شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
درخت جب اندر سے کھوکھلا ہو کر سوکھ جائے تو اس کو گرانے میں نہ دیر لگتی ہے اور نہ دشواری پیش آتی ہے۔ درخت کاٹنے والا بہت آسانی سے اور کم وقت میں اس کو کاٹ دیتا ہے؛ بلکہ جڑیں تک اکھیڑ دیتا ہے، یہی حال قوموں اور گروہوں کا ہے، جو قوم خود اپنے نظریہ پر عمل نہیں کرتی، جو گروہ خود اپنے اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتا، جس کے قول و فعل میں کھلا ہوا تضاد ہوتا ہے، جو الفاظ کے دریا تو بہا سکتا ہے؛ لیکن عملی دنیا میں اس کی بساط ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ہوتی، وہ قوم اپنی بقاء کی لڑائی نہیں لڑ سکتی اور نہ اپنے چابک دست دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے، قرآن مجید نے یہودیوں کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہوئے یہی بات کہی ہے کہ ان کے قول و فعل میں یکسانیت نہیں ہے۔
اس وقت مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں، وہ دشمنوں کی دشمنی کا رونا روتے ہیں؛ لیکن حقیقت میں یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کا رونا رویا جائے، جن لوگوں کو آپ کی فکر، آپ کے عقیدہ، آپ کے طرزِ زندگی، آپ کی تہذیب و ثقافت، آپ کے تاریخی ورثہ؛ یہاں تک کہ آپ کے وجود اور آپ کے نام سے بھی نفرت ہے، ان سے اس بات کے سوا اور کس بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے؛ ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ آپ کے دین کا تحفظ کریں گے اور آپ کی شریعت کو محفوظ رکھیں گے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص آگ سے پیاس بجھانے کی اور برف سے ایندھن کے کام آنے کی توقع رکھے؛ اس لئے ہندوستان کے موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ جہاں ہم عوامی رائے عامہ کے ذریعہ پُرامن احتجاج کریں، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان پوری جرأت اور اعترافِ حقیقت کے ساتھ آپ اپنا محاسبہ کریں اور اپنے طرزِ عمل میں ایک بنیادی تبدیلی لائیں۔
اس وقت حکومت سے ہم جن مسائل میں نبرد آزما ہیں، اس کے بارے میں ہم خود اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ ہمارا یہ رویہ کس حد تک دین کے مطابق ہے؟
اس وقت ایک پیچیدہ اور نازک مسئلہ بابری مسجد کا ہے، اس میں شبہ نہیں کہ یہ مسجد تھی، مسجد ہے اور یہ شرعاً ہمیشہ مسجد ہی رہے گی، نیز بجا طور پر حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس مقدمہ کا خود ساختہ عقیدہ اور آستھا کے نقطۂ نظر سے نہیں؛ بلکہ ملکیت کے لحاظ سے اس کا جائزہ لیا جائے، ہمارا یہ دعویٰ سو فیصد درست ہے؛ لیکن غور کیجئے کہ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اوقاف کی جتنی جائیداد پر حکومت اور ہمارے غیر مسلم بھائی قابض ہیں، اسی قدر یا اس سے بھی زیادہ اوقاف کی جائیداد کے بڑے حصہ کو ان کے متولیوں نے بیچ دیا ہے، خود مسلمان وقف کی جائیداد پر قابض ہیں، جس عمارت کا کرایہ پانچ، دس ہزار روپئے ہونا چاہئے، خود مسلمان اس کا کرایہ پچاس اور سو روپئے ادا کرتے ہیں، یہاں تک کہ مسجدوں کے املاک پر بھی مسلمانوں نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم خود تو اوقاف میں بے جا تصرف کریں اور اپنی ذاتی املاک کی طرح اس میں تصرف کریں اور حکومت سے اس بات کی توقع رکھیں کہ وہ ہمارے اوقاف کی اور ہماری مسجدوں اور قبرستانوں کی حفاظت کرے گی۔
