نئی دہلی: (نسیم اختر قاسمی ؍ ملت ٹائمز)
تیس سالوں ساتھ تک جمعیۃ علماء ہند میں خدمات انجام دینے والے اور ہر مقام پر جمعیۃ اور ملت اسلامیہ کی ترجمانی کرنے والے مولانا عبد الحمید نعمانی کے بارے میں جیسے ہی یہ خبر آئی کہ انہیں جمعیۃ کے میڈیا محکمہ سے مسلم سکریٹریٹ کے محکمہ میں تبدیل کردیاگیا جس کے بعد دلبرداشتہ ہوکر انہوں نے استعفی دے د یا ہے سوشل میڈیا پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور مولانا عبد الحمید نعمانی کو زبردست حمایت ملنی شروع ہوگئی ، سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں نے مولانا عبد الحمید نعمانی کی صلاحیتوں، ان کی خوبیوں، ان کے قلم اور ٹی وی چینلوں پر ملت کی مدلل ترجمانی کرنے کیلئے ان کی خوب تعریف کی اور جمعیۃ کے اس اقدام کی شدید مذمت کی کہ ایک باصلاحیت شخص کو بغیر کسی غلطی کے میڈیا کے شعبہ سے الگ کردیا گیا جہاں سے وہ طویل عرصے خدمات انجام دے رہے تھے۔ یوزرس نے مولانا محمود مدنی اور ان کی جمعیت کے بارے میں یہ بھی کہا کہ ملت اسلامیہ کی یہ نمایاں تنظیم اب خاندانی تنظیم بن گئی ہے جہاں باصلاحیت افراد کے بجائے خوشامد پسند لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور موجودہ قائدین اپنے وجود کی بقاء کیلئے کچھ کبھی کرسکتے ہیں، انہیں ملت کے مفاد سے کوئی مطلب نہیں ہے، نئی نسل نے سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایا کہ اخلاقی طور پر مولانا محمود مدنی صاحب کو جمعیۃ سے استعفی دیے دینا چاہیئے کیوں کہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت میں مسلمانانِ ہند مسلسل زوال کے شکار ہیں اور دو حصوں میں تقسیم کرکے مسلم اتحاد، افتراق میں بدلنے کیلئے وہ براہ راست ذمہ دار ہیں۔
ذیل میں ہم پیش کررہے ہیں فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پر قارئین کے ذریعہ پیش کئے کئے رد عمل کو۔
فیروز ہاشمی کا کہنا ہے کہ
حق پسندوں کے ساتھ عموماً ایسا ہوتا ہے۔ مسلم قوم کے رہنماؤں کو یہ برداشت نہیں ہے کہ اْن کے سامنے کوئی دوسرا شہرت یا کامیابی حاصل کرے۔ مسلم قوم کی تباہی اور بربادی کے اصل ذمہ دار ایسے ہی خود ساختہ رہنما ہیں جنہوں نے اپنی ہی قوم کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو داغدار کیا ہے۔ اْن کے سامنے اْن کے ساتھ کا اگر محنت و مشقت کے ساتھ ترقی کی منزلیں حاصل کریں تو اْنہیں گوارا نہیں۔ یہ صرف مولانا عبد الحمید نعمانی کے ساتھ ہی کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کئی مثالیں موجود ہیں۔
دارالعلو م دیوبند کے جواں سال فاضل مولانا جنید قاسمی نے اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
