ہندودہشت گردانہ حملے میں زندہ بچ جانے والے محمد رفیق کی درد انگیز کہانی سنیے خود ان کی زبانی
(ملت ٹائمز)
گذشتہ سنیچر کو راجستھان کے ضلع الور میں کچھ مسلمان دودھ کا کاروبار کرنے کیلئے جے پور کے پاس اٹھوارہ ہارٹ میں بھینس خریدنے گئے ،گاؤں کے حاجی ڈیری والے سے ان کی بات ہوچکی تھی ،جب یہ لو گ مارکیٹ پہونچے تو وہاں بھینس مہنگی تھی اس لئے ان لوگوں نے جرسی گائے خریدلی جو دودھ زیادہ دیتی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہ گائے ہندؤوں کی ماتا شمار نہیں کی جاتی ہے ،بہر حال ان لوگوں نے مارکیٹ سے گائے خریدی،آٹھ سو روپے دیکر انتظامیہ سے رسید بنوائی اور اپنے گھرکی جانب لوٹ گئے ، غروب شمس کے وقت راستے میں دس پندرہ ہندو نوجوان بائک چلاتے ہوئے مل گئے ، انہوں نے گاڑی رکوایا اورزدوکوب کرنا شروع کردیا ،کہاں سے گائے لے جارہے ہو ،کیا کروگے ،کب سے تم لوگوں گائے کی اسملنگ کررہوجیسے سوال کرنے لگے اوردفاع میں یہ سب لوگ بیک زبان ہوکر کہنے لگے کہ ہم دودھ کیلئے یہ گائے خرید کر لے جارہے ہیں ،ہمارے پاس رسید ہے،ادھر یہ لوگ پوچھ رہے تھے اور ادھر ہندو نوجواں کی بھیڑجمع ہورہی تھی پھر یکایک ان لوگوں پرحملہ کردیا گیا ،آٹھ سو کے قریب شد ت پسند ہندو وہاں اکٹھا ہوگئے ،ہاتھ ،مکا،گھونسا ،لات ،پاؤاور پتھر وغیرہ سے سب مارنے لگے ،جسم کے مختلف حصوں کو نشانہ بناتے رہے جب تک یہ لوگ بیہوش نہیں ہوگئے انہیں پیٹنے کا سلسلہ نہیں رکا ،پچاس منٹ بعد وہاں پولس پہونچی تو اس نے گؤ رکشک کے نام پر غنڈہ گردی کرنے والے ہندؤں کی گرفتاری کرنے ،انہیں مجرم ٹھہرانے اور قصووار قراردینے کے بجائے انہیں بھگادیا، الٹے انہی مظلوموں کو ذمہ دار ٹھہر ا دیا ،ان پر گائے اسملنگ کا الزا م لگا کر ان کی خلاف ایف آئی آر درج کردی ،کچھ دیر میں یہ اطلاع گاؤں کے لوگوں کو بھی ملی ،پولس ان سب کو ہسپتال لے گئی جن میں سے پہلو خان زخموں کی تاب نہ لاکر اس دنیا سے چل بسے جبکہ بقیہ زخمیوں کی حالت ابھی بھی نازک اور تشویشناک ہے۔
یہ دالخراش داستان اس دہشت گردانہ حملہ کے شکار محمد رفیق کی نے جماعت اسلامی ہند کے مرکزی آفس میں سنیئر صحافی جناب اے ایو آصف اورمعروف صحافی جنا ب قاسم سید کو خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئی خود اپنی زبانی سنائی جسے ملت ٹائمز کے فیس بک پیج پر لائیونشر کیا گیا ،انہوں نے بتایا کہ ہم چھ آدمی عارف ،عظمت ،پہلو ،ارشاد اورفخرل پانچ گائے خرید کر اٹھوار ہ ہارٹ سے لارہے تھے ،گاؤں کے حاجی چودھری والوں سے دودھ فروخت کرنے کی بات ہوچکی تھی ،ہمارے پچاس ایک لاکھ روپے سے زائد روپے بھی تھے ، 45 ہزار میرے پاس تھے ،75 ہزار کے قریب ارشاد کے پاس تھے اور 30 ہزار کے قریب پہلو کے پاس تھے ،غنڈہ گردوں نے پورا پیسہ چھین لیا ،کا غذات دیکھانے کے باوجود حملہ کرنا شروع کردیا ،بار بار کہنے کے باوجود کہ ہم لوگ کسان ہیں ،دودھ کیلئے گائے لے جارہے ہیں انہوں نے مارنے کا سلسلہ بند نہیں کیا ،سب سے زیادہ ما رپہلو خان کو لگی جن موت ہوگئی،ہمارے ایک ساتھی فخر ل تھے جنہیں کچھ کم پٹائی لگی کیوں کہ وہ بھاگ نکلے تھے اور گاؤں میں ان کے ذریعہ اطلاع ہوئی ،اس کے علاوہ ہم سبھی کو بیہوشی طاری ہونے تک ماراگیا،پولس نے بھی ساتھ نہیں دیا، رفیق نے یہ بھی بتایاکہ ہمار اڈرائیور ارجن نام کا ایک ہندو تھا اس نے گؤرکشکوں کو کہاکہ میں ہندوہوں اور پھر اسے کسی نے کچھ نہیں کہا، رفیق نے ایک سوال کے کے جواب میں بتایاکہ چند مقامی ایم ایل کے علاوہ کسی مسلم سیاسی اور ملی رہنما نے ان سے ملاقات نہیں کی ہے ،انہیں جاکر تسلی نہیں دی ہے ،ان کی خیریت دریافت نہیں کی ہے۔ پہلو خان کے پاس آٹھ اولاد ہے جن میں سے چھ کی شادی ہوچکی ہے جبکہ دو ابھی چھوٹے ہیں ،رفیق پانچ بھائی بہن ہیں،یہ سب لوگ کاشتکاری کرتے تھے ،پہلی مرتبہ دودھ بیچنے کے مقصد سے یہ گائے خریدنے گئے تھے،ان کے پاس کا غذات تھے لیکن اس کے باوجود گؤ رکشک کے نام پر دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا ایساثبوت پیش کیا گیا کہ زمین لرزہ براندام ہوگئی ،انسانیت شرمندہ ہوگئی ،جس نے بھی سنا اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ان مظلومین کو انصاف نہیں مل سکا ہے ،مجرمین کو کوئی سزا نہیں دی گئی ہے ،بلکہ الٹے انہی لوگوں کے خلاف گائے اسملنگ کا الزام عائد کردیاگیاہے، پورا گاؤں اور علاقہ سہما ہواہے ،ہر کسی پر خوف اور دہشت طاری ہے ،ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود ان مظلومین کو کوئی انصاف نہیں مل سکا ہے۔(ملت ٹائمز)