عمر فاروق قاسمی
ملت ٹائمز
اے سرزمین ھند!مختلف تہذیب وتمدن کا گہوارہ بننے والی اے مادر وطن !آج ایک بے یار و مدد گار خانماں برباد اور پریشان و بیقرار فرزند ارجمند کی آہ و بکا بھی سن لے، میں تیری آ غوش میں کس قدر خوفزدہ ہوں؟ ایک بیٹے کی نالۂ فریاد بھی سن لے۔
اے ماں!اپنے گھر سے ہیلمٹ پہن کر نکلنے میں ڈر لگتا ہے، کیونکہ میرے ہیلمٹ پر آئی ایس آئی لکھا ہے، ہمارے وزیرِ اعظم اچانک پاکستان چلے جاتے ہیں، لیکن ہمیں ڈاڑھی رکھنے، ٹوپی اور کرتا پاجامہ پہننے میں بھی ڈر لگتا ہے، کیونکہ ہماری پولیس کو اس میں بھی آتنک وادی نظر آتا ہے، انوپم کھیر وہاں جانے کے لئے ہنگامہ کرتے ہیں، ہمیں پاکستان مردہ باد کہنے میں بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہماری پولیس مردہ باد کو زندہ باد نہ سمجھ لے، کچھ لوگ دہشت گردوں کو بغل میں بیٹھا کر قندھار پہنچا کر بھی دیش بھگت کہلاتے ہیں ہم پاکستانی ٹینک کو اڑا کر بھی ملک دشمن کہلاتے ہیں، وہ اندرا، راجیو، ہیمنت کر کرے، وجے سالسکر کو مار کر بھی وفادار کہلاتے ہیں، ہمیں ملے ہوئے درد پر آہ کرنے میں بھی ڈر لگتا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ آپ کیوں ڈرتے ہیں؟ ابھی بھارت میں اتنے خراب دن بھی نہیں آئے کہ آپ بے قصور ہوں، پھر بھی سلاخوں کے پیچھے ڈال دئیے جائیں، یا ماردئیے جائیں، لیکن میں کیسے بتاؤں؟ کہ اکچھر دھام مندر حملے میں گرفتار ہمارے ساتھیوں کا آخر کیا قصور تھا ؟ جن کو نچلی عدالت نے پھانسی اور عمر قید کی سزا تک سنا دی، اونچی عدالت نے آزادی کا پروانہ دیا بھی تو اس کے قیمتی گیارہ سال پسِ دیوارِ زنداں گذر چکے تھے، تفتیش کے نام پر رونگٹے کھڑی کرنے والی ذہنی و جسمانی سزا، اقرباء و رشتہ دار کی پریشانیاں اور عدالتوں کا طواف و گردش، آخر کس قصور کی سزا ہے؟حال میں رہا ہونے والے اقبال کی آخر کیا غلطی ہے؟ جنہیں عبد الرحمن بنا کر گرفتار کیا گیا اور جن کے قیمتی آٹھ سال جیل کی کال کوٹھری میں ناقابلِ برداشت ہی نہیں ناقابلِ بیان سزاؤں کو جھیلتے ہوئے گزر گئے، چپل کی دوکان پر بیٹھنے والے خالد عزیز کی آخر کیا غلطی تھی؟ جو ایک سال تک جیل کی کال کوٹھری میں سورج کی روشنی سے محروم رہا، اور میڈیا مہینوں تک اسے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بتاتا رہا، مالیگاؤں اور مکہ مسجد بم بلاسٹ میں پھنسے ہوئے ان مسلم نوجوانوں کا کیا قصور تھا ؟ جن کو سالوں بعد کرکرے کی وجہ سے رہائی ملی، بیچارے طارق قاسمی، خالد مجاہد کا کیا قصور تھا؟ جن کو نمیش رپورٹ نے کلین چیٹ تو دے دیا لیکن اول الذکر کو آج تک آزادی نہیں ملی اور ثانی الذکر کو ظالم پولیس والوں نے زندگی ہی سے آزاد کر دیا،
