ریڈنگ کلچر اور ہم

ثناءاللہ صادق تیمی 
ریڈنگ کلچر کا صاف مطلب ہے پڑھنے اور مطالعہ کرنے کی وہ خو جو کسی قوم کی تہذیب میں اس درجہ حاوی ہو جائے کہ وہ بذات خود کلچر بن جائے ۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا مرکب لفظ ہے لیکن در حقیقت اس کے پیچھے کسی بھی قوم کی ساری حقیقت چھپی ہوتی ہے ۔ یہ کلچر جس قوم میں جتنا زيادہ عروج پر ہوتا ہے وہ قوم اسی حساب سے ترقی کی سیڑھیاں طے کرتی ہے ۔ پڑھنے کا شوق جس سطح پر بھی ہو وہ عروج کا اشاریہ ہوتا ہے ، فکر ونظر کی وسعت یہیں سے حاصل ہوتی ہے ، تہذیب وتمدن کے درس یہیں سے ملتے ہیں ، اخلاق و کردار کی صفائی اسی چشمہ صافی سے ہوتی ہے اور دنیا و آفاق کے دروازے سے یہیں سے وا ہوتے ہيں ۔ یہ اگر انفرادی سطح پر ہو تو انفرادی سطح کے نتائج رونما ہوتے ہيں اور اگر یہ شوق اور جذبہ کسی قوم کا کلچر بن جائے ، اس کا شناخت نامہ ہو جائے اور اس کے سارے افراد میں جگہ بنالے تو وہ قوم کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے ۔
ریڈنگ کلچر کا قوموں کے عروج و زوال سے بلاواسطہ رشتہ ہے ۔ اسلام عرب کے بدؤں میں اترا تھا ، جنگجو قوم کے مابین آیا تھا اور اس بدو قوم پر اترنے والے اس دین نے اقرأ ( پڑھ ) سے آغاز کیا تھا ۔ نبی امی سے جرئيل امین نے کہا تھا کہ پڑھیے اور آپ نے کہا تھا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا اور انہوں نے آپ کو بھینچ کر کئی بار یہ مطالبہ کرکے پھراقرأ کے ذریعہ آپ کو پڑھایا تھا اور وہیں سے یہ بات صاف ہوگئی تھی کہ یہ امت امت قرائت ہوگی امت جہالت نہیں ۔
مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ اس امت نے اقرأ کی اس کی اہمیت کو سمجھا اور دیکھتے دیکھتے پوری امت کے اندر پڑھنے لکھنے کا جذبہ اتنا پروان چڑھا کہ علم ، شعور ، معرفت اور تحقیق ان کا شناخت نامہ ہوگئی ۔ آپ اسے اتفاق نہیں مان سکتے کہ اقرأ سے آغاز کرنے والی امت پر اترنے والی کتاب” قرآن ” ہے یعنی اس کا تعلق بھی قرائت سے ہی ہے ۔ آپ مسلمانوں کے شروعاتی دور کا مطالعہ کریں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ریڈنگ کلچر ان کے یہاں حاوی ہے ، علم ومعرفت کا دریا بہہ رہا ہے ، مختلف اور متنوع علوم ترقی کررہے ہیں ، کوئی طب میں نئی تحقیق کررہا ہے ، کسی نے جغرافیا کو نیا رنگ و آہنگ بخشا ہے، کسی نے تاریخ کو قید کرنے کا انوکھا طرز اپنایا ہے ، کسی نے فلکیات میں داد تحقیق دی ہے ، کسی نے سیر و سیاحت میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ، شرعی علوم کے بہت سے اقسام ہوگئے ہیں ، تدوین حدیث کا کام ہورہا ہے ، اصول حدیث متعین کیے جارہے ہیں ، اسماء الرجال پر کتابیں لکھی جارہی ہیں ، جرح و تعدیل کی بحثيں عروج پر ہیں ، تفسیر میں نئے نئے ٹرینڈس سامنے آرہے ہیں ، کسی کے یہاں الفاظ قرآن کی تحقیق ہورہی ہے ، کسی نے سنت کے مطابق تعبیر و تشریح کا فریضہ انجام دیا ہے ، کسی نے اسرائیلی روایات جمع کردیے ہیں ، کسی نے آراء اور فکر وعقل کے گھوڑے دوڑائے ہیں ، کسی نے لغت کو بنیاد بنایا ہے ۔ ادب و بلاغہ کی نئی نئی بحثيں اٹھ رہی ہیں ، نحو و صرف کے کیا کیا مباحث سامنے آرہے ہیں ، زبان وبیان کے ایک پر ایک اسالیب کاڑھے جارہے ہیں ، حیوانات اور حشرات الارض پر معلومات کی بہتات ہے ، فقہ اور اصول فقہہ پر کیا کیا کتابیں لکھی جارہی ہیں اور یوں ایک پوری امت کا بنیادی خاصہ قرائت ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک کتاب بازار کی زینت بن رہی ہے اور ایک سے بڑھ کر ایک عالم فاضل سامنے آرہے ہيں ۔ دوسری زبانوں کے علوم و فنون اور معارف کو عربی میں منتقل کیا جارہا ہے اور استفادے کی نوعیت تقلیدی یا مرعوبانہ نہیں ہے بلکہ خلاقانہ اور ماہرانہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے نئے نئے فنون اور علوم پر عرب اضافہ کررہے ہیں ۔
ریڈنگ کلچر کا جب یہ حال تھا تو عرب پوری دنیا کے لیے اسوہ کی حیثیت رکھ رہے تھے ۔ ان کی قوت مستحکم تھی ، سلطنت عظیم تھی اور پوری دنیا پر ان کا رعب و دبدبہ تھا ۔ یہ وہ دور ہے جب بادشاہ بھی اپنے بچوں کو علماء کی خدمت میں بھیجتے ہیں ، مامون اور امین کا وہ واقعہ بہت مشہور ہے جب دونوں بھائی استاد کی جوتی سیدھی کرنے کو لڑ بیٹھے تھے ۔
یہ کلچر جب بدلا ، پڑھنے پڑھانے کی بجائے لہو و لعب کی طرف رجحان تیز ہوا تو سلطنت بھی کمزورہوئی ، فکرو نظر کے زاویے بھی محدود ہوئے ، علم و حکمت کا دامن بھی ہاتھ سے چھٹا اور دنیا کی رسی بھی ڈھیلی پڑتی گئی ۔ پھر نتیجہ یہ نکلا کہ پوری امت پر کم ہمتی نے ڈیرے ڈال دیے ، ایجاد وابتکار ختم ہوا اور تقلید و مرعوبیت دلوں میں بیٹھ گئی ۔
آج مغرب کا دور دورہ ہے ۔ پوری دنیا اس کے زیر نگیں ہے ، کوتاہ نظروں کو یہ سائنس و ٹکنالوجی کا نتیجہ لگتا ہے لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ وہ سائنس و ٹکنالوجی تک پہنچے کیسے ہیں ، اب بھی ان کے اندر پڑھنے لکھنے کا جذبہ کیسا ہے ، کس طرح انہوں نے عربی کتابوں کے ترجمے کیے ہیں ، ان سے استفادہ کیا ہے اور کس طرح جب مسلمان لہو و لعب میں مست ہیں انہوں نے فکرو بصیرت کی شمعیں روشن کی ہیں ۔ یہ تعجب کی بات نہیں تو اور کیا ہے کہ پچھلی دو صدیوں میں اور میدان تو چھوڑ دیجیے خود اسلامی علوم پر ایک پر ایک زبردست تحقیقی کام مغربی اسکالرز نے کیے ہیں ، مستشرقین نے اسلامی علوم و معارف پر تحقیق و تنقید کی ایسی بحثيں قائم کی ہیں کہ ان کے تعصب کے باوجود دنیا ان سے استفادہ کرنے پر مجبور ہے ۔
ہمارے یہاں پڑھنے لکھنے کا جذبہ حد درجہ کمزور ہے ۔ ہم اخبار تک خرید کر نہیں پڑھتے ، سب سے کم اگر کوئی قوم اخبار پڑھتی ہے تو وہ ہم ہیں ، ہمارے یہاں کتابیں خریدنے کو تضییع مال سمجھا جاتا ہے ، علمی کتابیں ایک تو چھپتی نہیں اور اگر چھپ جائيں تو خریدار نہیں ملتا ۔ پچھلے دنوں ایک بڑے ناشر سے بات ہو رہی تھی ۔ انہوں نے شکایت کی کہ حضرت ہلکے پھلکے مضامین والی کتابیں تو بک جاتی ہیں ، تقریر سکھانے والی کتابوں کا ڈیمانڈ ہوتا ہے لیکن علمی اور فکری کتابیں ڈھوتے ڈھوتے ہم تھک جاتے ہیں ، پونجی تک حاصل نہیں ہو پاتی ۔ ہندوستان میں تیس کروڑ کے قریب مسلمان جیتے ہیں ، آپ ان کی آبادی والے شہروں کا جائزہ لے لیں ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ کو ایک پر ایک ہوٹل مل جائیں گے ، چائے کی دکان مل جائے گی اور بقیہ سب کچھ مل جائے گا اور اگر نہیں ملے گا تو کتاب کی کوئی اچھی دوکان نہیں ملے گی ، کوئی لائبریری نہیں ملے گی ۔ دہلی کے جامعہ نگر کو دیکھ لیجیے جہاں پڑھے لکھے مسلمان جیتے ہیں اور آپ کو یہ سچائی سمجھ میں آجائے گی !! جھارکھنڈ کے شہر دھنباد میں واسع پور مسلمانوں کا علاقہ ہے ، ایک طالب بھائی ہیں ، کتاب کی دوکان کھول رکھی تھی ، خسارہ برداشت کرتے کرتے آخر کار سبزی ترکاری بیچنے پر مجبور ہوگئے ۔