اسلام نے نکاح کو بہت آسان رکھا ہے، مسلمان عید، بقرعید میں جتنا خرچ کرتے ہیں، نکاح میں اتنا خرچ کرنا بھی ضروری نہیں، صرف ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے،جس میں نہ کوئی کرایہ خرچ ہوتا ہے اور نہ سجاوٹ کی گنجائش ہوتی ہے، نکاح کے ساتھ صرف ایک دعوت، ’’دعوتِ ولیمہ‘‘ رکھی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سب سے قیمتی ولیمہ فرمایا وہ اس طور پر کہ ایک بکرا ذبح کیا؛ البتہ نکاح میں ایک لازمی ذمہ داری مہر کی ہے اور اس کو عقد کے وقت ہی ادا کردینا مسنون ہے۔
لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ برادرانِ وطن کا اثر قبول کرتے ہوئے نکاح کو نہایت ہی مشکل عمل بنا دیا گیا ہے،جس میں بعض اوقات لڑکی والے اپنا گھر تک بیچ دیتے ہیں، لڑکی والوں پر جہیز کا بارگراں تو ہے ہی، ایک بڑی نقد رقم کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے، فنکشن ہال اور کھانے کے مینو تک کی تعیین ہوتی ہے اور یہ سارا بوجھ لڑکی والوں کے سر ڈالا جاتا ہے، دوسری طرف مہر ایک رسمی چیز بن کر رہ گئی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ اگرطلاق کی نوبت آئی تب مہر ادا کیا جائے گا، اس طرح اسلام کا تصور نکاح مسخ ہو کر رہ گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں امت کی لاکھوں بیٹیاں سسک سسک کر تجرد کی زندگی گزار رہی ہیں، اس غیراسلامی اور غیراخلاقی عمل پر ہمیں حکومت یا قانون نے مجبور نہیں کیا ہے؛ بلکہ یہ ہمارا اپنا بگاڑ ہے۔
شریعت کے خاندانی زندگی سے متعلق قوانین میں مرد کو ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت دی گئی ہے، یہ گنجائش اس لئے؛ کہ معاشرہ میں اخلاقی پاکیزگی اور صفائی ستھرائی باقی رہے، بہت سی دفعہ یہ اجازت ایک سماجی ضرورت بھی بن جاتی ہے؛ لیکن قرآن نے یہ شرط بھی لگائی ہے کہ شوہر دونوں بیویوں کے درمیان عدل سے کام لے، اگر وہ عدل قائم نہ کر سکے تو اس کے لئے دوسرا نکاح کرنے کی گنجائش نہیں ’’وَ اِنْ لم تعدلوا فواحدۃ‘‘ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دوسری شادی کے جو واقعات پیش آتے ہیں، ان میں نوے فیصد واقعات میں دوسرا نکاح کسی ضرورت اور سنجیدہ جذبے کے ساتھ نہیں کیا جاتا؛ بلکہ پہلی بیوی کو تکلیف پہنچانے کے لئے انتقامی جذبہ سے کیا جاتا ہے اور انصاف کی شرط کو اس طرح بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے کہ ایک بیوی کے ساتھ تو محبوبہ اور معشوقہ کا معاملہ کیا جاتا ہے اور دوسری کو اس طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے کہ نہ اسے بیوی کے حقوق ملتے ہیں اور نہ وہ شوہر کی زندگی سے آزاد ہوتی ہے، اس کو لٹکا کر رکھا جاتا ہے ، اس طرزِ عمل سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے، لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ ایک درست حکم کا غلط استعمال ہے؛ اس لئے وہ خود اسلام کو اس خدا ناترس شخص کی غلطی کا مجرم سمجھنے لگتے ہیں، حالاں کہ شریعت نے نہ صرف یہ کہ عدل کی شرط کے ساتھ دوسرے نکاح کی اجازت دی ہے؛ بلکہ اس بات کو بہتر قرار دیا گیا ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفاء کیا جائے، ایک بیوی کی موجودگی میں بلاضرورت دوسرا نکاح کرنے سے گریز کیا جائے۔
نکاح کا رشتہ محبت و سکون کا رشتہ ہے؛ تاکہ شوہر و بیوی پُر سکون زندگی گزار سکیں، اسی رشتہ سے نسل انسانی کا بقاء اور خاندانی نظام کا استحکام متعلق ہے؛ اسی لئے شریعت کا منشا یہ ہے کہ جب ایک بار رشتۂ نکاح قائم ہوجائے تو اسے استوار رکھا جائے اور حتی المقدور اس کو ٹوٹنے سے بچایا جائے، شوہر کی طرف سے رشتۂ نکاح کے ختم کردینے کو طلاق کہتے ہیں اور بیوی کے مطالبہ پر شوہر کے رشتہ ختم کردینے کو خلع، شریعت میں طلاق کو بھی ناپسند کیا گیا ہے، یہاں تک کہ اس کو تمام جائز چیزوں میں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر بھی لعنت بھیجی ہے، جو کسی نامعقول سبب کے بغیر خلع کا مطالبہ کرے، پھر اگر طلاق دینی ہی پڑے تو ایک اور زیادہ سے زیادہ دو فعہ دینی چاہئے ، ایک ساتھ تین طلاقیں دینا سخت گناہ ہے، اس سے قطع نظر کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین شمار کی جائیں گی یا ایک؟ اس بات پر تمام ہی اہل علم متفق ہیں کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا گناہ ہے۔