ہم مسلمانوں کے لئے 1947 میں دو متبادل موجود تھے، پاکستان کے بانی مبانی قائدِ اعظم محمد علی جناح کی شیریں آواز مجھے ہندوستان کی پاکیزہ سر زمین کو چھوڑ کر پاکستان کی نومولود سر زمین پر دو قومی نظریہ کی دلیل کے ساتھ استقبال کے لئے تیار تھی، تو دوسری طرف عدم تشدد کے پجاری بابائے قوم مہاتما گا ندھی یک قومی نظریہ کی دلیل کے ساتھ سرزمینِ ہندوستان کی سینچائی و آبیاری کے لیے آواز دے رہے تھے، انہوں نے باندھا ہوا رختِ سفر کھلوانے کے لیے مولانا ابوالکلام آ زادؒ ، مولانا حسین احمد مدنیؒ ، مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ جیسے عظیم المرتبت علماء کرام کی ٹیم کو ہماری راہ میں کھڑی کر دیا، اُس طرف بھی ہمارے بڑے بڑے علماء کرام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ، علامہ یوسف بنوریؒ ، مفتی شفیع عثمانیؒ جیسے جبالِ علم سلطنتِ خداداد کے مقدس نام پر آواز دے کر ہجرت کی فضیلت و اہمیت سمجھا رہے تھے، لیکن ہم نے قائدِ اعظم کا ہاتھ جھٹک کر باپو کی گود کو اپنایا تھا اور ہجرت کے پاکیزہ عمل کو چھوڑ کر سر زمینِ ہند کو ہی اپنی دنیاوی جنت تسلیم کیا تھا اور یہاں کے آئین کو ہی اپنی تحفظ کی کتاب مان لیا تھا جو ہمیں دین و مذھب پر
عمل کرنے کی مکمل گارنٹی دیتا ہے، جو ہمیں دوسرے درجے کا شہری نہیں بلکہ برابر درجہ کا شہری گردانتا ہے، لیکن کبھی ہمیں یکساں سول کوڈ کینام پر آئین کے مذہبی حقوق کی دفعات کو مٹانے کی کوشش کی گئی، تو کبھی وندے ماترم نہ پڑھنے پر ہم سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ چھین لیا گیا اور ہمارے لیے غدار وطن کا پروانہ جاری کر دیا گیا،
اے مادرِ وطن ! میں خوف و ہراس میں مبتلا ہو کر زندگی کا لمحہ لمحہ شمار کر رہا ہوں کیونکہ ہم سے وفاداری کی شہادت وہ لوگ مانگ رہے ہیں جو انگریزوں کے وفادار تھے، جو تیری غلامی کے دور میں غاصب انگریزوں کی درباری میں لگے ہوئے تھے۔
اے مادرِ وطن!ہمیں کیوں نہ ڈر لگے کہ تیرے عظیم سپوت گاندھی کے قاتل گوڈسے کو اس مہان دیش کا ہیرو بناکر پیش کیا جا رہا ہے، اور اسکے نظریہ کو ماننے والے تیری سیاہ و سفید کے مالک بن گئے ہیں، تیری اس دھرتی پر دیوی دیوتاؤں کے نام پر گائے، خصی کی قربانی ہزاروں سال پہلے سے ہوتی آرہی ہے، دُرگا پوجا کے موقع پر ہزاروں جانوروں کی قربانیاں وہی لوگ کرتے ہیں جو جیو ھتیا کے خلاف بولتے ہیں، میں کیا بتاؤں کہ اپنے وطن میں کیا کھاؤں اور کیا پہنوں؟ وہ بھی وہی لوگ طے کر رہے ہیں، نہ تو میں اپنی مرضی کا کھانا کھا سکتاہوں اور نہ ہی اپنی مرضی کا پہناوا زیب تن کر سکتا ہوں، دادری کے صرف ایک اخلاق کی کیا مثال دوں کتنے گاؤں دادری بن چکے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ٹرین کے ڈبوں میں بھی ٹفن چیکنگ کے بعد ہی مجھے کھانا نصیب ہو تا ہے۔