آر ایس ایس یا دیگر بھگوا جماعتوں کے سربراہان ایک مدت کے بعد تبدیل ہو جاتے ہیں، اصول پسند اور صلاحیت والے افراد کو وہاں جگہ دی جاتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک پر ان جماعتوں کا آج اپنا ایک رنگ ہے، جمعیت علماء، شخصی مدارس اور ملک کی دیگر بہت سی تنظیمیں اس خوبی سے تقریباً خالی ہیں۔ یہاں کے سربراہوں کا کام اپنی پگڑی اونچی رکھنا رہ گیا ہے۔ ان کے یہاں شاید باصلاحیت افراد کی قطعاً ضرورت نہیں ، بس ایسے اشخاص انہیں چاہئیں جو ان کی چاپلوسی کرسکیں۔ ہاں میں ہاں ملا سکیں، اور ان کی کرسی کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی وفاداری کا خوب ثبوت دیتے رہیں۔ جمعیۃ کے سربراہان جب خانوادے نہیں صلاحیت کی بنیاد پر منتخب کئے جاتے تھے، تب کبھی ملت انتشار کی شکار نہیں ہوئی۔ آج ملی تنظیموں اور دینی اداروں کو جس راہ پر لاکھڑا کیا گیا ہے، بعید نہیں کہ مزید جہالت و پستی ملت اسلامیہ ہند کا مقدر بن جائے۔ تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
توحید عالم کا کہناہے کہ
اب ٹی وی پر محمود صاحب آیا کریں گے ….. مدنی خاندان کو قاری طیب صاحب کہ بد دعا لگ گئی ہے۔
نوشاد منظر صاحب کے مطابق
یہ نہایت افسوسناک صورتحال ہے …. جمعیۃ کو اپنا فیصلہ واپس لینا چاہیے اور پورے وقار کے ساتھ مولانا نعمانی کو ان کی سابقہ ذمہ داری سونپنی چاہیے۔
مسعود جاوید قاسمی لکھتے ہیں
نہ صرف جمعیۃ بلکہ بیشتر ملی تنظیموں کا یہی رویہ رہا ہے کہ وہ باصلاحیت افراد کا قد اونچا ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے اس لئے ایسی تنظیموں کے قائدین نعمانی صاحب جیسے لوگوں کے پر کترتے رہتے ہیں، انہیں اہل افراد نہیں محض افراد چاہیئے جن کی اوقات ٹیبل پر رکھے پیپر ویٹ اور قلم کاغذ اور کمپیوٹر کے مَوز کی ہو۔
جمعیۃ نے ایک طویل عرصے تک مولانا کو جو گرچہ برائے نام جنرل سیکرٹری تھے ایک منشی سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور ان کی علمی اور تنظیمی صلاحیتوں کا استحصال کیا اور بالآخر مولانا تنگ آکر کنارہ کش ہوئے، اب ان دنوں مختلف جہتوں سے سوشل میڈیا کے توسط سے نعمانی صاحب سے درخواست کی جا رہی تھی کہ وہ ٹی وی چینلز کے مباحث میں نمائندگی کریں۔ میں نے بھی لکھا تھا کہ چونکہ بین المذاہب مسائل پر آپ کا مطالعہ وسیع ہے اور بات مدلل کرتے ہیں اس لئے آپ کو عدالت سے باہر ہونے والے ممکنہ مذاکرات میں ضرور حصہ لینا چاہیے اور ایسا لگتا ہے کہ ان کو احساس ہونے لگا تھا کہ ان کی بجا ستائش بھی قائدین کو ناگوار گزرے گی اس لئے بڑے ہی محتاط اسلوب میں یہ کہتے ہویے معذرت کی کہ بڑا کام قائدین کے کرنے کا ہے۔
مجاہد عثمانی لکھتے ہیں کہ
یہ کوئی پہلی بار جمعیۃ میں ناانصافی نہیں ھوئی ہے کیونکہ جن لوگوں نے جمعیۃ کو اپنی پراپٹی سمجھ رکھی ہے وہ تو اپنے آپ کو ہر مسئلے میں مختار کل سمجھ بیٹھے ہیں جو انانیت کی واضح دلیل ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے طالب علم محمد افسر علی لکھتے ہیں
مدنی نہ ہو نے کی سزا مولانا اسیر ادروی صاحب کو بھی ملی جو باحیات رہتے ہوئے بھی قصۂ پارینہ بن گئے ہیں وہی سزا نعمانی صاحب کو ملی …
لکھنو سے تعلق رکھنے والی فاطمہ شیخ کا کہناہے کہ
