بشار کے عسکری ٹھکانے پر امریکی حملہ : دیر آید درست آید

ذاکر حسین اعظمی
باوجودیکہ بلاد شام کے شہر حلب کے مشرق میں واقع “خان شیخون” میں ظالم بشار اسد کی جانب سے انسانیت سوز کیمکل حملہ کے رد عمل میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرم کی جانب سے اسد کے ان فوجی کیمپوں پر میزائل حملے جہاں سے یہ حملے کئے گئے تھے اپنے اہداف کے لحاظ سے بہت محدود ہونے کے ساتھ ساتھ خطے میں مستقبل قریب میں عسکری توازن کو بدلنے میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرپائیں گے، مگر اپنے وقت کے لحاظ سے یہ ایک خاص اہمیت کے حامل ہیں اور نئے جیو پولیٹکل انقلاب کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔ اس بروقت کاروائی کے ذریعہ صدر ٹرمپ نے اگر ایک طرف اندرون ملک خوب واہ واہی لوٹی ہے تو دوسری طرف اقوام عالم نے ان کے اس اقدام کو سراہا ہے اور بشار کے حلیف روس کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ ملک شام کے سیاسی افق پر اسکی عسکری عظمت کا سورج رو بہ زوال ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ بشار حکومت کے دن اب گنے جاچکے ہیں۔

امریکہ نے اس کاروائی کے ذریعہ ماضی میں اپنی مجرمانہ خاموشی کو ٹوڑا ہے اور یہ واضح ہوگیا ہے ٹرمپ کا امریکہ مشرق وسطی کے تعلق سے اوباما کے امریکہ سے یکسر مختلف ہوگا۔ ٹرمپ کے اس اقدام سے اگر ایک طرف مشرق وسطی میں ایران کے “ملائی” اثر ورسوخ میں کمی واقع ہوگی تو دوسری طرف خطے میں ترکی کے کردار کو اہمیت دئے جانے کے ساتھ ساتھ روس کو ٹیبل ٹالک کے بجائے زمینی سطح پر بات چیت پر مجبور ہونا ہوگا، اور امریکہ کے ہمنوا ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ جس طرح ماضی میں امریکہ نے عراق میں کیمائی اسلحہ کے بہانے صدام حسین کا تختہ پلٹا تھا آج بالکل اسی انداز میں کیمائی اسلحہ کے استعمال کے نام پر بشار کا تختہ پلٹ ہوگا۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسد نے کیمائی اسلحہ کے استعمال کا فیصلہ بذات خود کیا تھا یا اس سے ایسا کروایا گیا تھا تاکہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے دلدل میں پھنس جائے؟ کہیں ایسا تو نہیں اسد کے ہمنوا ممالک نے یہ محسوس کرلیا کہ ان کے مفادات اسد کی حکومت کے بقا سے کہیں زیادہ اہم ہیں؟

یہ کہا جاسکتا ہے کہ شام کا قضیہ ایک اہم موڑ پر ہے، اور امریکہ کو یہ ادراک ہوچلا ہے کہ بشار کی حکومت کے خاتمہ کے بغیر خطے سے دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکتا، اور نہ ہی ایران کی خطے میں مذموم شرارتوں پر لگام لگائی جاسکتی ہے، اور نہ ہی روس کی ایک طرفہ بالادستی کو روکا جاسکتا ہے۔ امریکہ نے روس کو یہ واضح پیغام بھی دیا ہے کہ اگر بحر متوسط میں اسے اپنے مفادات عزیز ہیں تو ظالم اسد کی ظالمانہ حمایت سے دستبردار ہونا ہوگا۔