جاسوسی اپنے ملک کے لئے؟

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
پاکستان کی فوجی عدالت نے ہندوستان کے سابق نیوی کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادو کو سزائے موت سنائی ہے۔ جس پر ہندوستان کا شدید ردعمل فطری ہے۔ خود پاکستانی میڈیا نے فوجی عدالت کے اس فیصلے کو بعید از قیاس اور ہند ۔ پاک کشیدگی میں مزید اضافے کا سبب قرار دیا۔ کلبھوشن کی سزا پر عمل آوری کب ہوگی ابھی اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے البتہ اس بات کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اس فیصلے پر نظرثانی ہوسکتی ہے۔ پھر بھی یہ اندیشہ برقرار رہے گا کہ جس طرح سربجیت سنگھ کو معافی کے لئے بین الاقوامی سطح پر چلائی گئی تحریک کے باوجود پاکستان میں اسے سزائے موت دے دی گئی تھی۔
کلبھوشن کا تعلق ممبئی سے ہے۔ 1987ء میں نیشنل ڈیفنس اکیڈیمی سے وابستہ ہوئے اور 1991ء میں انڈین نیوی میں ان کا کمیشن ہوا تھا۔ اطلاعات کے مطابق کلبھوشن نے ہندوستانی انٹلی جنس ایجنسی RAW کے لئے کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ 2003ء میں انہوں نے ایران کے ’’چاہ بہار‘‘ میں چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور کسی طرح ایران۔پاکستان سرحد پار کرکے بلوچستان کے علاقہ میں پہنچ گئے جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ ان سے اقبال جرم کروایا گیا جس کی ویڈیو فلم کو منظر عام پر لایا گیا۔ آیا کلبھوشن نے جو اقبال جرم کیا وہ جبری تھا یا واقعی انہوں نے اعتراف کیا یا پھر ان کی آواز کی ڈبنگ کی گئی‘ اس بارے میں کوئی صورتحال واضح نہیں ہے۔ البتہ پاکستان نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کلبھوشن نے حسین مبارک پٹیل کے نام سے علیحدگی پسندوں کی مدد، بلوچستان میں مسلکی جھگڑوں اور کراچی کے ماحول کو بے چین کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ ان پر پاکستان نے نظر رکھی تھی اور ان کے فون کالس ٹیپ کئے جارہے تھے۔ وہ جب بھی ہندوستان میں اپنے ارکان خاندان سے بات کرتے‘ اپنی مرہٹی زبان میں بات کیا کرتے تھے‘ جس کی بناء پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ اب اس بات کا پتہ چلایا جارہا ہے کہ آیا انہوں نے ایران۔پاک سرحد غیر قانونی طریقہ سے پار کی ہے؟ جو بھی ہو الزامات سنگین ہیں۔ ہندوستان میں کئی بار پاکستانی شہریوں کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تاہم کسی کو بھی سزائے موت نہیں دی گئی۔ راجیہ سبھا میں دےئے گئے ایک بیان کے مطابق 2013ء اور 2016ء کے درمیان 46پاکستانی شہریوں کو ہندوستان میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
اس کے برعکس پاکستان نے 1999ء میں ایک ہندوستانی شہری شیخ شمیم کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا اور انہیں موت کی سزا دی۔ سربجیت سنگھ کو 16سال تک جیل میں سڑانے کے بعد 2013ء میں پھانسی دی گئی جس کے خلاف جموں جیل میں قیدیوں نے پاکستانی قیدی کا قتل کردیا تھا۔ پاکستان نے کشمیر سنگھ کو 2008ء میں معاف کردیا تھا یہ اور بات ہے کہ کشمیر سنگھ نے جاسوسی کے الزام میں 35سال پاکستانی جیل میں گذار دےئے۔ 2001ء میں رویندر کوشی نامی ایک ہندوستانی شہری جو جاسوسی کے الزام میں پاکستانی جیل میں تھا ٹی بی کا مریض ہوکر موت کی آغوش میں چلا گیا۔ اب بھی بعض ہندوستانی شہری پاکستانی جیلوں میں قید ہیں‘ جن کی رہائی کیلئے سفارتی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہمیشہ کشیدگی کی ایک وجہ جاسوسی بھی رہی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے سفارتی عہدیداروں پر جاسوسی اور ایک دوسرے کے ملک میں انتشار پیدا کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ نومبر 2016ء پاکستانی ہائی کمشنر کے چار عہدیداروں کو جاسوسی اور ہندوستانی سرزمین پر ناپسندیدہ سرگرمیوں کی پاداش پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اسلام آباد میں بھی جوابی کاروائی میں ہندوستانی سفارتکاروں کو گرفتار کیا تھا۔
ہندوستان، پاکستان ہو یا کوئی اور ملک ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی عام بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب سے دنیا وجود میں آئی حضرت انسان پیدا ہوئے تب سے ہی یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ہندوستان کی قدیم ترین تاریخ میں چانکیہ اور چندرگپت موریا کے ہاتھوں جاسوسوں کے قتل کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم مصر میں ابتداء ہی سے جاسوسی کے نت نئے طریقے اختیار کئے گئے۔ حکومت کے جاسوس چاروں طرف پھیلے ہوتے جو پل پل کی خبر لاتے اور اُسی کی بنیاد پر کچھ لوگ قتل کئے جاتے‘ کچھ سنگسار اور کسی کے ہاتھ پیر کاٹ دےئے جاتے۔ یونان اور روم کے سلطنتوں کا انحصار جاسوسی پر ہوا کرتا تھا جو ارباب اقتدار کے خلاف شورش، بے چینی، بغاوت سے باخبر کرتے۔ جاسوسوں کی مدد سے ہی منگولوں نے ایشیاء اور یورپ پر یلغار کی۔ 1845 اور 1847ء کے درمیان ایویڈنس بیورو پہلی باقاعدہ ملٹری انٹلیجنس کو تشکیل دی گئی جو اس وقت کی آسٹریائی حکومت کا کارنامہ تھا۔ 1882ء میں برطانیہ نے سمندری جاسوسی کی بنیاد رکھی۔ 1909ء میں برٹش سکریٹ بیورو پہلا بین محکمہ جاتی انٹلیجنس ادارہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جاسوسی کی نئی ٹیکنکل تیار کی گئی۔ 1916ء میں وائٹ لیڈی نیٹ ورک (DAME BLANCHE) تشکیل دیا گیا۔ صنف نازک اور ان کے شباب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ خوبصورت دوشیزاؤں کے جال میں بڑی آسانی سے فوجی عہدیدار پھنس جاتے اور یہ اپنی دلفریب اداؤں سے ان کے راز اُگلوالیتے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ حال ہی میں نارتھ کوریا کے حاکم کم جونگ کے بھائی کو ایرپورٹ کے وی آئی پی لاج میں دو عورتوں نے زہر دے کر ہلاک کیا تھا۔ جاسوس عورتوں کا جال بہت وسیع، مضبوط اور کامیاب ثابت ہوتا رہا ہے جنہیں استعمال کرکے کبھی دشمن یا پڑوسی ملک تو کبھی اپوزیشن تو کبھی صحافی حکومتوں کے تختے الٹنے میں کامیاب رہے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن کا واٹرگیٹ اسکینڈل دو صحافیوں کی جاسوسی کا نتیجہ تھا جس کے نتیجہ میں نکسن کو صدارت سے سبکدوش ہونا پڑا۔ اُسی طرح بل کلنٹن کے دور میں مونیکا لیونسکی کا سیکس اسکینڈل بھی اِسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ لارینس نامی جاسوس نے کس طرح سے عالم عرب کا تختہ الٹا‘ یہ فلم لارینس آف عربیہ میں دکھایا گیا ہے۔ بہرحال! دو ممالک آپ میں دشمن نہ بھی ہوں تب بھی ایک دوسرے کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔ جب بھی موقع ملتا ہے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے قدرتی وسائل سے واقفیت اہم فوجی تنصیبات سے متعلق ڈاٹا کا حصول‘ جتنا اہم ہوتا ہے اُتنا ہی ایک دوسرے کے ممالک میں عوام میں بے چینی پیدا کرکے اُن ممالک کے وسائل کو محدود اور محصور کردیا جاتا ہے تاکہ یہ ملک اندر سے کھوکھلے ہوجائیں اور اپنی طاقت اور وسعت میں اضافہ کی کوشش نہ کرے۔
