حالات بدلنے کے لئے پہلے خود کو بدلنا ہوگا

مدثر احمد قاسمی
ہمارے ملک ہندوستان میں کم و و بیش پچیس کروڑ مسلمان آباد ہیں،جسمیں صاحب ثروت افراد بھی ہیں اور غربت زدہ بھی ، طاقتور اشخاص بھی ہیں اور کمزور بھی ،تعلیم یافتہ طبقہ بھی ہے اور غیر تعلیم یافتہ بھی۔ ان تمام میں جو مشترک بات ہے، وہ ہے ا حساس محرومی اور ناانصافیوں کی کہانی۔مزید دلچسپ امر یہ ہے کہ ان تمام کے لئے اکثرمسلمان صرف دوسروں کو ہی موردِ الزام ٹھہراتے نظرآتے ہیں جبکہ جہاں سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے لئے یہ لازم ہیکہ ہرفرقہ اور جماعت کو کما حقہ نمائندگی دے اور سب کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے،اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نمائندگی پانے کے لئے ہر فرقہ اور جماعت کے افراد مطلوبہ عہدے کے لئے ضروری صلاحیتوںسے آراستہ ہوں اور انصاف پانے کے لئے تمام کیل کانٹوں سے لیس ہوں۔

اس پسِ منظر میں اگر ہندوستانی مسلمانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ یہاں مسلمان دو طرفہ مار جھیل رہے ہیں ۔ ایک طرف جہاں موجودہ صلاحیتوں کے تناسب سے سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں نمائندگی نہیں مل پارہی ہے اور انہیں انصاف قائم کرنے والے افرادو اداروں کے ذریعہ غیر جمہوری طرز عمل کا شکار ہونا پڑ رہا ہے وہیں دوسری طرف آبادی کے حساب سے مسلمانوں کو جس لیاقت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور جس طرح سے انہیں مختلف مواقع کے حصول کے لئے خود کے پا و ں پر کھڑا ہونا چاہئے یقیناً وہ اس میں ناکام ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان محض لعن طعن کا سہارا نہ لیں بلکہ عملاً بھی مثبت پہل کریں کیونکہ اس کے بعد ہی اس ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی،سیاسی اور معاشی ترقی ممکن ہوسکے گی۔

ایسا بھی نہیں ہےکہ ہندوستانی مسلمانوں میں صلاحیت کی ہی کمی ہے جس کی بنیاد پر تمام میدانوں میں پسماندگی اسکا مقدر بن چکی ہے۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ یہاں کے مسلمان بے پناہ صلاحتیوں کے باوجود اندرونی خانہ جنگی کی وجہ سے ایسی قیادت اور رہنمائی کو ترستے رہے ہیں جو انہیں منظم کرکے ہمہ جہت ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے اور قیادت کے اس فقدان کی یقینی طور پر دو وجہیں ہیں:(۱) پہلے ہی سے موجود ملت کے نام نہادذمہ داران اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجودپُرجوش و ہوش مندنئی قیادت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیتے(۲) وقتاً فوقتاً مختلف پلیٹ فارم سے کام کرنے والے کچھ افراد ملت کیلئے نجاد دہندہ کے طورپر بھی سامنے آتے ہیں لیکن عموماًشہرت و منصب کی ہوس میںملت کا سستا سودا کربیٹھتے ہیں۔اس کے علاوہ اقرباپروری نے بھی ہندستانی مسلمانوں کیلئے جلتے پر تیل کا کام کیا ہے۔اس پس منظر کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال قائم ہوجاتا ہے کہ –دشمن اگر زخم دے تو مرہم کیلئے اپنوں کے پاس جاتے ہیںلیکن اگر اپنے ہی لوگ پیٹھ میں خنجر گھونپیں تو پھرکو ئی کہاں جائے ۔۔۔؟

جہاں تک موجودہ مسلم قیادت کا تعلق ہے تو ملک کے مختلف حصوں سے گنتی کے چند نام ضرور سامنے آتے ہیں،جنہوں نے علاقائی طور پر فلاح و بہبود کے کچھ کام بھی کئے ہیں لیکن عموماً یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر خود پسندی کی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی بنیاد پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کےاندر جو خوبیاں ہیں وہ دوسروں میں قطعاً نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کوئی کسی کی بات تک سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یقیناً یہی وہ سوچ ہے جس سے اتحاد کے سارے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔

اس لئے اگر ہندوستانی مسلمان عزت کی زندگی جینا چاہتے ہیں تو انہیں دو نکتوں پر کام کرنا ہوگا ۔(۱) تعلیمی لائن سے انہیں اس قدر آگے بڑھنا ہوگا کہ کوئی ان کی بالا دستی کو چیلنج نہ کرسکےاور اس طرح وہ حکومت کے ہر شعبہ میں نمائندگی حاصل کرلیں۔(۲)مسلکی اور دیگر اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر مشترکہ ملی مفاد کے لئے سب کو ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا اور انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اُن کی آپسی انتشار اور چپقلش سے مخالفین بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں اورنتیجتاً مسلمان اپنے آپ کو شکست خوردہ محسوس کر رہے ہیں۔

