خالد انور پورنوی المظاہری
اذان کیاہے؟ اللہ کی عظمت، بڑائی، اور کبریائی کا اعلان؛ اسی لئے اذان سے سب سے زیادہ تکلیف شیطان کو ہوتی ہے، وہ اللہ کی عظمت اور بڑائی کوسننا نہیں چاہتاہے ، حدیث میں ہے: جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کرریح خارج کرتاہوابھاگنے لگتاہے، تاکہ اذان کی آواز اس کے کان میں نہ پہونچے، جب اذان ختم ہوتی ہے تو وہ واپس آتاہے ، لیکن جب اقامت کہی جاتی ہے، پھر وہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، اقامت کے بعد پھر وہ واپس آجاتاہے اور نمازیوں میں وسوسہ ڈالنا شروع کردیتاہے۔اذان کوئی خاص عبادت نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ذریعہ اللہ کو پکاراجاتاہے جیساکہ ہمارے غیر مسلم بھائی سمجھتے ہیں ،بلکہ اذان کا مقصد لوگوں کو اوقات نماز کی اطلاع دینی ہوتی ہے اور اس کے ذریعہ مسجد میں باجماعت نماز اداکرنے کیلئے بلانا ہوتاہے، ہاں کچھ پڑھے لکھے جاہلوں کی جماعت ہے جو اذان کا مقصد کچھ اور سمجھتی ہے، اس میں دوسرے براردان وطن تو شامل ہیں ہی،ماڈرن خیال کے کچھ مسلمان بھی شامل ہیں،انہوں نے مندروں میں گھنٹی بجاتے ہوئے دیکھاہے، اس لئے وہ اذان کے بارے میں بھی وہی رائے قائم کرنے لگتے ہیں کہ اذان کا مقصد اللہ کو جگانا ہے تو لاؤڈاسپیکر کی کیاضرورت ہے؟ جبکہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی دلیل ہے ، ہندوستان جیسے خوبصورت ملک میں جہاں ہندو مسلم، سکھ، عیسائی سبھی ایک ساتھ رہتے ہوں،مگر اس کے باوجود اپنوں اور بالخصوص دوسرے بھائیوں کو اذان کے مقاصد کا واضح علم نہیں ہے اس میں ہم مسلمانوں کی کمزوری بھی شامل ہے ۔
بات اذان پر کہاں سے شروع ہوئی؟ ممبئی کے فلک بوس عمارت میں12؍ ویں منزل پر رہنے والا 43؍ سال کا ایک نوجوان ،معروف گلو کار، گاناگانا جن کا پیشہ، اور لاؤڈ اسپیکر جن کی ضرورت، صبح کے ساڑھے پانچ بجے وہ ٹوئیٹس کرتاہے:’’خدا آپ سب کا بھلاکرے ،میں مسلمان نہیں ہوں اور مجھے اذان کی آواز سنکر صبح اٹھنا پڑتاہے، انڈیا میں مذہبی زبردستی کب ختم ہوگی؟ یکے بعد دیگرے اس نے کئی ٹوئیٹس کئے، اور اخیر میں تویہاں تک کہدیا کہ کب ختم ہوگی یہ غنڈہ گردی‘‘؟
اس ٹوئیٹس کے بعد عمل اور رد عمل کا سلسلہ جاری ہوگیااور یہ ہونا بھی تھااس کے بعد اس نے معافی بھی مانگی کہ میرا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہونچانا نہیں تھا، لیکن سوال تو اپنی جگہ برقرار ہے کہ پھر اس طرح کے ٹوئیٹس کی ضرورت ہی کیاتھی؟ کیا اسلام کے خلاف زہر اگل کر کسی بڑے منصب تک پہنچنا مقصد تھا، جیساکہ عام طور پر دیکھا جاتارہاہے کہ اگر کسی نیتا کو بی جے پی میں اچھی عزت چاہئے یااچھا مقام ومرتبہ ملنے کی ہوس ہو تواسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی شروع کرتاہے، پھر کسی کو صدارت ملتی ہے، کسی کو وزارت علیااورکسی کو منتری پد، اس لئے سونو نگم کی معافی کے بعد بھی یقیناًہم کسی خیر کی توقع نہیں کرسکتے ہیں۔