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ باصلاحیت شخصیت کے ساتھ ہی ہمیشہ ناانصافی ہوئی ہے، حق گوئی کسی کو پسند ہی نہیں یے ناانصافی ہی نہیں ناانصافی کی حدود کو عبور کیا گیا، اوّل تو مجھے یہ نہیں سمجھ آرہی کہ کیا اپنی شہرت کے لئے انسان اتنی گری ہوئی حرکت بھی کرسکتے ہیں … افسوس صد افسوس ایسے رہنماؤں پر جو قوم کی تباہی اور بربادی کو ہی اپنی شہرت اور حصول مقصد سمجھتے ہیں ؎
دامنِ دین ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوء رخصت تو ملّت کہاں
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے ذمہ دار مولانا نحم الحسن تھانوی کے صاحبزاد مولانا حذیفہ تھانوی لکھتے ہیں
مولانا نعمانی کی ماشاء اللہ حالات حاضرہ پر گہری نظر تھی، ملت اسلامیہ کے سامنے کوئی بھی سوال اگر کھڑا ہوجاتا تو ہم لوگ تو اس کے سیاق و سباق میں ہی لگے رہتے اور حضرت نعمانی بروقت مدلل جواب دیکر حکومت کے چیلینج کو پیچھے دھکیل دیا کرتے تھے، مولانا نعمانی چلتے پھرتے مطالعہ، لائبریری، اور ملت کے حساس جسم کا نام ہے، مولانا نعمانی ان حضرات میں سے ہیں جو لائبریریوں میں گم ہوکر ملت کو جلا بخشتے رہے۔
موسم گل میری دہلیز پر کیا ٹھہرے گا
میرے پاس کتا بوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
بیباک قلم کار محمد علم اللہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ
رپورٹ میں استعفیٰ کے جو وجوہات بیان کئے گئے ہیں اگر وہ درست ہیں تو جمعیت کا یہ رویہ سراسر ظلم اور نا انصافی پر مبنی ہے ، میڈیا کے حوالے سے ہمارے ملی قائدین کا جو رویہ رہا ہے اس پر میں مستقل لکھتا اور بولتا رہا ہوں ، اپنے محدود تجربہ کی بنیاد پر یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ہند میں مسلم مسائل سے متعلق جو لوگ بھی ترجمانی کے لئے آگے آتے ہیں ان کا رویہ انتہائی لچر اور افسوس ناک ہوتا ہے ، چند ایک نام جو مسلم مسائل سے ادراک اور مسکت جواب دینے والوں کا تلاشا جائے گا تو اس میں نعمانی صاحب کا نام اولین فہرست میں ہوگا ، جنھیں نہ صرف مسائل کا ادراک ہے بلکہ ہندوستانی قانون اور ملکی رویہ کا بھی علم ہے۔ اگر محض جمعیت نے عصبیت اور حسد کی بنیاد پر مولانا کو استعفیٰ پر مجبور کیا ہے تو میں سخت احتجاج درج کراتا ہوں ۔
نوجوان صحافی ابو فہد لکھتے ہیں
’’نعمانی صاحب ذی علم، متحمل مزاج اور منطق و دلائل کے ساتھ گفتگو کرنے والے شخص ہیں۔ استعفیٰ کی جو وجہ آپ نے لکھی ہے وہ تو سرتاسر ناانصافی معلوم ہوتی ہے‘‘
مشہور صحافی یاور رحمن لکھتے ہیں
مسلمانو ں کی نفسیات بڑی عجیب سی بن گئی ہے . امت کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو یہ باطل کی سر پرستی میں ہی سمیٹنا چاہتے ھیں . ان کا معیار خیر و شر اپنی اپنی پسند کے انکے علما اور قائد بن گئے ھیں . ان میں سے جو لوگ اتحاد بین المسلمین کے علمبردار ھیں ، انہونے تو حق و باطل کی تفریق ہی ختم کر دی ہے . سوال یہ ہے کہ کیا امت کے شیرازہ کو سمیٹنے کے لئے ہر غلط اور صحیح کا فرق بھی مٹا دیا جایگا ؟ تو پھر امر با المعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کب ادا ہوگا ؟؟؟؟