اس وقت دنیا کی دس سرکردہ انٹلیجنس ایجنسیاں اپنے اپنے ملک کے مفاد کے لئے دوسرے ممالک میں سرگرم عمل ہیں جن میں پاکستان کی انٹرسرویس انٹلیجنس (آئی ایس آئی) سی آئی اے (امریکہ)، M-16 برطانیہ، FSB روس، BND جرمنی، RAW ہندوستان، DGSE فرانس، ASIS آسٹریلیا، MSS چین اور MOSSAD اسرائیل قابل ذکر ہیں۔
یہ ایجنسیاں جاسوسی کے لئے ہر ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں چاہے وہ جاسوس سٹیلائٹ ہو یا لیڈی ایجنٹس ہوں۔حالیہ عرصے کے دوران میڈیا نے بھی جاسوس کے طور پر اپنا رول ادا کیا۔ چاہے وہ مقامی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر کیوں نہ ہو۔ اسٹنگ آپریشن اس کی سب سے معمولی مثال ہے۔ سی این این‘ فاکس اور دوسرے بڑے اہم انٹرنیشنل میڈیا ادارے اپنے نمائندوں کو اپنے اپنے ملک کے جاسوس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ خلیجی جنگ میں سی این این کا ہر رپورٹر، ہر کیمرہ مین امریکہ اور اتحادی فوجوں کا جاسوس تھا۔ چوں کہ میڈیا نمائندوں پر شک نہیں کیا جاتا اس لئے ان کے بھیس میں آسانی سے جاسوسی کی جاسکتی تھی اور راز ااگلوائے جاسکتے ہیں۔
جہاں تک ہندوستان اور پاکستان کا تعلق ہے کلبھوشن کے ساتھ کیا ہوگا آنے والا وقت بتائے گا۔ تاہم پاکستانی میڈیا نے بجاطور پر یہ بات کہی ہے کہ اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک ایسے وقت جبکہ ہندوپاک کے درمیان تعلقات کچھ بہتر نہیں ہیں‘ کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ کلبھوشن کو سزائے موت کا فیصلہ باہمی تعلقات کو مزید کمزور کرسکتا ہے۔ ہر ملک میں پڑوسی یا دشمن ملک کے جاسوسوں کے لئے اس ملک کے قوانین کے مطابق سزائیں مقررہیں۔ کبھی کبھار ان سزاؤں میں ترمیم اور تخفیف بھی ہوتی ہے‘ کبھی معافی دے کر انہیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کبھی ایک ملک کا ایجنٹ گرفتار ہونے کے بعد ڈبل ایجنٹ کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ عام طور پر ہر ایک ملک کے اعلیٰ حکام بالخصوص فوج اور خارجی محکمے کے اعلیٰ افسران پر الزام ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لئے ایجنٹس مقرر تو کرتے ہیں اور جب بدقسمتی سے یہ ایجنٹس گرفتار ہوجاتے ہیں تو ان سے لاتعلقی اختیار کرلی جاتی ہے۔ کلبھوشن کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا تھا۔ کوئی جاسوس اپنے ملک کے لئے اپنی جان کو جوکھم میں ڈالتا ہے اور گرفتار کو اپنی زندگی کے کئی برس جیل میں گذار دیتا ہے اور پھر موت کو گلے لگالیتا ہے‘ تو ایسے جاسوس بھی اپنے وطن کے جانثار ہوتے ہیں۔ جنہیں پوری قوم کا بھرپور ساتھ ملنا چاہئے۔ ورنہ مستقبل میں اپنے ملک کے لئے مرمٹنے کا جذبہ بتدریج کم ہوتا جائے گا۔

(مضمون نگار ’’گواہ اردو ویکلی‘‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون : 9395381226

SHARE