ڈاکٹرسید فاضل حسین پرویز
اترپردیش میں مبینہ طور پر چلائے جانے والے غیر قانونی مسالخ کو بند کردےئے جانے کے خلاف گوشت کے کاروبار سے وابستہ افراد نے ہڑتال کردی ہے جس میں مچھلی کے بیوپاری بھی شامل ہیں۔ یوگی نے جو انتخابی وعدے کئے تھے اقتدار کے نئے جوش میں اُسے پورا کرنے میں جٹے ہوئے ہیں اور اس جوش میں وہ وقتی طور پر یہ فراموش کرگئے ہیں کہ ان کے اس اقدام سے ان کے چاہنے والے اور ہندوتوا کے نعرے باز ضرور خوش ہوں گے مگر سماج میں جو بے چینی پیدا ہوگی اُس سے امن و قانون کے متاثر ہونے کے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں حالانکہ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کے سب سے کم عمر چیف منسٹر نے لاء اینڈ آرڈر کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے مگر آثار یہی بتاتے ہیں کہ یوپی میں بی جے پی کا اقتدار تو آگیا مگر اس کے یا یوگی کے اچھے دن آنے والے نہیں ہیں۔ حالات کا شکست خوردہ جماعتیں بھرپور فائدہ اٹھائیں گی اور معاش سے جڑے ہوئے اس حساس مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے گا۔ یوگی جب تک آدتیہ ناتھ تھے طاقتور تھے، اب اترپردیش کے چیف منسٹر بن کر پورا اقتدار ان کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود وہ سب سے کمزور انسان ہیں۔اس وقت مسالخ کے بند کئے جانے سے بظاہر مسلم چہرے اُداس اور پریشان نظر آتے ہیں‘ جنہیں حقائق کا علم نہیں‘ وہ یہی سوچ کر خوش ہورہے ہوں گے کہ مسلمانوں کی معیشت پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ مگر ان نادانوں کو یہ اندازہ نہیں کہ گوشت‘ چاہے وہ بیف ہو یا میٹ یا مٹن‘ اس کے اصل بیوپاری چاہے وہ ایکسپورٹر ہو یا ماڈرن سلاٹر ہاؤس کے مالک ہو‘ زیادہ تر غیر مسلم ہی ہیں جنہوں نے مسلم ممالک کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اپنے ایکسپورٹس ہاؤز کے عربی نام رکھتے ہیں جیسے ’’النور ایکسپورٹس ہاؤز‘‘ جس کے پارٹنر سنیل سودھ ہیں۔ حتیٰ کہ اترپردیش میں گاؤکشی کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ خود بیف ایکسپورٹر ہیں۔ بیف، میٹ یا مٹن کے کاروبار سے وابستہ بیشتر مسلمان غریب یا اوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن حالات سے اترپردیش اور ملک کے دیگر ریاستیں گذر رہی ہیں ان میں آج نہیں تو کل یہ لوگ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھال لیں گے۔ محنت کش طبقہ ہے‘ کسی نہ کسی شعبے میں مصروف ہوجائے گا، اُن ارب پتی غیر مسلم تاجروں کا کیا ہوگا جنہوں نے بیف یا میٹ ایکسپورٹس سے دولت کمائی اور جس پر ان کے مستقبل کا انحصار ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جس پیشے یا صنعت سے مسلمان وابستہ ہیں انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ وہ صنعتی شہر جہاں مسلمانوں کے صنعتی ادارے ہیں‘ فرقہ وارانہ فسادات میں ان کی املاک کو نقصان پہنچاکر انہیں معاشی طور پر کمزور کردیا جاتا ہے۔ پولٹری انڈسٹری میں مسلمانوں نے اپنا مقام بنایا تو برڈ فلو کے نام پر انڈسٹری کو نقصان پہنچایا گیا۔ بیف پر پابندی کی آڑ میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی اور اب جب مسلمانوں نے مقامی قانون کے مطابق بیل اور بھینس یا بھینسے کے کاروبار پر توجہ دی جس کی قانونی طور پر اجازت ہے تو انہیں بھی مختلف بہانوں سے متاثر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو بیف کے نام پر اس قدر ہراساں کیا گیا اور کیا جارہا ہے کہ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ دادری سے لے کر تلنگانہ کے علاقوں میں تک اچانک دھاوے کرکے مٹن کو بیف ثابت کردیا جاتا ہے‘ ناانصافی‘ جبر کا دور دیرپا نہیں رہتا۔ ہر دور میں ظالم اور جابر، حکمرانوں اور انکے آلہ کاروں کا انجام کچھ اچھا نہیں رہا۔ وہ تاریخ میں عبرت کی مثال بنکر رہ گئے۔
ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے آپ کو حالات سے ہم آہنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ خود اتحاد ملت کونسل نے گذشتہ سال حکومت سے یہ مطالبہ کیا تھاکہ بیف ایکسپورٹ پر پابندی عائد کی جائے۔ جتنا بیف ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اس کا ایک چوتھا حصہ بھی مقامی مسلمان استعمال نہیں کرتے۔ ہندوستان بیف ایکسپورٹ میں سرفہرست ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے جتنا بیف ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اس میں ہندوستان کا حصہ 20فیصد ہے۔ اور گذشتہ پانچ برس کے دوران پورے ہندوستان سے 40ہزار کروڑ روپئے کا بیف ایکسپورٹ کیاگیا اور آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ جب سے گاؤکشی پر امتناع پر سختی سے عمل ہورہا ہے اور گائے کے بجائے بھینس یا بھینسے کا گوشت زیادہ استعمال ہورہا ہے یعنی ان کے ذبیحہ میں اضافہ ہوا ہے تو ان کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ مویشیوں کی مردم شماری کے مطابق 2007 سے 2012ء کے درمیان بھینسوں کی آبادی میں 3.2فیصد اضافہ ہوا۔ 2007ء میں اگر 105.3ملین ان کی آبادی تھی تو 2012ء تک یہ آبادی 108.7 ملین ہوگئی ہے۔ جبکہ دوسرے مویشیوں کی آبادی میں ان میں گائے اور بیل بھی شامل ہے‘ 41فیصد کمی ہوئی ہے۔ 2007ء میں دوسرے مویشیوں کی آبادی 199بلین تھی تو 191بلین ہوگئی۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ بکرے ہر روز ذبح ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کی آبادی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس کا جواب یہی ہوسکتا ہے جو زیادہ کٹتے ہیں وہی زیادہ بڑھتے ہیں۔
جہاں تک ہندوستان میں میٹ انڈسٹری کا تعلق ہے‘ اس سے 22ملین افراد کا روزگار وابستہ ہیں۔ صرف یوپی میں 25لاکھ افراد اس سے وابستہ ہیں۔ پورے ملک میں 72سرکاری مسالخ ہیں جن میں یوپی میں 38مسالخ ہیں ان میں سے چار سرکاری طور پر قائم کئے گئے ہیں‘ جس میں سے صرف آگرہ اور سہارنپور کے مسالخ کام کررہے ہیں۔ یوپی میں ایک رپورٹ کے مطابق میٹ انڈسٹری 15ہزار کروڑ کی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران جو واقعات پیش آئے ہیں۔ اس سے انڈسٹری کو نقصان ہوا ہے اور ایکسپورٹ پر اگر پابندی عائد ہوتی ہے تو سالانہ 11ہزار 350 کروڑ کا نقصان ہوگا۔ یوپی میں بیف، میٹ اور مٹن بیوپاریوں کی ہڑتال کے بعد حکومت نے یہ وضاحت کی ہے کہ صرف غیر لائسنس یافتہ مسالخ کو بند کیا جارہا ہے تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ لائسنس حاصل کرنے کے لئے جو جھمیلے اور رکاوٹیں ہیں اس کی بناء پر لائسنس کا حصول اتنا آسان نہیں ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق 140 مسالخ اور 50ہزار سے زائد گوشت کی دکانیں لائسنس کے بغیر ہیں۔ یوں تو حکومت اترپردیش کی جانب سے سلاٹر ہاؤز کے قیام کے لئے 50فیصد سبسیڈی کا اعلان ہے‘ یہ اور بات ہے کہ اس کا حصول بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔
اترپردیش کے حالات آج نہیں تو کل قابو میں آجائینگے۔ گوشت کے غیر مسلم بیوپاریوں کا دباؤ مرکز پر بھی رہے گا۔ اترپردیش کی حکومت پر بھی رہے گا۔ ان میں سے بیشتر یقیناًپارٹی فنڈ فراہم کرنے والے بھی ہوں گے جن کے دباؤ کے آگے حکومتوں کو اپنے فیصلے بدلنے پڑتے ہیں یا پھر پالیسی پر لچک پیدا کرنی پڑتی ہے۔
اترپردیش میں جو حالات ہیں‘ دوسری ریاستوں میں اس کا اثر یقینی طور پر ہوگا۔ ویسے بھی بقرعید کے موقع پر گاؤرکھشک کے بھیس میں غنڈے اور اشرار دیہی علاقوں سے خرید کر لائے جانے والے جانور چھین لیتے ہیں‘ ہم نے پہلے بھی یہی مشورہ دیا تھا کہ اس بار بھی یہی مشورہ دیں گے کہ ان غنڈوں کو سبق سکھانا ہو تو صبر، تحمل اور حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس مرتبہ قربانی کے جانور خریدنے کے لئے دیہی علاقے نہ جائیں‘ جانور لے کر وہی لوگ آپ کے پاس آئیں گے اور آپ کے پیر چھوکر انہیں خریدنے کی درخواست کریں گے۔ بقرعید کی قربانی کے لئے جانوروں کا کاروبار جو برسوں سے کرتے رہے ہیں‘ وہی کرتے رہیں تو زیادہ مناسب ہے‘ جو لوگ چند دنوں میں زیادہ رقم کمانے کے لالچ میں اس کاروبار میں داخل ہوتے ہیں ان سے بھی نقصان ہورہا ہے۔
بہرحال ہمارے دشمنوں کو انہی کے وار سے زخمی کرنا ہے تو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ میں بھی ہندوتوا جماعتیں سراٹھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ ا نہیں ایسے ہی مواقع تقویت پہنچاتے ہیں اور ہماری نادانی غیر ضروری جوش ہمیں نقصان اور انہیں فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات سے نمٹنے ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنماء دیانتداری کے ساتھ رضائے الٰہی کے لئے اپنی ذمہ داری پوری کریں۔ انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ایسے حالات ماضی میں آچکے ہیں‘ مستقبل میں بھی دہرائے جاتے رہیں گے۔ ہمیں ہر قسم کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی رہنمائی ملی ہے‘یہ اور بات ہے کہ
مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پر پھیلادےئے سائے ہم نے
جن حالات سے ہم گذررہے ہیں وہ آزمائشی ہیں‘ یہ دراصل اپنا محاسبہ کرنے، اپنی غلطیوں کی اصلاح کرکے اپنے آپ کو آگے بڑھانے کا موقع ہے۔ گلے شکوے کرنے یا حالات کا رونا رونے سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ دنیا رونے والوں کا ساتھ نہیں دیتی۔ ہم مضبوط ہوں تو دنیا ہمارے ہمقدم رہتی ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط کیجئے۔ ضد‘ شدت پسندی‘ جذباتیت سے گریز کیجئے۔ انشاء اللہ آنے والا کل ہمارا ہے۔
(مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
۔ فون:9395381226