اے مادر وطن! میں اس قدر بے آسرا ہوں کہ اگر کوئی میری کم مائیگی اور بے سر و سامانی پر آنسو بہا نے کی جرأت کرتا ہے تو اسے خود کشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے، دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے روہت ویمولا کی موت نے دلت طبقہ کی حمایت بھی مجھ سے چھین لی ، کیونکہ ہمارے ساتھ یہ طبقہ بھی دیش کے نام نہاد ٹھیکیداروں سے خوفزدہ ہو چکا ہے، معمولی معمولی باتوں پر نہ جانے کتنے فسادات کی آگ ہم جھیل چکے ہیں، بھاگل پور سے لیکر میرٹھ ملیانہ تک، مظفر نگر سے گجرات تک، بھارت کے کس کس گوشے میں ہمارے خون کی ہولیاں نہ کھیلی گئیں، ہماری ماؤں اور بہنوں کی عزتیں نہ لوٹی گئیں، حد ہو گئی کہ ظالموں نے ہماری مسجد کو بھی لوٹ لیا، ماں ! کیا بتاؤں کہ لوٹنے والوں کا سرغنہ ایک پاکستانی بھگوڑا تھا اور لٹنے والی مسجد تیری تھی، اور لوٹنے والے گوڈسے کے ساتھی تھے۔
اے مادر وطن ! خون کے ان پیاسوں کو اور جمہوریت کے ان دشمنوں کو اس پر بھی تسکین نہیں ملی اور سرحد پار وطن کے دشمنوں سے ملکر تیری ہی گود میں انہوں نے دھماکے کئے اور پھر اس کے الزام میں جیل کی سلاخیں بھی میرا ھی مقدر بنیں، کبھی مفتی عبد السمیع اور انظر شاہ قاسمی بن کر پسِ دیوارِ زنداں گیا، تو کبھی مفتی عبد القیوم اور ان کے ساتھیوں کی شکل میں گیارہ سال پھانسی کی تلاش میں پابندِ سلاسل رہا،
ماں!اپنا درد تم کو سنانے میں بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ یہاں بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری، عامر خان نے زبان کیا کھولی ؟ ٹھیک سے اپنا درد بتا بھی نہ پائے کہ سرحد پار جانے کا ویزہ تیار ہونے لگا ، ماں ! جمہوریت کا چوتھا ستون میڈیا بھی ان ظالموں کی سُر میں سُر ملا رہا ہے، ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بڑی ڈھٹائی سے بول بھی رہا ہے اور لکھ بھی رہا ہے، مدارس کے فضلاء نے ظالم انگریز کے چنگل سے تجھ کو آزاد کرانے کے لئے خون کا دریا بہا دیا تھا ، آج وہی مشقِ ستم بنے ہوئے ہیں، ماں ! میرا عقیدہ ہے کہ جس مٹی سے ہم پیدا ہوتے ہیں وہیں دفن بھی ہوتے ہیں، باقی لوگ تو دریا کے راستے مرنے کے بعد ودیش چلے جاتے ہیں، ہم تیری گود میں تاقیامت رہیں گے، ایک بیٹا جب ہر طرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو ماں کی گود کا سہارا لیتا ہے، لیکن تیری آغوش میں اب کانٹے ہی کانٹے ہیں، اس لیے اب تیری آ غوش سے بھی ڈر لگتا ہے۔
(مضمون نگارمشہور اسلامی اسکالر اور اس وِدیا پتی پلس ٹو ہائی اسکول بسفی،مدہوبنی میں استاذہیں)