میم ضاد فضلی
اس وقت ملک کی تنہااردوسرکاری خبر رساں ایجنسی یو این آئی کی قیادت و سربراہی ایک قادیا نی کے ہاتھ میں ہے۔اور گزشتہ چند ماہ سے انتہائی بے شرمی کیساتھ قادیا نیوں کی خبر چلاتے ہوئے یواین آئی لکھتاہے کہ ملک کے’’ احمدیہ مسلمانوں کی تنظیم‘‘،ا ب عقل کے دشمن اورسنگھ کے حاشیہ بردار یواین آئی اردو کے موجود ہ ہیڈعبدالسلام عاصم سے یہ کون پوچھے کہ ایک مسلمہ غیر مذہب کو احمدیہ مسلمان لکھنے کا اختیار تمہیں کس نے دیا ہے،یہ پوچھنے کا حق ایک ایک مسلمان کو ہے کہ جب یواین آئی اوائل سے ہی قادیانیوں کو مرزائی یاقادیانی مذہب کے ماننے والے جیسے الفاظ سے مخاطب کرتا آیا ہے تو پھرآج تم کس بنیادپر قادیانیوں کو مسلمان کہتے ہو اوراس کی خبریں چلاتے ہوئے اس غیر مسلم مذہب کو احمدیہ مسلمان بتاکر تم ملک کے25کروڑ مسلمانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہو۔
جس وقت عبدالسلام عاصم کو ہندوستان میں اردواخبارات کیلئے خبریں بیچنے والی واحد سرکاری خبر رسا ں ایجنسی یو این آئی میں سربراہی کا تاج اڑھا یا جانے والا تھا کہ اس سے پہلے ہی ایک خود ساختہ ہمدرد ملت اور ہندوستان میں مجروح بدن ملت کیلئے خود کو جبراً مرہم قرار دلوانے والے حضرت کی جانب سے ناجائز نوازشوں پرشبہ کا اظہار کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ دہلی میں سبھی اردوصحافیوں کو تو خریدانہیں جا سکتا ،لہذا نریندر مودی کے پیاروں کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اردوصحافتی اداروں کو ہی خرید لیا گیاہے۔کوئی ادارہ اگر بڑا تھا اور اسے خرید نا مشکل اور سکت سے باہر محسوس ہوا تو وہاں اعلیٰ عہدوں پر فائز ایڈیٹروں اور رپورٹروں کو ہی خرید لیا گیا،اس خریدو فروخت میں کس کے حصے میں دیوبندی داتاؤں کی کتنی رقم ہاتھ لگی اس تعلق سے راست طور پر تو کچھ بھی کہنا مشکل ہے ،اور اس بات کا بھی حساب و کتاب کسی کے پاس نہیں ہے کہ دیوبندی حنفی عوام کی گاڑھی کمائی کی بندر بانٹ میں کس کو کتنا حصہ ملا،البتہ کئی لوگوں کی تشریف کے نیچے چمچماتی کاریں آ ئیں اور کئی زیادہ تر شیعہ اخبار مالکان اور خود ساختہ اردورپورٹروں کو اسی نام ونمود کی بھوک مٹانے کیلئے دکھائی گئی سخاوت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع بھی ملااوراس طرح اردو اخبارات کے کئی شیعہ اور غیر مقلدرپورٹراوراخبارات کے مالکان کروڑوں کی جائداد کے مالک بن گئے ۔مجھ سے اسی زمانے میں کئی صحافی دوست ملک و بیرون ملک سے سوشل سائٹس کے توسط پوچھا کرتے تھے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عبدالسلام عاصم کے یواین آئی ہیڈ بننے کے بعد ایک فریق کی طرح ایک مخصوص اور متواز ی تنظیم کی خبریں 5-5ٹیگ میں نشر کی جاتی ہیں ،جبکہ اس کے برخلاف مخالف تنظیم کی خبروں کواہم ہونے کے باوجود کبھی بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ظاہر سی بات ہے کہ یو این آئی کی اس غلیظ حرکت کے پیچھے ایک اہم شخصیت کی عنایات کار فرما تھیں ،جس کے طفیل یواین آئی کے موجودہ قادیا نی ہیڈ کی زندگی آج قابل صد رشک بن چکی ہے۔میں نے عبد السلام عاصم کو چند برس پہلے بھی قادیا نی لکھا تھا،جس پر کئی لوگ چیں بہ جبیں بھی ہوئے تھے۔