مشہور جرنلسٹ ناظمہ پروین کا کہناہے کہ
یہ جمعیۃ وہ نہ رہی جس کی قیادت مولانا حفظ ا لرحمن سیوہاری اور مولانا حسین احمد مدنی نے کی تھی بلکہ یہ جمعیۃ راجیہ سبھا کی سیٹ اور سرکاری مورت والی ہوگئی،قائدین اے سی میں بیٹھ کر قوم وملت کا پیسہ کو ضائع کرنے لگے ہیں ۔
یہ جمعیۃ وہ نہ رہی جس کی قیادت مولانا حفظ ا لرحمن سیوہاری اور مولانا حسین احمد مدنی نے کی تھی بلکہ یہ جمعیۃ راجیہ سبھا کی سیٹ اور سرکاری مورت والی ہوگئی،قائدین اے سی میں بیٹھ کر قوم وملت کا پیسہ کو ضائع کرنے لگے ہیں ۔
نوجوان لکھاری ذاکر عابدین نے لکھاہے کہ
جمعیت علماء ہند کا ماضی تابناک رہا ہے ،مگر مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی کے بعد عملا یہ تنظیم ناقص ہو کر رہ گئی ،پھر جب مولانا اسعد مدنی نے اس پر جبری قبضہ کیا تو رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی ،اس کے بعد سے آج تک بندر والی تقسيم جاری ہے ، ہر ایسا فرد جو بذات خود اپنی شناخت رکھتا تھا اور اس سے مستقل میں خطرہ تھا اسے باہر کا راستہ دکھا دیا گیا ، مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی جیسے شخص پر مالی خرد برد کے الزامات لگائے گئے ، بالآخر انہوں نے استعفاء دے دیا ،اس وقت مولانا کے ساتھ 10/12 لوگ اور علیحدہ ہو گئے جس کی تفصیل مولانا اسرار الحق نے ایک کتابچہ میں لکھ کر شائع کر دی تھی ،پھر حسب معمول خاندانی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے اس تنظیم کے بھی دو حصہ کر دیے ، بعض سنجیدہ علماء نے اس وقت یہ بات رکھی کہ اس تقسيم سے بچنے کی آسان راہ یہ ہے کہ کسی تیسرے شخص کو جس کا دونوں گروپ میں سے کسی سے تعلق نہ ہو صدر بنا دیا جائے ،یہ سن کر دونوں گروپ میں سناٹا طاری ہو گیا اور اپنی اپنی صدارت بچانے کے لئے وقتی خاموشی اختیار کر لی ، اب جمعیت ایک مخصوص خاندان کی جاگیر بن کر رہ گئی ہے ، اندھے معتقدین کا حال یہ ہے کہ اگر ان اصحاب کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی بات کی جائے یا کوئی سوال قائم کیا جائے تو کفر کا فتوی جاری ہو جاتا ہے (یہ صرف دعوی نہیں تلخ تجربہ ہے) ، دارالعلوم سے یہ اطلاعات آ رہی ہیں کہ اب نشانہ اہتمام پر ہے ، مولانا ابوالقاسم نعمانی صاحب کا دانا پانی لگتا ہے دارالعلوم میں پورا ہو چکا ، جمعیت علماء(میم ) کے پچھلے تین چار مہینوں کے پوسٹر غور سے دیکھ لیں کچھ اندازہ ہو جائے گا۔
نسیم اختر قاسمی لکھتے ہیں
پہلے یہ بات سمجھنی چاہئے کہ جمعیت یاکسی بھی ادارے کے ذمہ داران یامنظمین سے اختلاف ادارے یاجماعت سے اختلاف نہیں کہلاتا…اس لئے محمودمدنی سے کسی کوبھی اختلاف،ان کی غلطیوں کی نشاندہی یاان کے کسی بھی غیرقانونی یاغیراخلاقی عمل پرامت کے کسی بھی فردکوبولنے لکھنے کاحق حاصل ہے …کیوں کہ جمعیت کوئی ان کی خاندانی وراثت یاجاگیرنہیں ہے …یہ امت کی امانت ہے …..
