افتخار احمد قاسمی بستوی
اللہ کی اس بنائی دھرتی پر، اللہ کو ماننے والا مسلمان پوری دنیا میں انتہائی پرآشوب دور سے گزر رہا ہے. مصر،شام، عراق، ایران، فلسطین، امریکہ اور بھارت میں کہیں بھی مسلمان چین کی نیند نہیں سو پارہا ہے، کہیں اسے ملک بدر کیا جارہاہے حالاں کہ ملک سارا اسی کے اللہ کا ہے جس کو ماننے کی اسے سزا مل رہی ہے. کہیں اسے جیل میں ٹھونسا جارہاہے حالاں کہ پوری دنیا پہلے سے اس کے لیے جیل خانہ ہے کہیں اس کے بچوں کو اسی کے سامنے بے دردی سے ذبح کردیا جارہاہے حالاں کہ اسے پہلے سے یقین ہے کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے جس سے ایک سکنڈ بھی موت آگے پیچھے نہیں ہوسکتی کہیں اس کی جان لے کر اسی کے خون سے ہولی منائی جارہی ہے حالاں کہ وہ اپنے خون کی ندیاں بہاکر بھی زندہ ہے۔کہیں اس کی معیشت پر پاپندی لگا کر، اس کی دوکانوں کو جلا کراورکہیں اس کی جائداد پر زبردستی قبضہ جماکر ظلم و استبداد کا اسے نشانہ بنایا جارہاہے حالاں کہ وہ ظالم و مظلوم دونوں کی مدد کرکے ان کو ظلم سے نجات دے چکا ہے۔
غرض یہ کہ وہ پوری دنیا میں جس جس شکل کی آزمائش اور جتنی بڑی آزمائش ہوسکتی ہے ،وہ ماضی میں ان تمام آزمائشی دور سے، تمام تر کامیابیوں کے ساتھ گزر چکا ہے، یہ اتنا سخت جان ہے کہ دوپہر کی چلچلاتی عرب کی جھلس دینے والی تیز دھوپ میں بھی گرم گرم چٹان اس کے سیے پر رکھ دی گئی تو بھی وہ احد احد کے نعرے بلند کرتا رہا، جس کی گرمی عرصہائے دراز گزر جانے کے باوجود، آج بھی محسوس ہورہی ہے۔
آج ملت اسلامیہ کے جیالوں کو جیل کی سلاخوں سے ڈرایا جارہا ہے، وندے ماترم اور جے شری رام کے شرکیہ کلمات کہلوانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں، ان کو ظلم وجبر اور بے سروپا مقدموں میں حقیقت کو جانتے بوجھتے بھی، پھنسا کر، بیس بیس تیس تیس سال تک ،جیلوں میں سڑایا جاتا ہے، ان کی جوانی ،ان کے جذبات،ان کے بیوی بچے سب بلک بلک کر ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ،تب جاکر اخبارات اور میڈیا پکار پکار کر کہتے ہیں کہ فلاں مجرم عدالت سے باعزت بری ہوگیا، حالاں کہ وہ پہلے بھی بری تھا آج بھی بری ہے، لیکن ظلم وستم کا ناس ہو کو اس کے ایوان انصاف سے آج بری ہونے کی خبر شائع ہورہی ہے، نوجوانوں کو عدالت بری کرنے ہی والی ہے کہ ستم کے بال وپر جم جاتے ہیں اور اپنے خون میں نہائے ہوئے سرخ رو جذبات کی سرخروئی کے لیے ملک کی محفوظ ترین جیل کو چوبی تالی سے کرشماتی انداز میں کھولواکر، کچی جانوں کو بڑی خوش اسلوبی سے پیس کر تہس نہس کردیا جاتا ہے ، اس طرح کہ
دامن پہ کہیں چھینٹ نہ خنجر پہ کہیں داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اس کفر ونفاق کا بیج اپنے کھیت ہی میں سڑ جائے! جو خیانت ودغابازی کی ہرممکن شکل اختیار خود کرتا ہے، اسے انجام خود دیتا ہے اور میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا یہ کرتا ہے کہ اسے” دہشت گردوں” نے کیا ہے ،دہشت گردی کے کردار خود انجام دے کر دھشت گردی کے نام سے خود وابستہ ہو کر، اس کی غلط نسبت نہایت عیاری سے امن پسند خاندانوں کی طرف کر دیتا ہےـ اس سے ثبوت مانگو تو نہایت چالاکی سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے موضوع بدل کر کوئی دوسرا حساس موضوع چھیڑ دیتا ہے،اس سے میڈیا کو نئی خوراک اور نئی آب وتاب مل جاتی ہے، جس کا تمام تر مقصود اقتصادی حالت کی مضبوطی ہوتا ہے، چاہے صحافت و تشہیر اور میڈیا کے تمام اصول موضوعہ سے یکسر انحراف ہی کیوں نہ ہو .اور یہ انحراف وخیانت تو کبھی اتنی واضح اور جلی ہوتی ہے کہ کفر کے ایوانوں ہی سے چیخ بلند ہونے لگتی ہے کہ بس کرو! صحافت وصداقت کا کتنا خون کروگے!؟ اب میرے بس سے باہر ہے ،اب ناقابل برداشت ہے اب میں اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتا ہوں اب میں اس عہدے سے استعفی دینا اپنی سب سے پہلی اور سب سے بڑی ترجیح سمجھتا ہوں ـایسا ہوا ہے اور آگے بھی ہوگا.