مگر بعد کے ادوار میں یواین آئی سے نشر ہونے والی خبروں نے خود یہ ثبوت فراہم کردیا کہ اس وقت یہ خبر رساں ادارہ جس منحوس پاپی کے ہاتھ میں صحافت کے تقدس کو پامال کرکے چکلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کا موجودہ ہیڈ مرزا غلام احمد قادیانی کا امتی ہے اور اس کا مذہب اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔اردو اخبارات اور مذہبی امور سے محبت و وابستگی رکھنے والے لوگ جن کے اندر معمولی سی بھی ملی ہمدردی پائی جاتی ہے، وہ یواین آئی کو اسی زمانے سے جانتے ہوں گے جب اس کا قیام عمل آیا تھا اور جب اخبارات تک یواین آئی کی خبروں کی ترسیل کا طریقہ بھی جداگانہ تھا۔یو این آئی کی تاریخ میں غالباً ایسا پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ وہ قادیانیوں کو مذہب اسلام کے ایک فرقہ کے طور پراحمدیہ طبقہ کے مسلمان کہہ کر اس کی خبریں نشر کررہا ہے۔میں معذرت کے ساتھ عبدالسلام عاصم اور انہیں مالی بیک اپ سے مضبوط کرنے والے مولانا صاحبسے یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اپنی تشہیر اور نام نمود کیلئے کبھی اکابرین امت کے ان تمام فتاویٰ کوآپ نے ردتو نہیں کردیا ہے،جس میں اتقیائے امت اوراجلہ علماء و مجتہدین نے قادیانیوں کو مذہب اسلام سے خارج اور غیر مسلم مذہب قرار دیا ہے۔پڑوسی ملک پاکستان کے علاوہ کئی افریقی ممالک کی سپریم عدالتوں نے بھی قادیانیوں کو مذہب اسلام سے خارج اور غیر مسلم مذہب کے طورپرقبول کیا ہے۔ابھی گؤکشی کے سلسلے میں گزشتہ 4مئی 2017کوقادیانیوں کے حوالے سے ایک خبر جاری کی گئی ،جس میں کہا گیا ہے کہ۔۔۔
’’ گاؤ ذبیحہ اور گوشت کھانے کے سلسلے میں جاری تنازع کے درمیان احمدیہ مسلمانوں کی ایک تنظیم احمدیہ مسلم جماعت انڈیا نے آج کہا کہ مسلمانوں کے لئے کسی بھی صورت میں گائے کا گوشت کھانا لازمی نہیں ہونا چاہئے اور اقلیتی برادری کو ہندوؤں کے جذبات کی خاطر اور انسانیت اور بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لئے اس عادت کو چھوڑنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔‘‘
ہمیں یہاں قادیانی کی خبر شائع کرنے یا نہ کرنے سے کو ئی اختلاف نہیں ہے ۔مگراس بات سے میں پوری طرح اختلاف کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ ہمارے سلف اورا کابرین نے جب مرزا غلام احمدقادیانی جہنم نشین کی بروزی اور ظلی نبوت کے دعوے کو کفر قراردیتے ہوئے اس پر ایمان لانے والوں اور مرزا غلام احمد قادیانی کا مذہب اختیار کرنے والوں کو ٹھوس دلیلوں اور اجماع کے ساتھ خارج از اسلام قرار دے دیا ہے پھر اسے ہم مسلمانوں کو مشورہ دینے کی جرأ ت کون فراہم کررہا ہے اور یواین آئی خصوصا اس کے موجودہ مالک عبدالسلام عاصم کو ہندوستانی مسلمانوں کو بتانا ہوگا کہ اس نے کس بنیادپر قادیانیوں کو جو اکیسویں صدی کے اوائل میں ہی خارج از اسلام قرار دیے جاچکے ہیں۔ انہیں مسلمانوں کی جماعت جیسے خطاب سے کیوں مخاطب کیا جارہا ہے۔کیا یہ سب حضرت کی ایماء اور اشارے پر ہورہا ہے ،اس لئے کہ موصوف پر عمر کے آخری مرحلے میں خود کو سب سے عظیم اور بڑا کہلوانے کا خمار حاوی ہے۔لہذا قادیانیوں کی جانب سے اپنی مدح خوانی کی یقین دہانی حاصل کرکے مولانانے اگرقادیا نیوں کو مسلمان مان لیا ہو تویہ بعید ازقیاس نہیں ہے۔
گزشتہ 4 مئی کو ہی یواین آئی سے قادیانیوں کی ایک دوسری خبرچلائی گئی جس میں طلاق کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ۔۔۔۔