ویسے بھی لاؤڈاسپیکرکے ذریعہ اذان کی پابندی کامطالبہ تواس سے پہلے بھی اغیارکی جانب سے کیا جاتا رہا ہے،ممبئی کورٹ میں باضابطہ مقدمہ بھی درج کیاجاچکاہے،جس میں فجرکی اذان سمیت دیگر پروگراموں کیلئے دس بجے رات کے بعدسے لاؤڈاسپیکرکے استعمال پرپابندی کامطالبہ کیاگیاتھا،یوگی حکومت بننے کے بعدیوپی میں جہاں غنڈہ راج کی خبریں دیکھنے اورسننے کوملتی ہیں،بریلی ضلع جیانگلاگاؤں کی دو مسجد و ں میں پمفلٹ کے ذریعہ باضابطہ دھمکی دی گئی ہے کہ اب ہماری حکومت بن گئی ہے،لاؤڈاسپیکرکے ساتھ نمازنہیں پڑھ سکتے ؛ مگرسونونگم کاحملہ ان سب سے زیادہ خطرناک ہے چونکہ اس نے لاؤڈاسپیکرکوموضوع نہیں بنایا ہے؛ بلکہ اصل مدعا اذان ہی ہے،یہی وجہ تو ہے کہ اپنے پہلے ٹویٹس میں تو صرف اذان کاہی تذکرہ کیاہے،اورافسوس کی بات یہ ہے کہ سونیاگاندھی کے سیاسی مشیراحمدپٹیل ہی نہیں بہت سے مسلمان بھائی اس کی حمایت میں کھڑے نظرآتے ہیں۔
اوریہ ہماری لفاظی نہیں ہے،ابھی دوچاردن پہلے ہی کی توبات ہے،ایک مسلم بھائی ہمارے پاس آیا، اور سونو کی حمایت میں نہ صرف دلیلیں دینے لگا بلکہ لاؤڈاسپیکرکے ذریعہ اذان دینے کی برائیاں ایسے بیان کرنے لگاکہ ہم کف افسوس ملنے لگے،کہنے لگا:کیاان موذنوں کی غلطی نہیں ہے،آدھاآدھاگھنٹہ تک اذان وغیرہ … ہم نے مسکرا کر صرف اتناکہا:اذان میں تو مشکل سے دومنٹ ہی لگتے ہیں،اورآج تولوگ ٹی وی کی اسکرین پر نظریں جمائے راتوں رات گذاردیتے ہیں،ہاں جوشیطان ہوگاتکلیف توہوگی ہی،ہمارے استادنے تو ہمیں یہی پڑھایا ہے،ہاں جن کے اساتذہ شیطان ہو انہیں تو ہر چیز کی آزادی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک صحافی پتہ لگانے کیلئے سونونگم کے گھرپہونچتی ہے کہ کیاواقعی اس کے گھرتک اذان کی آوازپہونچ سکتی ہے اورحقیقت میں اذان کی آواز سے کسی کی نیندخراب بھی ہوسکتی ہے ، اذان سے آدھا گھنٹہ پہلے ممبئی میں سونونگم کے گھرجاکروہ کھڑی ہوگئی،چاروں طرف گھپ اندھیرا،عام طورپرمصروف رہنے والی ممبئی کی سڑکیں بالکل خالی ویران پڑی ہوئی تھیں،اس خاموشی میں سونونگم کے دومنزلہ مکان کے باہرکئی صحافی پورے سازوسامان کے ساتھ موجودتھے،جواذان کی آوازکاانتظاکررہے تھے،لیکن رات کی خاموشی نہیں ٹوٹی،اذان کے وقت سے آدھاگھنٹہ مزیدانتظارکیاگیا،وہ اپنی رپوٹ میں لکھتی ہے کہ: ٹریفک کے شورکے علاوہ کوئی دوسری آوازسنائی نہیں دی۔
سونونگم کے گھرسے آدھا کیلومیٹرکے فاصلہ پر مسجد،مدرسہ تعلیم القرآن ہے،جبکہ اس علاقعہ میں تین مساجداورہیں جوسونونگم کے گھرسے 600؍ میٹرکے فاصلہ پرواقع ہے،جہاں سے آوازپہونچتی ہی نہیں ہے، اب اس کامطلب صاف ہے کہ ان کااعتراض صرف اورصرف اذان پرہے،لاؤڈاسپیکرتواس کیلئے پہلے ہی سے کسی لیلیٰ سے کم نہیں، چونکہ ایک گویَّاکی زندگی،اور اس کی آواز لاوٗڈاسپیکرکے بغیر ادھوری ہے!