صحافت کا گلا گھونٹنا، عدل وانصاف کا خون کرنا اور صاف صاف اصولوں سے انحراف کرنا، ہر اس شخص کو خراب لگے گا جو اپنے اندر دھڑکتا دلرکھتا ہے اور انصاف کا خون اپنی نظروں کے سامنے ہونے کو خود کشی کے مرادف سمجھتا ہے.اس کو معلوم ہے کہ ظلم کی ٹہنی کبھی پھل دار نہیں ہوتی اور کاغذ کی ناؤ پانی کے بہاؤ میں ڈوب جاتی ہے.انھیں حالات میں کتنے لوگوں نے اپنے اپنے انعامات واعزازات تک واپس کردیے، کتنی جانیں گئیں اور کتنی عورتوں کے سہاگ لٹے، یہ سب ہوا اور ہوتا رہا.اس میں ظلم وخیانت نے نہ کوئی مذہب دیکھا نہ کوئی عمر، نہ کوئی آہ قابل پرواہ سمجھی نہ کوئی فریاد،بس جو سامنے آتا گیا وہ ظلم کی بھوک کی بھینٹ چڑھتا گیا .
ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ایک سیکولر ملک کی شکل میں پوری دنیا میں اپنی شناخت قائم کرچکا ہے جہاں “ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں ہیں بھائی بھائی ” کے نعرے لگنے کا سیکولر قانون بن چکاہے .یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی قانونی آزادی حاصل ہے. وہ امن وآمان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے مذہب کی نشر واشاعت کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لے سکتے ہیں.بھارت کے آئین دفعہ نمبر ۲۵ میں ہے کہ” امن عامہ،اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصے کی دیگر توضیعات کے تابع تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے،اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے” ( بھارت کا آئین /ص/۵۲)
ایک طرف بھارت کا آئین تما م مذاہب کے ماننے والوں کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے اور اسی سیکولر اور جمھوری دستور وآئین پر دل سے چلنے کی قسمیں حلف برداری کے موقع پر کھائی جاتی ہیں اور ہماری موجودہ مرکزی وصوبائی حکومتیں بھی اسی آئین پر چلنے کا حلف اٹھاتی ہیں، لیکن جب عمل درآمد کا موقع آتا ہے تویہ سب باتیں طاق نسیان میں رکھ دی جاتی ہیں اور سوچے سمجھے ایجنڈے کے تحت وہ تمام کاروائیاں انجام دی جاتی ہیں جنھیں آئین ہند قطعا اجازت نہیں دیتا.
بھارت کا آئین کہتا ہے کہ”۱۹(۱) تمام شہریوں کو حق حاصل ہوگاـــــــــــــــــــــــ
الف)تقریر اور اظہار کی آزادی کا،
(ب)امن پسندانہ طریقے سے اور بغیر ہتھیاروں کے جمع ہونے کا،
(ج) انجمنیں اور یونین قائم کرنے کا،
(د)بھارت کے سارے علاقے میں آزانہ نقل وحرکت کرنے کا،
(د)بھارت کے علاقے کے کسی حصے میں بود وباش اختیار کرنے اور بس جانے،
(و)…………
(ز)کسی پیشے کے اختیار کرنے یا کسی کام دھندے تجارت یا کاروبارکے چلانے کا”۔
اپنی وزارت کا حلف اٹھا لینے کے بعد اپنے عہدے کے ساتھ انصاف تو یہی ہے کہ آئین ہند کی سرتا پا پیروی کی جائے. اصلی دیش بھکتی تو یہی ہے کہ دیش کے دستور وآئین کے وقار کو ٹھیس نہ پہونچائی جائے ورنہ history repeats it self.مستقبل کا مؤرخ جب قلم اٹھا ئے گا تووہ سبز کو سبزاور سرخ کو سرخ لکھے بغیر آگے نہ بڑھے گا اور اب نہیں تو تب ملک وقوم کا سر شرم سے جھک جائے گا اور پشیمانی کے ایسےکانٹے چننا پڑیں گے جن کی چبھن نسلوں ختم نہ ہوگی.
جب کوئی وزیر اپنے عہدے کا حلف لیتا ہے تو اس کامطلب یہ ہوتاہےکہ اپنے تمام شہریوں کے ساتھ برابری کا معاملہ کرےگا، اسے اخلاق اور کنہیاکمار دونوں کو ایک نظر سے دیکھنا ہوگا، اسے مذہب کی باونڈری سے اوپر اٹھ کر آئین ہند کی بالادستی قائم کرنی ہوگی، اسے سبزیوں کو ہندو اور گوشت کو مسلمان کے بجائے ملکی یا صوبائی معیشت کی ترقی پر نظر رکھنی ہوگی، اسے یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ لال رنگ ہر جگہ ہندوتوا کی پہچان ہے اور وہی لال رنگ جب گوشت میں آجائے تو مسلمانوں کی پہچان ہے، اسی طرح ہرا رنگ ہرجگہ مسلمانوں کی پہچان ہے لیکن جب وہ سبزیوں میں دکھائی دے تو ہندو توا کی شناخت ہے اس طرح نظر کے الگ الگ پیمانے اور انصاف کی جدا جداتقسیم عہدے کا وقار مجروح کرتی ہے ، اسے آئین بھارت کے وقار کو بحال رکھنے کے لیے اپنی حلف برداری یاد رکھنی ہوگی، تبھی ضمیر کی آزادی کا نغمہ ہرسو عام ہوگا اور حلف برداری کے پاس ولحاظ سے چلنے والی وزارت و حکومت کی آواز بازگشت پوری دنیا میں سنائی دے گی۔





