سیف ازہر
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
جنگل راجکیا ہوتا ہے صرف سنتا تھا مگر اب گاہے بگاہے دیکھنے کو بھی مل رہا ہے ۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ اس ملک میں گﺅ رکشک اور ہندو ےوا وہنی اور اس طرح کی سخت گیر تنظیمیں ہیں جو کہ ہم کو جنگل راج دیکھنے کا موقع فراہم کرتی رہتی ہیں اور ہم ہیں کہ لذت لینے کے بجائے شور مچاتے ہیں ۔قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں ۔پہلو خان کا الور میں گؤ رکشکوں کے ہاتھوں قتل ہوا ہے یہ کسی سے مخفی نہیں ہے مگرپھر بھی گؤ رکشوں پر صرف پیٹنے کا مقدمہ درج ہوا ہے ۔اب اس سے زیادہ انصاف کی توقع زیادتی نہیں تو اور کیا ہوگی ۔ قانون اپنا کام کر رہا ہے پیٹنے والوں پر مقدمہ درج ہوچکاہے ۔اس سے بڑھ کر ان لوگوں پر بھی مقدمہ درج ہوا جو گؤ ماتا کی اسمگلنگ کر رہے تھے ۔اب قانون کو اس کیا لینا دینا کہ ان کے پاس دستاویز تھے جو کہ گؤ رکشکوں نے پھاڑ کر پھینک دیا ۔پولیس نے پہلو خان کی جان بچائی اور گؤ رکشکوںنے گؤ ماتا بھی محفوظ رکھا اس کے عوض ریاستی اور مرکزی حکومت کو انعام دینا چاہئے ۔ اگر بھوپال جیل سے فرار ہونے والے آٹھ دہشت گردوں کو مار گرانے پر پولیس کو انعام سے نوازا جاسکتا ہے تو گؤ ماتا کو بچانے والوں کو کیوں نہیں ۔یہ تو ایک واقعہ ہے اس سے بڑا بڑا کارنامہ گؤ رکشکوں نے انجام دیا ہے ۔اخلاق کو مارنے والے کو حکومت نے ترنگے میں دفن کیا تھا ۔یہ اعزاز اگر بے چارے الور کے گؤ رکشکوں کو اس لئے نہیں مل سکتا کہ وہ زندہ ہیں تو کم سے کم کسی ریاستی اعزاز کا حق تو وہ رکھتے ہی ہیں ۔یقین مانیے اگر ان کو کوئی اعزازنہیں ملا تو یہ ان کی حق تلفی تو ہے ہی باقی گؤ رکشکوں کی حوصلہ شکنی بھی ہے ۔اس ملک میں گؤ ماتا کے تحفظ کے لئے گؤ رکشکوں کی حوصلہ افزائی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہوائی جہاز میں ایدھن۔ راجستھان کے وزیر داخلہ گلاب چند کٹاریہ نے ان کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔اس بار زبانی کی ہے ممکن ہے آئندہ اعزاز سے بھی نوازیں ۔ کسی کو بھی اتنا جلدی مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔میں نے ان کا بےان سنا ہے انھوں نے کہا کہ ”گؤ اسمگلر بہت چالاک ہیں ہم نے اتنی چوکیاں ریاست میں بنائی ہیں مگر پھر بھی وہ چکمہ دے کر نکل جاتے ہیں ۔اب گؤ رکشک جو گؤ ماتا سے پیار کرتے ہیں ان کو جب پتہ چلتا ہے تو وہ روکتے ہیں۔ روکنے تک تو ٹھیک ہے لیکن قانون کو ہاتھ میں لینا یہ غلط ہے ۔“سوال یہ ہے ان کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ روکیں ۔اگر گؤ رکشک روکنے کا حق رکھتے ہیں تو پھر پولیس کو چھٹی پر بھیج دیجئے۔ ان کو اتنی تنخواہ دے کر رکھنے کا کیا مطلب ہے ۔ کس قانون کے تحت آپ نے گؤ رکشکوں کویہ اختیار دے رکھا ہے ۔