جوشرپسند،چاپلوس،حاشیہ برداریاان کے رحم وکرم پہ پلنے والے لوگ ہیں …(کمنٹس پڑھ کراندازہ ہواکہ کچھ ایسی خبیث ذہنیت کے افراداس میں بھی ہیں ) محمودمدنی کے اس غیراخلاقی عمل کوبراہ راست جمعیت سے جوڑرہے ہیں ،یہ ان کی گھٹیاسوچ اورخصیہ برداری کے علاوہ کچھ نہیں ….چونکہ ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے …اس لئے اپنی اوچھی سوچ کاثبوت دیتے ہوئے ڈائریکٹ آرایس ایس سے جوڑدیتے ہیں …یہی کام توآرایس ایس بھی کررہی ہے کہ جومسلمان ان کے باتوں کونہیں مانتاان کودیش مخالف بتادیتے ہیں …اس لئے میں فیصلہ نہیں کرپارہاں کہ یہ (محمودمدنی کے ٹکڑوں اوررحم وکرم پہ پلنے والے)زیادہ خراب ہے یاآرایس ایس
جوشرپسند،چاپلوس،حاشیہ برداریاان کے رحم وکرم پہ پلنے والے لوگ ہیں …(کمنٹس پڑھ کراندازہ ہواکہ کچھ ایسی خبیث ذہنیت کے افراداس میں بھی ہیں ) محمودمدنی کے اس غیراخلاقی عمل کوبراہ راست جمعیت سے جوڑرہے ہیں ،یہ ان کی گھٹیاسوچ اورخصیہ برداری کے علاوہ کچھ نہیں ….چونکہ ان کے پاس کوئی معقول جواب نہیں ہے …اس لئے اپنی اوچھی سوچ کاثبوت دیتے ہوئے ڈائریکٹ آرایس ایس سے جوڑدیتے ہیں …یہی کام توآرایس ایس بھی کررہی ہے کہ جومسلمان ان کے باتوں کونہیں مانتاان کودیش مخالف بتادیتے ہیں …اس لئے میں فیصلہ نہیں کرپارہاں کہ یہ (محمودمدنی کے ٹکڑوں اوررحم وکرم پہ پلنے والے)زیادہ خراب ہے یاآرایس ایس
نوجوان صحافی شہنواز بدر قاسمی لکھتے ہیں
جمعیت سے ممتاز شخصیات کی برطرفی یاعلیحدگی کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے قبل بہی کئی ممتاز علماء کو اس ادارہ سے نکالا جا چکاہے، جن کے نام لینے کی ضرورت نہیں ہے، جہاں تک بات مولانا عبدالحمید نعمانی کی ہے، مولانا سے میرا رابطہ اور تعلق گزشتہ کئی سالوں سے ہے،انکی علمی صلاحیت کا مخالفین بہی معترف ہے، وہ پچھلے 30 سال سے جمعیت میں رہ کر بہت سارے کام کئے، صدارتی خطبہ سے لیکر اشتہار، پملفٹ اور پریس ریلیز تک مولانا ہی لکھتے رہے، مولانا اسعد مدنی صاحب مرحوم آپ کی تحریروں پر بہت بھروسہ کرتے تھے، اسی لیے جب تک مولانا کام کے رہے جمعیت نے خوب استعمال کیا ان کی قدر دانی کا وقت آیا تو ان کے ساتھ سوتیلا برتاؤ کیا گیا جو یقینا تکلیف دہ ہے۔
مشہور صحافی نعمان قیصر لکھتے ہیں
عہدہ مرتبہ اور جاہ و منصب سے زیادہ علمی قد و قامت کی اہمیت ہے مولانا عبد الحمید نعمانی کا علمی قد یقیناً بہت بلند ہے۔ دینی، قومی، ملکی، اور ملی مسئلے پر ان کی رائے اعتبار کا درجہ رکھتی ہے۔ مولانا کی یہی معتبریت بہت سے ملی قائدین کو راس نہیں آرہی ہے کچھ نام نہاد ملی قائدین ان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔
مسعود حسن لکھتے ہیں
کانگریس گاندھی خاندان کی اور جمعیۃ مدنی خاندان کی لونڈی بنی ہوئی ہے ، دونوں میں ہی استصواب رائے سے خاندانی اجارہ داری کا سد باب ناگزیر ہے ورنہ دونوں ہی کھانے کمانے کا ذریعہ تو بن سکتی ہیں قوم و ملت کی ترجمان ہرگز نہیں۔ بالاتفاق اگر امانت دارانہ شوراء استصوابی عمل دوبارہ انہیں چہروں کو منصب عطا کردیتا ہے تو قوم پہ واجب ہے کہ بلا چون و چرا اسے قبول کرے لیکن عمل استصواب میں کسی صورت بھی کجی غداری کے زمرے میں آئے گی۔ خدا کرے کہ علماء کا اختلاف فتنے کے بجائے باعث شادمانی ہو۔