’’ احمدیہ مسلم جماعت انڈیا نے تین طلاق پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رخ کی مذمت کرتے ہوئے آج الزام لگایا یہ غیر اسلامی رسم ہے اور مولویوں نے اسلام کی غلط تشریح کی ہے ۔‘‘
اب اس کم بخت شیرا قادیانی سے کوئی پوچھے کہ تمہیں مسلمانوں کے عائلی مسائل میں ٹانگ اڑانے اور زعفرانی ایجنٹ کے طور پر کام کرکے مسلمانوں کو اس کا مذہب پڑھانے یا مسلمانوں کے مذہب کی تذلیل کرنے کی اجازت کس بدبخت ،بدتمیز اور مردود نے دی ہے۔جب ہم تمہارے مذہبی امور، تمہارے عائلی مسائل اور یہودیوں کا ایجنٹ بن کر مسلمانوں کیخلاف پوری دنیا میں نفرت کے پھیلانے کے باوجود تم سے کوئی تعارض کرنا پسند نہیں کرتے ،بلکہ ہم تمہیں اس لائق بھی نہیں سمجھتے کہ تم ہم مسلمانوں کے ساتھ بیٹھ سکوتو پھر تمہیں کس طاقت نے ہمارے مذہب اور عقیدے کا مذاق اڑانے اور تنقید کرنے کی اجازت دی ہے،دراصل یواین آئی کے موجودہ ہیڈ کو مضبوط بیک گراؤنڈ اس لئے فراہم ہے کہ انہیں خبررساں ادارہ سے ملنے والی خطیر رقم کے علاوہ نام ونمود کے بھوکے اورملت اسلامیہ ہند کے نام نہاد رہنماؤں کا آشیرواد حاصل ہے۔غور طلب ہے کہ امت کے بہی خواہان اور اہل ثروت ملی سرمایہ داروں سے جو رقوم ملتی ہیں اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اپنے نام نمود اور ذاتی تشہیر کیلئے نہیں ،بلکہ ملت کی گاڑھی کمائی کا استعمال پسماندہ بنائے جاچکے مسلمانوں کی فلاح پر خرچ کیا جائے گا ۔ بہرحال اس معاملہ کو خالق کل کے حوالے کیجئے جس کے پاس ایک نہ ایک دن سبھی کو جانا ہے۔البتہ یہ یاد رکھئے کہ ملک کے مخیر اور انسانیت کے ہمدرد سرمایہ دار حضرات اگر کسی شخص یا اس کی تنظیم کو رفاہ عام عامہ کیلئے مالی تعاون پیش کررہے ہوتے ہیں تو یقیناًیہ رقم دیتے وقت ان کے ذہن و فکر میں یہی بات جمی ہوتی ہے کہ وہ جس شخصیت یا تنظیم کے ہاتھ میں مدد کی گڈیا ں تھما رہے ہیں وہ اس رقم کا استعمال کسی بھی قیمت پر اپنی دکان چمکانے نام ونمود اور شہرت کی بھوک مٹانے کیلئے تو ہرگزنہیں کریں گے۔نہ ان کی رقم کا استعمال غیر دانستہ طور پر مگر عملاً مخالف مسلک کے متعصب لکھاریوں کو تعاون پہنچانے میں صرف کیا جائے گا ۔مگریہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خالص حنفی اور دیوبندی مسلک کے مخیرین کی رقم سے ان لوگوں کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے ،جو احناف سے خاص طور پرخداواسطے کا بیر رکھتے ہیں۔بند مٹھی میں ملنے والی مددکے بہانے یہ لکھاری لوگ حضرت کے انتقامی جذبہ کی تسکین کیلئے آزادی کیساتھ مخالف فریق پر قلم کے بے تکے کوڑے بھی برساتے ہیں اوراسی بہانے اپنی مسلک دشمنی نبھانے کابھرپور موقع بھی انہیں لکھاریوں کو فراہم ہوتا ہے، جن میں حضرات غیر مقلدین اور شیعہ لکھاریوں کی طویل قطار لگی ہوئی ہے۔خداجانے ہمیں کب اس سچائی کا ادراک ہوگا کہ یہ مسلکی زہر میں بجھے مداری وقتی مفاد کیلئے آپ کی شان میں قصیدے تو پڑھ سکتے ہیں۔مگر آپ کے مسلک کو گالی دینا ،آپ کے اکابرین کی ہرزہ سرائی کا کوئی موقع گنوانے کو یہ اپنے لئے گناہ عظیم سمجھتے ہیں۔یہ اپنے اس مشن کبھی بھی ایمانداری کے ساتھ دست بردار ہوکر دیانتی صحافت کو اصولوں کی پامالی سے گریز نہیں کر سکتے۔