لیکن مسلم سماج میں طلاق کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو نوے فیصد طلاق کے واقعات غصہ، وقتی رنجش یا شوہر کے رشتہ داروں کی طرف سے چڑھانے اور اُکسانے کی بنا پر پیش آتے ہیں، اور اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ بہت سے واقعات میں ایک ساتھ تین طلاقیں دیدی جاتی ہیں، اسی طرح عورتوں کی طرف سے خلع کے مطالبات بعض دفعہ بہت ہی معمولی اسباب اور قوتِ برداشت کی کمی کی بنا پر کئے جاتے ہیں، مسلمانوں کا یہ عمل برادرانِ وطن کے درمیان اسلام کی غلط تصویر پیش کرتا ہے اور یہی تصویر ذریعہ ابلاغ کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے، اس میں شبہ نہیں کہ اس میں ذرائع ابلاغ کی مبالغہ آمیزی کا بھی دخل ہوتا ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارا سماج ہی اس کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔
شریعت اسلامی نے مرحومین کے ترکہ کی تقسیم کا ایک جامع، مربوط اور عادلانہ نظام پیش کیا ہے، اس میں کچھ رشتہ دار وہ ہیں جو’’ اصحاب الفروض‘‘ کہلاتے ہیں، یہ وہ حضرات ہیں جن کے حصے خود قرآن مجید میں پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، ان میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی ہیں، شوہروں کی طرح بیویاں بھی ہیں اور اولاد کی طرح ماں باپ بھی ہیں؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اس تقسیم پر بہت کم عمل کیا جاتا ہے، اکثرو بیشتر ماں باپ کے ترکہ پر بیٹے قبضہ کرلیتے ہیں، یعنی اپنی بہنوں کو ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں، بعض دفعہ خود والدین کی بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ مکان، کاروبار اور زمین دار گھرانوں میں زرعی اراضی پر بیٹیوں کو حق نہ دیا جائے، انہیں تھوڑا بہت نقد رقم دے کر کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کی شادیوں پر پہلے کافی اخراجات ہوچکے ہیں، اسی طرح مرنے والے کا پورا ترکہ لڑکے آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں، ماں باپ کا حصہ نہیں دیتے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ ماں کی پرورش کے لئے ہم لوگ کافی ہیں، اب انہیں ترکہ میں حصہ کی کیا ضرورت ہے؟ ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں کہ اگر کوئی جواں سال یا ادھیڑ عمر شخص کا انتقال ہوگیا، اس نے بوڑھے والدین بھی چھوڑے اور جواں بیوی اور بچے بھی، تو بیوی بچے پورے ترکہ پر قابض ہوجاتے ہیں، اور وہ بوڑھے ماں باپ جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے ان کی پرورش کی تھی اور چھوٹے سے بڑا کیا تھا، ان کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
یہ سب ظلم کی مختلف صورتیں ہیں، جو ہمارے سماج کا معمول بن چکی ہیں، اللہ تعالیٰ نے میراث کو بے جا تصرف سے روکنے کے لئے صراحت فرمائی ہے کہ یہ ’’فریضۃ من اللہ‘‘ ہے یعنی یہ اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا حصہ ہے، یہ انسان کا مقرر کیا ہوا حصہ نہیں ہے کہ اس کو اس میں کمی بیشی کا اختیار ہو، اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہیں جو عورت کو حق میراث دیتا ہو، دنیا کے دوسرے قوانین نے بھی اسلام کے قانون میراث سے استفادہ کیا ہے؛ لیکن بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے لئے روشنی فراہم کرتے، ہم نے خود اپنی زندگی میں شریعت کا چراغ بجھا دیا ہے۔
