میرے سورج میرے ہمدم میری منزل تو بتا !

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
خاص مضمون :ملت ٹائمز

پیرس پر دہشت گردانہ حملے کے بعد دنیا بھر میں داعش اور اس قسم کی دیگر دہشت گردتنظیموں کے خلاف تحریک میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مختلف طریقوں سے اور دیگر تنظیموں، انجمنوں،اداروں اور شخصیتوں کی طرف سے بھی ان مخصوص دہشت گرد تنظیموں کے خلاف رائے عامہ بیدار کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح 9ستمبر2001میں امریکی ٹریڈ ٹاور پرجہاز مارے جانے کے بعد ہوا تھا۔اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے اسے امریکہ پر حملہ قرار دیتے ہوئے ساری دنیا سے اپیل کی تھی کہ وہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ و متحدہ جنگ لڑے اور اس مشترکہ جنگ کے لئے دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف ہر ملک کو الگ الگ قوانین بنانے کا حکم دیا گیا تھااور دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اپنے یہاں پہلے سے موجود آرگنائزڈ کرائم کے خلاف قوانین ہونے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف مخصوص قوانین بنائے تھے جن میں پولیس کو بے تحاشہ اختیارات دئیے گئے تھے۔ خود ہندوستان میں بھی ٹاڈا اور پوٹا جیسے قانون اسی پس منظر میں بنائے گئے تھے۔دنیا بھر کی مسلم تنظیموں نے بھی اسی طرح دہشت گردی کی مذمت کی تھی اور اسے اسلام کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی تھی۔پیرس حملے کے بعد فرق یہ پیدا ہوا ہے 2001کے برعکس دنیا بھر میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی حملوں میں شدید اضافہ ہوا ۔یعنی اگر 2001کو پہلا مرحلہ مان لیا جائے تو اس مرحلے میں دہشت گردی کے خلاف ساری دنیا نے سخت اور مخصوص قوانین اختیار کئے اور ان قوانین کا نشانہ ساری دنیا میں صرف مسلمانوں کو بنایا گیا۔ جبکہ 2015میں پیرس حملے کے بعد انہی عالمی قوانین کی روشنی میں فوجی حملوں کو مہمیز دینے کا دوسرا مرحلہ اختیار کیا گیااور ان حملوں کا نشانہ بھی صرف مسلم ممالک بنے اور اس مرتبہ بھی موجودہ امریکی صدر براک ابامہ نے خصوصی طورپر مسلمانوں کو خطاب کرکے کہا کہ مسلمان دہشت گردی کی مزید مذمت کریں اور دہشت گردوں کو اپنی صفوں سے باہر کریں۔اس مرتبہ بھی یہی ہوا کہ امریکی صدر کے فرمان کے فوراً بعددنیا کی بیشتر تنظیموں نے ایک بار پھر دہشت گردی کو اسلام کے خلاف قرار دیااور مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کی۔ اس مرتبہ یہ اعلان فرداً فرداً نہیں کیا گیا بلکہ اکثر کانفرنسوں کا انعقاد کرکے علماء کے بڑے بڑے گروہوں نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اعلامیے جاری کئے۔خود ہندوستان میں 177علماء نے اس کے خلاف ایک مشترکہ اعلان جاری کیا۔ کچھ تنظیموں نے لاکھوں لوگوں کے مجمعے اکٹھے کرکے بھی دہشت گردی کے خلاف اپنی یکجہتی کا اعلان کیااور یہ عمل ابھی تک جاری ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں جہاں کہیں پُر تشدد تحریکیں جاری ہیں وہ چاہے داعش ہو یا بوکوحرام یا الشباب، القاعدہ یا طالبان، جیش محمد یا لشکر طیبہ یا اس طرح کی مسلمان ناموں والی کوئی بھی دیگرمتحارب تنظیم ہو سب کے سب اسلام مخالف ہیں اور ماضی میں بھی مسلم مفادات کے خلاف برسرپیکار رہی ہیں۔حال میں بھی ان کا وجود مسلمانوں کے لئے سم قاتل ثابت ہورہا ہے اور مستقبل میں بھی یہ اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