کشمیر کے مشہور عالم دین مولانا شہزاد انوری صاحب اپنے تبصرہ میں یوں لکھتے ہیں
مولانا عبدالحمید نعمانی صاحب ملت اسلامیہ ہند کے صحافتی، قلمی اور لسانی دنیا کے بہترین ترجمان ہیں، جمعیۃ علماء ہند کے تحریری تعارف اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں کو مدلل انداز سے مسکت جواب دینے کا مخلصانہ کام جو مولانا نعمانی نے کیا ہے وہ قابل تحسین ہے، ایسے نازک حالات میں جب افراتفری کا ماحول پیدا ہوتا ہے تو بہت سے لوگ اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے مخالفت و معاونت کا راگ الاپتے ہیں، جمعیۃ علماء ہند کی مرکزی قیادت کو اس بارے میں ٹھوس اقدامات کرنے چاہیے کہ اس کا ادنی سے ادنی فرد بھی اس سے اپنا رشتہ نہ توڑے جب کہ مولانا نعمانی اپنی قابلیت سے امت کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کر چکے ہیں۔
نوجوان صحافی نسیم اختر قاسمی کا کہناہے کہ
صراحت شیخ نے کچھ الگ ہٹ کر یوں لکھاکہ
جمیعت کے خلاف واویلا مچانے اور اسے بدنام کرنے کے لئے ملت ٹائم کو آر ایس ایس کی جانب سے بھرپور مالی تعاون کی امید ہے۔
اس کے جواب میں نوجوان فاضل عبد اللہ ممتاز قاسمی یہ چبھتا ہوا سوال کردیا کہ
اگر محمود مدنی کے خلاف کسی تحریر کا آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آر ایس ایس سے بھرپور پیسہ ملتا ہے تو مولانا ارشد مدنی صاحب کو بھی اسی آر ایس ایس سے ملتا ہوگا!۔ بتائیں گے جناب کہ چچا بھتیجا میں سے کون آر ایس ایس سے بکے ہوئے تھے!
ملت کی قیادت کے نام پر ملت فروش!
باپ دادا کے نام کے بل پر جہالت، بے عقلی کے ساتھ جس قوم کی رہنمائی ہو اس قوم کا وہی حشر ہوتا ہے جو ہمارا ہندوستان میں ہے اور ان جیسے جاہلوں کو آپ جیسے اندھے عقیدت مند مل ہی جاتے ہیں!!
تلخ نوائی کے لیے معذرت۔
فضیل احمد نے لکھاکہ
الیکشن کے وقت محمود مدنی بذات خود آر ایس ایس کے ایجنٹ بن گئے تھے اور بی جے پی کے حق میں بیان بازیاں فرما رہے تھے ،
ان سے کہا جائے کہ آپ امت کا پیسہ تال کٹورا اسٹیڈیم اور دیگر جلسوں میں نہ ضائع نہ کریں بلکہ تعلیم پر خرچ کریں اور عبدالحمید نعمانی جیسے ہزاروں افراد پیدا کریں۔
ان سے کہا جائے کہ آپ امت کا پیسہ تال کٹورا اسٹیڈیم اور دیگر جلسوں میں نہ ضائع نہ کریں بلکہ تعلیم پر خرچ کریں اور عبدالحمید نعمانی جیسے ہزاروں افراد پیدا کریں۔
عارف مسعود لکھتے ہیں کہ
مولانا شمس صاحب ایک مشورہ دیتا ہوں جس طرح مکہ کے لوگوں کے الگ الگ بت تھے اور وہ ان کے خلاف کسی بھی طرح کی بات برداشت نہیں کر تے تھے اسی طرح ہمارے بھی ہیں. آپ کوئی بھی صحیح بات خواہ کتنی ہی تمیز کے دائرے میں کریں پسند نہیں کی جائیگی.
جسطرح آج کل حکومت کی کمی کو بیان کرنے والا فوراً دیش دروہی ہوجاتاہے اسی طرح جمیعت کی کمی بیان کرنے والے کو کسی دوسری جماعت سے وابستہ کردیا جاتا ہے. ممکن ہے آپ کا ایمان بھی زد میں آ جائے
جسطرح آج کل حکومت کی کمی کو بیان کرنے والا فوراً دیش دروہی ہوجاتاہے اسی طرح جمیعت کی کمی بیان کرنے والے کو کسی دوسری جماعت سے وابستہ کردیا جاتا ہے. ممکن ہے آپ کا ایمان بھی زد میں آ جائے
واضح رہے کہ سوشل میڈیا پر سینکڑوں کی تعداد میں مولانا کی حمایت اور جمیعۃ کی مذمت میں کمنٹس کئے گئے ہیں جن میں سے کچھ خاص کمنٹس اور تبصرے کو یہاں شامل کیا گیا ہے۔