ظ ظ ظ
۱۳؍سالہ مکی دَورظلم وستم سے عبارت ہے،انسانیت سوزمظالم کاوہ دلدوزمنظرجسے پڑھ کرانسانی کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے،مسلمانوں کی تعدادبھی مختصرہے،اس لئے علی الاعلان ایک ساتھ جماعت سے نمازاداکرنے کی نہ قدرت ہے،اورنہ اللہ کی طرف سے کوئی تائیدی حکم،جب نمازباجماعت کی ضرورت نہیں ہے،تولوگوں کوجمع کرنے کیلئے اذان واعلان کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اللہ کے رسول سرکاردوعالم ﷺ دس سالہ مظالم سے تنگ آکرہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے،کھلی فضا میسر آئی،مگرلوگوں کوکس طرح بلایاجائے؟ایک ساتھ نمازاداکرنے کی اطلاع کس طرح دی جائے؟ مشورے ہونے لگے،کسی نے کہا:آگ جلائی جائے،کسی نے کہا:ناقوس بجایاجائے،کسی نے گھنٹہ بجانے اورکسی نے جھنڈا گاڑ نے کی رائے دی،لیکن آپ ﷺ کویہ طریقہ پسندنہیں تھاچونکہ اس میں دوسروں کی مشابہت تھی ، عمر فاروق صنے مشورہ دیاکہ ایک شخص کومقررکردیاجائے،جو جماعت کے وقت گھرگھر جاکر لوگوں کو اطلاع دے۔آپ ﷺ نے وقتی طورپرحضرت بلال حبشی کومنتخب کردیاکہ وہ ہرنمازکے وقت ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ کا اعلان کردیں،مگرپنجوقتہ نمازوں سے قبل ہرگھرتک اطلاع دینااتناآسان نہیں تھا،اسی دوران ایک انصاری صحابی عبداللہ بن زیدبن عبدربہ نے ایک خواب دیکھا،ایک شخص کے ہاتھ میں ناقوس ہے،عبداللہ بن زیدبن عبدربہ کہتے ہیں:میں نے ان سے کہا:یہ ناقوس تم بیجتے ہو؟اس نے کہا:تم کیاکروگے؟انہوں نے کہا : اعلان کرکے لوگوں کونمازکیلئے بلایا کریں گے،اس نے کہا:کیامیں تمہیں ایسی چیزبتاؤں جواس سے بہتر ہے ، عبداللہ بن زید نے کہا: ضرور بتائیے؟اس نے اذان کے کلمات سکھلائے،آنکھ کھلی،توصبح سویرے دوڑے دوڑے اللہ کے رسول ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اورپوراخواب بیان کیا،آپﷺ نے سن کر فرمایا: یہ خواب برحق ہے،بلال کوان کلمات کی تلقین کرو،اوروہ ان کلمات کے ذریعہ لوگوں کونمازکیلئے بلائیں، چونکہ ان کی آوازتم سے زیادہ بلند ہے ۔
اس دن سے آج تک اذان کی آوازپوری دنیامیں گونج رہی ہے،نمازفجرکی اذان سب سے پہلے دنیا کے مشرقی ممالک انڈونیشیاوغیرہ سے شروع ہوتی ہے،ملائیشیا،چین،بنگلہ دیش،ہندوستان، پاکستان، افغا نستان، ایران، ترکمانستان، تاجکستان،ازبکستان،عمان،قطر،بحرین،سعودی عرب، یمن، کویت، عرب امارات،سوریا فلسطین، اردن، ترکی، مصر، لیبیا،الجزائر،یورپ،امریکہ میں مسلسل فجرکی اذان ہوتی رہتی ہے،اذان فجرکایہ سلسلہ ابھی ختم بھی نہیں ہوتا،کہ انڈونیشیامیں ظہرکی اذان مسجدکے میناروں سے بلندہوتی ہے،اسی طرح پانچوں نمازوں کے وقت اذان کی آواز فضامیں گونجتی رہتی ہے،24؍گھنٹے میں کوئی لمحہ ایسانہیں گذرتاکہ موذن اللہ کی وحدانیت،عظمت،اوررسول اللہ ﷺ کی رسالت کی گواہی نہ دے رہاہو،ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق دنیامیں ہر وقت گونجنے والی آواز اذان ہے،یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام ہی وہ واحدمذہب ہے،جوحق ہے،اوراپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے۔
ا ذان کامقصدہی ہے کہ بلندآوازکے ذریعہ اللہ کی کبریائی کااعلان کیاجائے اوراللہ کے ماننے والوں کواللہ کے دربارمیں بلاکرایک ساتھ باجماعت نمازاداکی جائے،پہلے زمانہ میں گاڑیوں ،مشینوں کے شورنہ ہونے کی وجہ سے اونچی جگہ پراذان دی جاتی تھی،اور وہ آواز ہر گھر تک پہونچ جاتی تھی؛لیکن ابھی کی صورت حال یہ ہے کہ لوگ رہائشی مکانوں اوردفتروں میں قیدررہتے ہیں،گاڑیاں اورمشینیں حدسے زیادہ بڑھ گئی ہیں سڑکوں،چوراہوں میں شورشرابہ کی وجہ سے، اگرلاؤڈاسپیکرکے ذریعہ اذان نہ دی جائے تو اذان دینے کامقصدہی فوت ہوکررہ جائیگا،ہاں سونونگم جیسے لوگ اگراذان اورلاؤڈاسپیکرکے ذریعہ اپنی تکلیف کااظہارکریں تو ہم کیاکریں؟اذان سے سب سے زیادہ تکلیف توشیطان کوہوتی ہے،توکیاان شیطانوں کی وجہ سے اللہ کی کبریائی کااعلان کرنااورلوگوں کونمازکیلئے دعوت دینا چھوڑدیں؟بلکہ ہم مسلمانوں کا وجود ہی شیطانوں اور اللہ کے باغیوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے تو ہم کیاکریں ؟ دنیا چھوڑدیں!آپ اپنی تکلیف کاماتم کریں اورہم اللہ کی عظمت کااعلان ،جوخداآپ کابھی ہے اورہمارابھی!
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالٰہ الا اللہ
nedaequasim@gmail.com
★ ایڈیٹر ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