بے گناہ ہیں، اور غلطی سے مسلمان ہیں تو انہیں جوزف کے کی طرح گناہ کرنے ، جرم کرنے کی ضرورت نہیں .وہ قصور وار ہیں، خطرناک مجرم ہیں، اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں اور وقت کی عدالت میں مسلمان ہونا آج سب سے بڑا جرم ہے، ایک ایسا سنگین جرم جس کے لئے پھانسی کی سزا اور سزاۓ موت بھی کم ہے۔
ہم ایک ایسے خوفناک وقت کی عدالت میں ہیں، جہاں جبر و ظلم اور بربریت کے خونی پپنجے تیز رفتاری سے ہماری طرف بڑھتے آ رہے ہیں .کچھ مناظر دیکھئے میرے ساتھ …. لکھنؤ میں ایک عورت کو ایک شخص طمانچہ مارتا ہوا کہتا ہے … تیرا باپ آ گیا ہے ، تیرا باپ آ گیا ہے … یہ آواز مسلسل میڈیا سے سڑک ، چوراہوں تک گونج رہی ہے ۔ سمیت اوستھی نام کا اینکر ظفریاب جیلانی پر پروگرام میں چلاتا ہے اور وہ سیٹ چھوڑ کر چلے جاتے ہیں … ہزار مقدموں میں ملوث یوگی بے ہنگم زبان میں اویسی کو پھٹکار لگاتا ہے، منی پور اور گوا پر زبردستی قبضے کی رسم ادائیگی ہوتی ہے، سڑکوں ، چوراہوں پر اب آپ کی رسوائی کا سامان پیدا کرنے والے موجود ہیں …!
ایک غیر مہذب معاشرہ … جہاں ظلم کی حکومت … اقتدار پر برتری حاصل کرنے کے لئے ہر گناہ ہر جرم روا … مداخلت اور احتجاج کی آواز بلند کرنا بھی ملک دشمنی میں شامل ….. زبان بندی مقدّر … جھلستے جلتے مکانوں کو دیکھنا عام زندگی … اپنے پیاروں کو بے گناہی کے جرم میں جیل کی سلاخوں میں دیکھنا اور چپ رہنا دانش مندی …
ہم ایک سہمی ہوئی دنیا میں ، ایک خوفزدہ کائنات میں سرگوشیاں کرتے ہوئے … کہ چپ رہو — چپ رہو … وقت کے نا خداؤں کے ہاتھ میں ہماری زندگی ہے، ہماری عزت ہے … چپ رہو …خاموش رہو … بے رحم زنجیریں ہمارا خون چوس رہی ہیں … چوسنے دو … خدا کے لئے چپ رہو … لپلپاتی زبانوں والے سانپ ہماری طرف بڑھتے آ رہے ہیں … مگر … خدا کے لئے …خاموش رہو … مصلحت … مصلحت … مصلحت ..
کیسی مصلحت ہے یہ ؟
یہ مصلحت مصلحت کی آوازیں ہمیں بے حس، لاچار اور سرد لاش میں تبدیل کر رہی ہیں … آزمائشیں سخت ہو جاہیں تو کیا خاموشی سے ، سہمے ہوئے انداز میں آنے والی موت کو قبول کر لیا جائے ؟ کیا خاموشی ان کے حوصلوں کو مزید بلند نہیں کرے گی ؟ یوگی کا آنا بھی ایک علامت … کہ ہم نے ابابیلوں کی فوج تم پر اتار دی ہے … اور تم اف بھی نہیں کر پاؤ گے … ہم آگے بھی تمہارے لئے ایسے ہی جھلستے موسم کا عذاب اتاریں گے اور تم خاموش رہو گے … جوزف کے کا ٹرائل ختم ہوتا ہے … ہاں … میں اس جرم کو قبول کرتا ہوں … جو میں نے انجام نہیں دیا … میرا جرم ہے کہ میں مسلمان ہوں …. میں وقت کی عدالت کا مجرم … پھانسی کی سزا کے لئے تیار ….!!!