سیکولر پارٹیوں کو یکجا کرنا، ترازو میں مینڈک تولنے کے مترادف ہے

احمد علی صدیقی
گزشتہ قریبا ایک دھائی سے سیاسی اکھاڑے میں تیسرے مورچے کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔لیکن اب نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو لگتا ہے کہ موجودہ دور میں بی جے پی سے مقابلہ کرنے کے لیے تیسرے مورچے کی نہیں دوسرے مورچے کی ضرورت ہے۔ اب قیاس یہ لگایا جارہاہے کہ دوسرے مورچے میں وہ تمام سیاسی طاقتیں شامل ہوں گی، جو بی جے پی اور اسکے اتحادی کو شکست دے سکیں۔حالانکہ بہار کو چھوڑکر کہیں بھی سیکولر طاقتیں اب تک متحد نہیں ہوسکیں ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ پے در پے شکست کا سامنا کرنے کے بعد سیکولر طاقتیں 2019 اور اس سے پہلے صدارتی انتخاب میں اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر ملکی سطح پر ایک عظیم اتحاد کا قیام کرکے فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دیکر ملک میں گنگا جمنی تہذیب کی روایت کو قائم رکھ سکیں گے؟
حالانکہ سیکولر پارٹیوں کا یکجا ہونا ترازو میں مینڈک تولنے کے برابر ہے۔ بہار میں عظیم اتحاد کے علم بردار ،جے ڈی یو ، آر جے ڈی یو اور کانگریس نے دہلی MCD الیکشن میں عظیم اتحاد کی چادر چاق کرکے ایک دوسرے کی ضمانت ضبط کرانے میں لگے رہے ۔ ووٹ شیئر کے لحاظ سے بی جے پی کو صرف 38% باقی 62% سیکولر کی بانسری بجانے والی پارٹیوں کے کھاتے میں پڑے ہیں ۔ اگر بہار کے طرز پر ملکی پیمانے پر عظیم اتحاد کا قیام عمل میںآجاتا تو آج ملک کی حالت کچھ اور ہوتی۔سیکولزم کے نئے علم بردارجناب نتیش کمار نے جس طرح سونیا گاندھی اور دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں، اس سے اس قیاس کو تقویت مل رہی ہے کہ بہار کے طرز پر مرکز میں بھی عظیم اتحاد کا قیام عمل میں آجائے۔
لیکن بڑا سوال یہ ہیکہ عظیم اتحاد (دوسرامورچہ) کی قیادت کرے گا کون؟ لوک سبھا الیکشن سے پہلے تیسرے مورچے کی قواعد کوئی نئی بات نہیں ہے ،لیکن اس بار تیسرے مورچے کے بجائے دوسرے مورچے کو مضبوط بنانے کی پہل ہورہی ہے ۔ اس سلسلے میں نتیش کمار کئی ریاستوں کا دورہ کرچکے ہیں نتیش کمار سونیا گاندھی کی قیادت میں سیکولر محاذ کا حصہ بن پائیں گے کیا سونیا گاندھی نتیش کمار یا کسی دوسرے رہنماء کی قیادت قبول کریں سکیں گی ۔ رہی بات نتیش کمار کی تو انہوں نے اتحاد کے کاندھے پر بیٹھا کر بی جے پی اور آر ایس ایس کو مستحکم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا، کم و بیش بہار کے ہر گاؤں اور تحصیل میں آر ایس ایس نے اپناجال بچھا دیا ہے، جس کا خمیازہ بہار کی حکومت اور عوام بھگت رہی ہے ہیں،نتیش کمار، ملا ملائم سنگھ ، مایاوتی ، ممتابنرجی ،شرد پوار، جیسے لوگ اپنی سہولت کے اعتبار سے سیکولر کا چوغہ پہن لیتے ہیں۔ جو کام فرقہ پرست طاقتیں ببانگ دہل کرتی ہیں اس کے برعکس ہماری نام نہاد سیکولر طاقتیں ہندوتوا کے تئیں نرم موقف اختیار کرتی ہیں، تاکہ ہندو ووٹ کھسک نہ جائے ۔حالانکہ ہندوستان میں ہندؤں کی اکژیت سیکولرزم پر یقین رکھتی ہیں۔
2019 کے انتخاب نہ صرف ملک کے لئے بلکہ مسلمانوں اور دلتوں کے لئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے ۔ الیکشن میں کامیابی کیلئے ہندوتوا کے علم بردار فرقہ پرست طاقتیں زمین و آسمان ایک کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اپنی محنت سے کم اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کے انتشار و ذاتی مفادکی وجہ سے کا میاب ہورہی ہے۔ حالات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اپنے آرام گاہوں میں محو خواب ہیں اور پوری سلطنت طشت میں رکھ کر پیش کردیا ہو۔ ملک میں سیکولرزم کے علم بردار کم نہیں ہوئے ہیں، بلکہ سیکولرزم پر یقین رکھنے والے افراد کو سانپ سونگھ گیا ہے ، جس کا فائدہ براہ راست آر ایس ایس اور مودی حکومت کو مل رہا ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں مرکزی حکومت بنیادی مسئلوں سے صرف نظر کرکے اقلیتوں اور دلتوں پر بے شمار ظلم ڈھارہی ہے۔ حالانکہ نظام حکومت اجتماعی نظام کا دوسرا نام ہے ۔ سوسائٹی اور معاشرے کے اندر امن و امان اور عدل و انصاف قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے ، تاکہ طاقتور طبقہ کمزور طبقات پر دست درازی نہ کرسکے۔ اس مقصد کے پیش نظر جو نظامِ حکومت قائم کیا جائے اس کا اولین فریضہ یہ ہیکہ اس ملک میں ہر ایک کے ساتھ انصاف کیا جائے اور کسی پر ظلم نہ ہو۔ہر شہری کو اسکا حق مل جائے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو، لیکن آج ہم جمہوریت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود دیکھتے ہیں کہ ملک میں عدل و انصاف کا دور دور تک پتا نہیں ۔
حکومت کا دوسرا بڑا فریضہ یہ ہیکہ امن و امان کے سا تھ ساتھ معاشرے میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکے ، لیکن آج کسی بھی اخبارات کو پڑھیں تو پتہ چل جائے گا کہ جمہوری حکومت میں اقلیتوں اور دلتوں کا کیا حال ہے؟ ہر جگہ فتنہ و فساد برپا ہے ۔ آئے دن درجنوں لوگ موت کے گھاٹ اتار دیے جارہے ہیں۔ کسی جگہ بھی عوام امن و چین کی زندگی بسر کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ ہر جگہ فسادات، عصمت دری، قتل، گائے بیل، مندر مسجد، اور دن دھاڑے ڈاکے پڑ رہے ہیں، جنہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں آج بدامنی کا راج ہے اور ملک و جمہوریت دونوں خطرے میں ہیں۔
(مضمون نگار روز نامہ تاثیر ، چنئی کے بیورو چیف ہیں)