اسلام نے تقسیم میراث کی بنیاد اس اصول پر رکھی ہے کہ قریب ترین رشتہ دار کی موجودگی میں دور کا رشتہ دار ترکہ کا مستحق نہیں ہوگا؛ اس لئے اگر مرنے والے کے بیٹے بھی موجود ہوں اور ایسے پوتے بھی جن کے والد دنیا سے گزر چکے ہیں تو چچاؤں کے مقابلہ میں باپ سے محروم پوتوں کو ترکہ میں حصہ نہیں ملے گا؛ لیکن شریعت نے ان کے لئے دوسرا راستہ کھلا رکھا ہے، ایک یہ کہ دادا ترکہ سے محروم ہونے والے پوتوں کے لئے وصیت کردے؛ تاکہ دادا کی وفات کے بعد ان کو بھی کچھ مل جائے، اور اس ایک تہائی ترکہ تک وصیت کرنے کی گنجائش ہے، دوسری گنجائش یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں پوتوں کو کچھ ہبہ کردے۔ اس طرح وہ اپنے ضرورت مند پوتوں، پوتیوں اور نواسوں، نواسیوں کی مدد کر سکتے ہیں؛ لیکن افسوس کہ اس جانب بہت کم توجہ کی جاتی ہے۔
اسلام کا قانون نفقہ ایک جامع قانون ہے، جو انسان کو پیش آنے والی تمام صورت حال کا احاطہ کرتی ہے؛ اس لئے جیسے اولاد کا نفقہ باپ پر اور باپ نہیں ہو تو دادا پر واجب ہوتا ہے اور بیوی کا نفقہ شوہر کے ذمہ ہے، اسی طرح بعض حالات میں بھائیوں، بہنوں اور چچاؤں وغیرہ پر بھی بے سہارا خواتین اور یتیم بچوں کا نفقہ واجب ہے؛ لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت مطلقہ یا بیوہ ہوجائے تو بھائی سمجھتا ہے کہ اس پر اس کی بہن کے نفقہ کی ذمہ داری نہیں، یا بچے یتیم ہوجائیں تو چچا یہ نہیں سمجھتے کہ اب ہمارے اپنے بچوں کی طرح ہمارے بھائی کے بچوں کی بھی ہم پر ذمہ داری ہے؛ بلکہ اگر کبھی کچھ حسن سلوک کرد یا تو اس کو ایک احسان خیال کرتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ غیرمسلم معاشرہ سمجھتا ہے کہ مسلمانوں کے یہاں بے سہارا عورتوں اور بچوں کی کفالت و پرورش کا کوئی مستحکم نظام نہیں ہے ، غلط تصور پر مبنی اس تصویر میں میڈیا کے لوگ رنگ بھر کر اسے اور خوفناک بنادیتے ہیں اور اسلام کو نعوذ باللہ ایک بے رحم اور غیر منصف مزاج مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت عدالتیں ایسے فیصلے کر رہی ہیں جو واضح طور پر شریعت سے متصادم ہیں، لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اس کی نوبت اسی وقت آتی ہے جب خود مسلمان اپنے مقدمات سرکاری عدالتوں میں لے کر جاتے ہیں، اپنے علماء اور قاضی و مفتی سے رجوع کرنے کے بجائے ان لوگوں سے اپنا معاملہ طے کرانے کی کوشش کرتے ہیں جو نہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں، نہ رسول پر، قرآن کے بیان کے مطابق یہ ایک منافقانہ طرز عمل ہے کہ زبان سے تو ہم اللہ اور اس کے رسول کی بات مایں اور عملی طور پر ہم اسے نظر انداز کردیں۔
اگر ہمیں ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے دینی تشخص کو بچانا ہے تو سر کٹانے کا جذبہ کافی نہیں، پہلے ہمیں اپنے اندر سر جھکانے کا جذبہ پیدا کرنا چاہئے، شریعت کے احکام خواہ ہماری چاہت اور مفادات کے خلاف ہوں؛ لیکن ہم اس کے سامنے جھک جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہشوں اور چاہتوں پر غالب رکھیں؛ کیوں کہ جس قول کے پیچھے عمل کی طاقت نہ ہو، وہ دوسروں کو قائل نہیں کرسکتا، جو شخص اندر سے کھوکھلا ہوگیا ہو اور اس کا جسم زندگی کی حرارت سے محروم ہو، اس کے لئے ممکن نہیں کہ وہ باہر کے دشمنوں کا مقابلہ کرسکے۔