عزیر احمد
ہندوستان حیوانیت اور درندگی کی طرف تیزی سے بڑھتا چلا جارہا ہے، بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے، گئو رکشا کے نام پہ مار دیتی ہے، پولیس کھڑے ہوکے تماشا دیکھتی ہے، بعد میں اجنبیوں کے نام پہ ایف.آئی.آر درج کرتی ہے باوجود یکے کہ پولیس کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ مجرم کون ہے.
ہمارا ملک بہت تیزی سے تشدد کی طرف بڑھتا جارہا ہے، اقلیتیوں کے خلاف جس طرح کا ماحول بنایا جارہا ہے اس کو دیکھ کے ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستان خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، ظلم کو ظلم کہنے والے گھٹتے جارہے ہیں، سیکولرزم کی زمین کھسکتی جارہی ہے، فاشزم اپنا جلوہ بکھیر رہی ہے، ڈر، خوف، نفرت عروج پہ ہے، اور تو اور پڑھا لکھا طبقہ بھی ہندوتو آئیڈیالوجی سے خطرناک حد تک متاثر نظر آرہا ہے، ایک طرف یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ نے غیر قانونی سلاٹر ہاؤس کے بین کرنے کے نام پہ پورے اسٹیٹ میں انارکی پھیلا رکھا ہے، لوگوں نے بکروں تک کا گوشت ڈر کے مارے بیچنا بند کردیا ہے، ادھر گجرات میں الیکشن قریب ہے، جس کے لئے وہاں بھی نفرت کا بیج بویا جارہا ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے ایک فساد بھی ہوچکا ہے، جس میں قلیتوں کے گھروں کو نذر آتش کردیا گیا، اور جان و مال کو خاصہ نقصان پہونچایا گیا.
جب سے مودی حکومت منظر عام پہ آئی ہے، گایوں، بھینسوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے، انسان کے جان کی کوئی اوقات ہی نہیں رہ گئی، حیوانیت نے انسانیت کو پچھاڑ دیا، ابھی اخلاق کا واقعہ لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا، کل راجستھان کے الور علاقے میں ایک نہایت ہی خوفناک حادثہ وقوع پذیر ہوگیا، پانچ مسلمان کچھ گائیوں کو لیکے جارہے تھے، اچانک گئو رکشکوں کی ایک جماعت آئی، اور انہیں پیٹنا شروع کردیا، لوگ کھڑے ہوکے تماشا دیکھ رہے تھے، اپنے موبائل فون سے ویڈیو بھی بنا رہے تھے مگر کسی کی مجال نہ ہوئی ہے کہ گائے رکشکوں کے معاملے میں دخل اندازی کرسکیں، ان مسلمانوں نے ان کو سرٹیفیکٹ بھی دکھائے کہ وہ گائے خرید کے آرہے ہیں، اسے مارنے کے لئے نہیں لے جارہے، مگر گئو رکشکوں کی بھیڑ سننے کے لئے تیار نہیں، جو ویڈیو سوشل میڈیا پہ circulate کررہا ہے، اس میں کرتے پیجامے میں ملبوس ایک بندے کچھ لوگوں کے ذریعہ لاتوں، گھونسوں اور مکوں سے مارتے دکھایا جارہا ہے، اور ایک بندہ زمین پہ پڑا نظر آرہا ہے، اور بھیڑ کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے، ان ظالموں نے انہیں اتنا مارا کہ آج ان میں سے ایک بندہ “پہلو خان” جس کی عمر لگ بھگ ۵۵ کے قریب تھی، زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا.
حیوانیت کی بھی انتہا ہوتی ہے، مگر لگتا ہے گئو رکشک اور اس کے ہمدرد اس انتہا کو بھی پار کر گئے ہیں، گئو رکشکوں کی صفائی پیش کرتے ہوئے اسٹیٹ کے ہوم منسٹر گلاب چند کٹاریہ نے اس کا ذمہ دار خود انہیں لوگوں کو قرار دیا جو گائے لے کے جارہے تھے.
ایک آدمی مار دیا جارہا ہے، چار لوگوں کی حالت نازک ہے، اور اسٹیٹ کا ہوم منسٹر مجرمین کی حمایت کررہا ہے، یہ تو ظلم کی انتہا ہے، اس سے زیادہ اب شاید ہو ہی نہ پائے، کہ جان بھی لے لی جائے اور مجرم بھی قرار دے دیا جائے.
اسی نوعیت کا حادثہ اخلاق کے ساتھ بھی ہوا تھا، گھر میں بھیڑ نے گھس کے ماردیا، مجرمین کو سزا دینے کے بجائے پولیس نے الٹا اخلاق کے اہل خانہ کے خلاف ایف.آئی.آر درج کردیا.
اور یہی same حادثہ کل آپ کے ساتھ بھی پیش ہوگا کیونکہ آپ ہر حادثہ کو یہ سوچ کے نظر انداز کرجاتے ہیں کہ چھوڑو کہیں وہ لوگ ہمارے تھوڑی تھے، آپ کے پاس ہزاروں لیڈروں کی بھیڑ ہے، مگر قائد اور رہبر کوئی نہیں ہے، مسلکی فرقوں کی لڑائیوں سے موقع ملے تو مذہبی لڑائیوں کی طرف ذہن جائے، آپ سے اچھے تو سکھ ہیں کہ ان کے قوم کی ایک بیٹی گرمہر کور آگے آئی، ABVP کے خلاف کھڑی ہوئی، تو پوری قوم اس کے پیچھے کھڑی ہوگئی، اور اس کی حفاظت کے لئے سربکف ہوگئی، آپ کہتے ہیں کہ آپ سب سے مظلوم قوم ہیں، حقیقت میں آپ ایک بزدل قوم ہیں، ہر مسئلے پہ خاموش رہنا اور صبر کی تلقین کرنا آپ کا شیوہ ہے، دوسرے قوم کے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا، تو منظر شاید مختلف ہوتا، آپ نہ تو کل اخلاق پہ کچھ بول پائے تھے، اور نہ آج راجستھان کے معاملے پہ کچھ نہ بول پائیں گے، اور پرسوں آپ اپنے پہ بھی خاموش رہیں گے.
ویسے بھی مودی حکومت میں بہت آسان ہوگیا ہے مارنا، کسی کو بھی ماردو، اور اس کے اوپر گائے کی تسکری کا الزام لگا دو، بچ جاؤگے، انسان انسان نہ ہوئے، کیڑے مکوڑے ہوگئے، ایسے میں آپ خود کی حفاظت کے لئے اگر نہ اٹھ کھڑے ہوئے تو کوئج حکومت آپ کی حفاظت نہیں کرپائے گی، سرکار کتنا بھی کہے کہ وہ “سب کا ساتھ، سب کا وکاس” کے فارمولے پہ عمل کرتی ہے، مگر جو بیج اس نے ہندوستان کے اکثریتی فرقہ کے ذہنوں میں بو دیا ہے، وہ بہت نقصان پہونچانے والا ہے، اقلیتوں کے خلاف دیر یا سویر وہ لاوا بن کے ضرور پھوٹے گا، اور مجھے وہ دن دور نہیں لگ رہا ہے، جب ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کا جان لینے پہ تلا ہوا ہوگا، آثار نمایاں ہیں، تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے، ہم ایک بار پھر تاریخ کے موڑ پہ کھڑے نوشتہ دیوار کے صاف ہونے کا انتظار کررہے ہیں.