الور کے متاثرین کے مطابق اگر پولیس نہ آتی تو ان کو یہ لوگ جلانے والے تھے۔ یہ اگر دہشت گردی نہیں تو پھر دہشت گردی کی تعریف ہمیں وزیرداخلہ صاحب آپ بتا دیجئے ۔ایک ہجوم جس کو چاہے پکڑ کر مار سکتا ہے ۔قانون اس پر کوئی کارروائی نہیں کر پاتا یہ قانون کی مجبوری ہے یا قانون کو مجبور کردیا جاتا ہے ۔ اخلاق سے لے کر اب تک پورے ملک اس طرح کے 6 واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔قانون نے کو ئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی ہے اور پہلو خان کے معاملہ میں کیا ہوگا یہ تو دوسو لوگوں پر مقدمہ درج کرنے سے ہی صاف ہوگیا ہے ۔چلو اگر صرف ایک واقعہ ہوتا تو مان لیتاکہ اتنا بڑ املک ہے کہیں ہوگیا مگر ہندو یوا واہنی نے ابھی مہراج گنج کے ایک چرچ میں پہنچ کر توڑ پھوڑ کی ، پرارتھنا رکوا دیا ۔ چلئے یہ بھی کوئی بات نہیں ہوئی مگر جھارکھنڈ میں مغرب کی نماز پڑھانے کے جرم میں موذن اور امام کو مارا پیٹا گیا ،یہ کیا ہے ۔یہ تو کوئی گؤ اسمگلنگ نہیں تھی ۔چرچ کی پرارتھنا کو تھوڑی دیر کےلئے مان لیتے ہیں کہ وہا ں پرارتھنا نہیں مذہب تبدیلی ہورہی تھی ۔ لیکن جھارکھنڈ کی مسجد میں کس چیز کی تبدیلی ہورہی تھی ۔نماز پڑھنا اور پڑھانا کونسا جرم ہے ۔وہ کون لوگ تھے جنھوں نے اذان دینے اور نماز پڑھنے سے منع کیا تھا۔ اگر اس ملک میں قانون کی بالا دستی ہے تو جھارکھنڈ ہی میں ایک مسلم لڑکے سالک کا ایک غیر مسلم لڑکی سے پیار کے جرم میں جان سے کیوں مار دیا جاتا ہے ۔ یہ سب واقعات سالوں پرانے نہیں ہیں صرف ایک ہفتہ کے اند ر پیش آئے ہیں ۔ گؤ رکشکوں کو جن چھ ریاستوں نے اجازت دے رکھا ہے، انھوں نے آکر سپریم کورٹ کو کوئی جواب کیوں نہیں دیا۔ وہ کون سی بات تھی کہ مرکز سے سپریم کورٹ کو کہنا پڑا کہ کیا آپ اس ملک میں قانون نہیں رکھنا چاہتے ہیں ۔ گؤ رکشکوں کو چھ ریاستوں نے اجازت دے دی ۔ یوپی میں اینٹی رومیو کو بھی اجازت مل گئی ۔ کل کو عورتوں کا کوئی گروپ شراب بندی کے لئے رضا کارانہ طور پر اٹھ کھڑا ہوگا ۔ڈاکٹروں اور لڑکیوں کا کوئی گروپ سیلف ڈیفنس کے نام پر اٹھ کھڑا ہوا تب تواس ملک کے قانون کی واٹ لگ جانی ہے ۔صرف واٹ نہیں پورا ملک خانہ جنگی میں چلا جائے گا ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اٹھ کھڑا ہوگا اور پانڈے جی تھانہ میں آن ڈیوٹی بیٹھ کر صرف سیٹی بجائیں گے ۔ پھر وہی حالت ہوگی جو پڑوسی ملک پاکستان کی ہے ۔ لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں ۔یہ جو بھی ہورہا ہے گؤ رکشا نہیں ہے اگر گؤ رکشا ہوتی تو اس ملک میں سرکاری گؤ شالا میں ہزاروں گایوں کے مرنے کی خبریں نہیں آتیں ۔ مرنے والی گائیں کسی وبا سے نہیں صرف اس لئے مری ہیں کہ ان کو ماتا ماننے والے لوگ ماں کے چارے کا پیسہ کھا گئے ۔ اگر گؤ ماتا کا تحفظ ہی مقصود تھا تو پہلو خان کو جان سے مار دینے والوں نے ڈرائیور کو کیوں چھوڑ دیا ۔اگر یہ لوگ مجرم تھے تو ڈرائیور بھی برابر کا شریک تھا ۔لیکن گؤ رکشکوں نے گاڑی روک کر اس کو صرف اس لئے بھگا دیا کہ وہ غیر مسلم تھا ۔اگر گؤ ماتا کا تحفظ ہی ان گؤ رکشکوں کا کام ہے تو ابھی حالیہ دنوں یوپی میں مشرا صاحب کے یہاں جب سے پچاس سے زیادہ گایوں کا ڈھانچہ برآمد ہوا، تو ان کو مارنے کون سا گؤ رکشک گروپ گیا ۔کیا گؤ رکشک گؤ ماتا کوصرف مسلمانوں سے بچانا چاہتے ہیں ۔ بات بات میں قانون کی بات کرنے والی مودی حکومت میں اقلیتی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا کہ ایسی کوئی واردات ہوئی ہی نہیں ہے ۔غیر ملکی میڈیا تک کو اس بات کی خبر ہوگئی اور وزیر موصوف کو اس بات کی بھنک تک نہیں لگی ۔یہ قانون کی بالادستی کے نام پر قانون کا قتل نہیں ہے تو اور کیا ہے ۔اتنا ہی نہیں نقوی صاحب نے اپوزیشن کو سمجھا یا کہ مجرم مجرم ہوتا ہے ہندو اور مسلمان نہیں ۔اب نقوی صاحب سے کوئی پوچھے کہ اگر مجرم مجر م ہوتا ہے تو پھر مسلم کیسے دہشت گرد ہوجاتا ہے ۔یہ حملے کیوں ہورہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ مودی حکومت سے پہلے ایسا کیوں نہیں ہوتا تھا ۔اگر آزادی سے اب تک گؤ رکشا نہیں ہورہی تھی تو اتنی زیادہ گؤ ماتا کیسے بچ گئیں ۔ کیا اس سے پہلے گائے کو اسمگل کرنے والوں اور انھےں کاٹنے والوں پر کارروائی نہیں ہوتی تھی۔ پھر ہنگامہ کس بات کا ہے ۔رضاکارانہ گؤ رکشک بنانے اور ان کی پشت پناہی کی کیا ضرورت پڑی ۔کیا قانون کو بے حیثیت کرنے کا کوئی پلان ہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو جس طرح اور دہشت گرد تنظیموں یا نقض امن کے مجرمین پر کارروائی ہوتی ہے گؤ رکشکوں پر کیوں نہیں کی جاتی ۔گؤ رکشکوں کا یہ عمل ،جن لوگوں نے پیار کے جرم میں ایک لڑکے کو مارا اور جن لوگوں نے مسجد اور چرچ پر حملہ کیا ان کے خلاف سیمی یا انڈین مجاہدین کی طرح کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی ۔کیا یہ نقض امن نہیں ہے ۔کیا یہ ہجومی دہشت گردی نہیں ہے ۔ کیا اس سے قانون کی بالادستی پر حرف نہیں آتا ۔یوگی آج کل ایکشن میں ہے اور قانون اور غیر قانون کا سب کو پاٹھ پڑھا رہے ہیں ،لیکن چرچ پر حملہ کرنے والے ہندو یوا وہنی کو کب پڑھائیں گے۔ قانون کی بالادستی کو لے کر اگر حکومتیں سنجیدہ ہیں تو گؤ رکشا کے معاملہ پر سپریم کو رٹ کو نوٹس بھیجنے پر کیوں مجبور ہونا پڑا۔ یہ سب کی ساکھ کا مسئلہ ہے ۔یہ کونسی انسانیت ہے جو حیوانوں سے تحفظ کےلئے حیوان بن جاتی ہے۔ سوچنے اور لگام لگانے کی ضرورت ہے ورنہ ملک کو خانہ جنگی سے روک پانا کسی بھی شخص کےلئے ناممکن ہوجائے گا اور ہو نہ ہو یہ ملک کسی اور خوانی تقسیم کے جہنم میں جھونک دیا جائے ۔
+919599442099
saifazhar2@gmail.com