عرب نیوز میں چھپی ایک تحقیق کے مطابق ایک عرب ایک سال میں اوسطا ربع صفحہ پڑھتا ہے جبکہ ایک امریکی گیارہ کتابیں اور ایک بریطانی سات کتابیں پڑھتا ہے ۔ اسی رپورٹ میں بتایا گيا ہے کہ ایک عرب بچہ اوسطا سال میں چھ منٹ پڑھتا ہے جبکہ ایک پوروپین بچہ بارہ سو منٹ پڑھتا ہے ۔
ہمارے یہاں جو کتابیں چھپ رہی ہیں ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ ہم کس سمت میں جارہے ہیں اور ریڈنگ کلچر کا کیا حال ہے ۔ ہر سال شائع ہونے والی کتابوں کی فہرست دیکھ لیجیے اور آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ہمارے یہاں شعری مجموعے کتنے چھپ رہے ہیں اور کسی بھی موضوع پر تحقیق و تصنیف کی قابل قدر کتابیں کتنی چھپ رہی ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر تعجب نہیں ہوا جب میرے ایک تعلیم یافتہ شناسا نے یہ سوال قائم کیا کہ سائنس و ٹکنالوجی کے اس دور میں آخر اسلامی علوم ، تاریخ ، سماجی علوم وغیرہ پر تحقیق و ریسرچ کی کیا ضرورت ہے اور اس سے امت کا بھلا کیا بھلا ہوگا ؟ حالاں کہ میں انہیں یہ سمجھانے میں کامیاب رہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہہ کہ یہی تحقیقی جذبہ اگر پروان چڑھ جائے تو وہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی تحقیق و جستجو پر ابھارے گا لیکن ان کے اس سوال سے امت کے سوچنے کا ڈھنگ ضرور معلوم ہوتا ہے !
آپ کو تعجب نہیں ہونا چاہیے اگر آپ کی ملاقات کسی ایسے یونیورسٹی اسکالر سے ہو جائے جو کسی موضوع پر ریسرچ کررہا ہو اور اس موضوع سے متعلق اس کے پاس دس کتابیں بھی نہ ہوں یا اس نے دس کتابیں بھی نہ پڑھی ہوں اور اسے ڈگری مل بھی گئی ہو ۔
کمتر ريڈنگ کلچر کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری رہنمائی ہر سطح پر وہ کررہے ہیں جو رہنما ہونے کے کم کم ہی مستحق ہیں ۔ مسجد کے امام سے لے کر، سیاست گلیاروں تک اور جلسوں کے خطیبوں تک ان پڑھ قسم کے لوگ بالعموم ہمارے رہنما ہیں ، پروفیشنل کورسیز کرنا وقت کی ضرورت ہے لیکن پڑھنے لکھنے کا جذبہ رکھنا یہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ انسانی علوم کو پڑھنے کے لیے الگ سے استاد کی کم ہی ضرورت پڑتی ہے لیکن ہمارے یہاں ان علوم سے اسفادے کا جذبہ بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ۔ مارکانڈے کاٹجو نے اپنے ایک انٹر ویوو میں کہاتھا کہ آدمی کو ویل ریڈ ہونا چاہیے یعنی ہر چند کہ وہ ہر فیلڈ کا ماہر نہ ہو لیکن ہر طرح کے علوم سے واقف ضرور ہو ، مجھے نہیں معلوم کہ امت مسلمہ میں کتنے لوگ ایسے ہوں گے جنہیں ویل ریڈ کہا جاسکتا ہے ۔