ہمارے سامنے اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ– کیا گوناں گوں اختلافات کے رہتے ہوئے مسلمان باہم متحد ہوسکتے ہیں؟حقیقتاً یہ سوال غلط فہمی کی بنیاد پر قائم ہے کیونکہ اتحاد اسکا نام نہیں ہے کہ تمام لوگ ہر بات میں متفق ہوجائیں بلکہ وسیع تر معنیٰ میں اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے فروعی اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے لوگ ملی اور قومی مسائل میں اتحاد کا مظاہرہ کریں اور اس عظیم تر اتحاد میں فروعی مسائل کو با لکل بھی تصادم کا ذریعہ نہ بنائیں۔ہاں یہ ضروری ہے کہ اتحاد کے لئے تمام افراد وسعتِ ظرفی، قوتِ برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔

اتحاد و اتفاق کے حوالے سے موجودہ وقت میں ہندوستانی مسلمانوں کاطرزِ عمل یہ ہے کہ وقتی اغراض کے تحت چندجماعتیں کسی بات پر اتفاق کرتی ہیںلیکن جب اغراض پوری ہو جاتی ہیںیا ان میں ناکامی ہوجاتی ہے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجا تا ہے بلکہ افتراق اور عداوت کی نوبت بھی آجاتی ہے۔آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر گروہ اور ہر شخص دوسروں کو اپنے پروگرام کے تحت متحد اور متفق کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ یہ بنیادی اتحاد و اتفاق کے اصول کے با لکل منافی ہےکیونکہ اتحاد کی بنیاد ان چیزوں کو بنا یا جانا چاہئے جو تمام لوگوں کے درمیان مشترک ہو۔اس کے علاوہ ہندوستانی منظر نامے سے بآسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کو نقصان پہونچانے اور اس راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بے پناہ سازشیں بھی ہو رہی ہیں، لہذا کشمکش کے اس دلدل سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ موجود ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محض بدگمانی کی بنیاد پر دست و گریباں نہ ہوں یعنی اپنی بد گمانیوں کو دور کریں اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کی توہین سے بالکلیہ پرہیز کریں۔

ہندوستان کے سیاسی پس منظر میں ہمیں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوری نظام میں کسی بھی مرحلہ میں سیاسی نمائندوں کا انتخاب کثرتِ ووٹ سے ہوتا ہے ،ظاہر ہے کہ اس صورتِ حال میں اکثریت کی حمایت جنہیں حاصل ہوگی وہی فاتح ہوگا۔ اب اگر مذہبی بنیاد پر ہم اپنے آپ کو تقسیم کر لیتے ہیں یا ہمارے مخالفین ہمیں سازش کے تحت تقسیم کردیتے ہیں تو گنتی کی چند سیٹوں کے علاوہ اکثر جگہوں میں ہماری شکست طے ہے کیوں کہ ہم مذہبی اعتبارسے اقلیت میں ہیں۔اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ ہم سیکولر برادران وطن کو سیاسی طور پر اپنا ہم خیال بنائیںاور علاقہ کے حساب سے”لو اور دو”کی پالیسی اپنائیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی دوست اور دشمن نہیں ہوتا اسی وجہ سےہندوستان کے مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے مفادات کو پیشِ نظررکھ کرتمام انتخابات کے موقعوںپر ہر خطہ کے لئے اپنا لائحہ عمل تیار کریںاور اپنے مطالبات کے حساب سے خود کی سیکولر پارٹی یا کسی دوسرے سیکولر پارٹی اورامیدوار سے سمجھوتہ کریں۔

خلاصہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کو با لخصوص اور دیگر پسماندہ طبقوں کو بالعموم شکست خوردگی کے احساس سے باہر نکالنے کے لئے سب سے پہلے ارباب حل و عقد اپنے طرز عمل میں انقلابی تبدیلیاں لائیں، کیونکہ مسئلہ عوام کا نہیں خواص کا ہے ، عوام الناس تو خواص کے پیچھے ہیں وہ انہیں جہاں لے جائیں گے وہاں جائیں گے۔ بہتر ہے کہ اتحاد کو مضبوطی فراہم کرنے کے لئے اور اسے حقیقی منزل تک پہونچانے کے لئے ہر طبقے سے اور ہر مسلک سے پہلے غیر متنازع شخصیتوں کو آگے بڑھایا جائے تاکہ بات سے بات بنے اور اتحاد کی مضبوط بنیاد پڑے ا ور پھر کارواں کی شکل میں ہم اپنےہمہ جہت مقاصد کی جانب گامزن ہوجائیں۔