یاد رکھیے کہ جب تک پڑھنے پڑھانے کے کلچر کو عام نہ کریں گے ، امت کا ذہنی اٹھان نہیں ہوگا اور جب تک ذہنی اٹھان نہیں ہوگا امت پستی میں گرتی رہے گی ۔ اس لیے آئیے عہد کریں کہ ہم ریڈنگ کلچر کو عام کریں گے اور اپنی امت کو پڑھی لکھی امت بنائیں گے ۔ اس کے لیے کئی سطحوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی ۔
1 ۔ جو تعلیمی ادارے کھلے ہوئے ہیں انہیں مستحکم کیا جائے اور حسب ضرورت اور بھی تعلیمی ادارے کھولے جائیں ۔
2 ۔ خاص طور پر گاؤں اور محلوں کی سطحوں پر مکتب اور چھوٹے چھوٹے اسکول مدرسوں کے جال پھیلائے جائیں ۔
3 ۔ ہر گھر میں کم از کم ایک اخبار ضرور پہنچے ہر چند کہ گھر کے لوگوں کو پڑھنا لکھنا نہ آتا ہو کہ اگر کوئی مہمان آيا تو وہی استفادہ کرسکے یا کم از کم دیکھا دیکھی ہی پڑھنے لکھنے کا جذبہ پروان چڑھ جائے ۔
4 ۔ آپ کو پڑھنے لکھنے کا موقع نہیں مل پاتا پھر بھی اچھی کتابیں خرید کر گھر لے جائیں ، انہیں الماریوں میں سجا کر رکھیں ، اپنے ٹیبل پر رکھیں ۔ آپ نہیں تو گھر کی خواتین ، نہیں تو آپ کے بچے استفادہ کرسکیں گے ۔ کبھی کبھی خالی وقتوں میں کچھ کرنے کو دل نہيں کرتا ، ایسے میں اگر کتابیں دستیاب ہوں گیں تو عین ممکن ہے کہ وہ کتاب ہی پڑھنے لگ جائیں اور وہیں سے ان کے اندر پڑھنے کا جذبہ بیدار ہوجائے ۔
5 ۔ ہر محلے میں کم از کم ایک لائبریری کھولیں جہاں مخلتف قسم کی کتابیں اور اخبارات و رسائل مہیا ہوں ۔ لائبریری بڑی ہو یہ ضروری نہیں لیکن اس کا پایا جانا ضروری ہے ۔ صاحب خیر لوگ مدد کریں اور یوں جہاں تہاں وقت گزارنے کی بجائے لائبریری میں آکر کچھ پڑھیں لکھیں۔
6 ۔ اپنے بچوں کے ساتھ جس طرح آپ چڑیا گھر وغیرہ کی سیر کرنے جاتے ہیں کبھی اپنے بچوں کو لے مشہور و معروف لائبریریوں کی بھی سیر کریں اور کتابوں کی اہمیت پر بیوی بچوں سے گفتگو کریں ۔
7 ۔ آج موبائل اور اسمارٹ فون کا زمانہ ہے ، بہت ساری ای لائبریریاں ہیں ، علم ایک بٹن کے کلک کرنے پر حاصل ہوتا ہے ۔ اپنے لوگوں کو ایسی لائبریریوں سے استفادہ کرنا سکھائیں ، علوم وفنون سے استفادے کا طریقہ بتائیں ۔
8 ۔ اکثر ہمارے یہاں چرچے کرکٹرز اور سیاستدانوں کے بارے میں ہوتے ہیں ، آپ کوشش کریں کہ چرچے کبھی علمی شخصیات پر بھی ہوں ، کبھی کتابوں پر بھی چرچے ہوں ، نئی تحقیقات پر بھی گفتگو ہو ۔ یہ دشوار ہوگا لیکن آہستہ آہستہ ایک تہذیب ترقی کر جائے گی ۔
9 ۔ ملی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ ریڈنگ کلچر کو عام کرنے کے لیے گاہے بگاہے مختلف فنون کی کتابوں کی قرائت کا مسابقہ کرائيں اور اس پر انعام رکھیں ۔ انہیں ساتھ ہی اچھی کتابوں کی تالیف پر انعامات سے نوازے کا طریقہ اپنانا چاہیے ۔
10 ۔ اصحاب خیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی کتابوں کی طباعت و نشر کے خرچے اٹھائیں اور قوم میں ریڈنگ کلچر کو پروان چڑھانے میں اپنی حصہ داری نبھائيں ۔
11 ۔ رشتے داروں اور احباب کے گھر جاتے ہوئے آپ اور ہم کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور لے جاتے ہیں اور تحفوں کے ساتھ لازمی طور پر کوئی ایک اچھی کتاب کا تحفہ بھی شامل کرلیں ۔
اللہ کرے کہ ہم اب بھی اپنی آنکھیں کھولنے کو تیار ہو جائیں۔

★، اسسٹنٹ پروفیسر امام یونیورسٹی ، ریاض

SHARE