راقم الحروف 2004سے ہی اس قسم کی تنظیموں کے خلاف خامہ فرسا رہا ہے اور آج بھی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان تمام تنظیموں کی پشت پر کون ہے اور کیوں ہے؟دہشت گردی کے خلاف مہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتیں طشت از بام نہ ہوجائیں۔ اس سلسلے میں ایک قابل غور پہلو تویہ ہے کہ کیا دنیا میں دہشت سے متعلق تنظیمیں صرف مسلمانوں ہی کی ہیں یا غیر مسلمین کی دہشت گرد تنظیمیں بھی موجود ہیں۔ ہندوستان کی سطح پر دیکھیں تو یہاں نکسلی تحریک،سکھوں کی تحریک، شمال مشرقی ریاستوں میں قبائلیوں کی تنظیمیں اور جنوبی ہندوستان میں تمل دہشت گردوں کی تنظیموں نے ماضی میں دہشت گردی کی انتہائی خونخوار مثالیں پیش کی ہیں۔جو سب کے سب غیر مسلم ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اصطلاحی اعتبار سے ان میں سے کسی بھی تنظیم کو کبھی بھی دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیا گیا۔مثلاً سکھ دہشت گردی کو ٹیرارزم نہ کہہ کر ملیٹنسی کہا گیا۔ شمال مشرقی قبائلی دہشت گردی کو انسرجنسی کہا گیا ۔نکسلزم جو ملک کے 270اضلاع میں دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے اسے بھی دہشت گرد تحریک نہیں مانا جاتا۔ جبکہ سیمی جس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ابھی تک ثابت نہیں ہوا اور نہ ہی سیمی کے کسی کارکن کو کسی عدالت سے کوئی سزا ملی ہے مگر اسے دہشت گرد بتا کر پابندی لگادی گئی ۔ اسی طرح انڈین مجاہدین کا آج تک وجود بھی ثابت نہیں کیا جاسکا۔داعش کے بارے میں خود وزیر داخلہ پیرس حملے سے پہلے تک یہ کہتے رہے کہ ملک میں داعش کا کوئی اثر نہیں ہے لیکن مذکورہ حملے کے فوراً بعد اچانک داعش میڈیا کی سرخیوں میں بھی آگئی اور ملک کی تمام سراغ رساں ایجنسیاں بھی داعش سے وابستہ مسلمانوں لڑکوں کی دھڑ پکڑ میں مصروف ہوگئیں اور اچانک ملک میں ایسا ماحول پیدا ہو گیا گویا ہر پڑھا لکھا اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والا مسلم نوجوان داعش سے وابستہ ہونے کی فکر میں غلطاں ہو۔ملک کی حکومت اور ایجنسیوں کا یہ رویہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ دہشت گردی یا ٹیرا رزم کو صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کرکے ہی دیکھا جاتا ہے۔جبکہ دیگر تمام متحارب تحریکیں اس زمرے سے باہر رکھی گئی ہیں۔ایسے میں مسلم تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی موجودہ پرشور تحریک حقائق سے لاعلم ایک مدافعانہ اور نادمانہ رویہ کا اظہار کرتی ہیں۔ یعنی ان تنظیموں نے دہشت گردی کی مذمت کرتے وقت اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی کبھی کوئی زحمت نہیں کی کہ دہشت گردی کے اصل معاونین کون ہیں نہ ہی ان معاونین کی مذمت کرنے کی زحمت کی گئی ۔ان تنظیموں نے کبھی یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ نکسلی تحریک ،تمل تحریک، شمال مشرقی ریاستوں کی تحریک اور سکھ تحریک کو بھی دہشت گردی کے زمرے میں رکھا جائے۔جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے نوجوان لڑکوں کے مقدمات لڑکے انہیں بری کرانے کی سعی قابل تعریف اور قابل مبارکباد ہے۔لیکن مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام جھوٹا ہے اس عنوان سے ملک بھر میں کسی بھی تنظیم نے کوئی قابل ذکر تحریک نہیں چھیڑی۔ مزید براں 2011میں ممبئی حملے کے فوراً بعد ہندو شدت پسندوں کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک کے خدوخال بھی کافی واضح ہوچکے ہیں اور اس الزام میںآر ایس ایس سے وابستہ کئی تنظیموں کے اہم کارکنان کو جیل رسید کرکے ان پر چارج شیٹ بھی عائد کی جاچکی ہے۔اس کے باوجود ان ہندو شدت پسند تنظیموں پر پابندی کے مطالبہ کولے کر بھی کوئی قابل ذکر تحریک ملک میں نہیں چھیڑی گئی۔یہ تمام واقعات وحالات دوباتیں واضح کرتے ہیں ایک تو یہ کہ جو تنظیمیں دہشت گردی کی مذمت میں اس قدر ہلکان ہو رہی ہیں وہ اپنی اس مذمت کے ذریعے کہیں نہ کہیں اس امر کا اعتراف کررہی ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کا ایک طبقہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔جو در اصل نادمانہ رویہ کا اظہار کرتا ہے۔دوسرے یہ کہ ہندو شدت پسند تنظیموں پر پابندی کے مطالبے کو نظر انداز کرنے اور دیگر متشدد تحریکوں کو بھی دہشت گرد ماننے کا مطالبہ نہ کرنا ان تنظیموں کے مدافعانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔واضح رہنا چاہیے کہ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے نام پر جاری ظلم وجبر کی مروجہ روش اور ہندوستان میں اسی نام پر بے قصور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہراکر ٹارچر کرنے کی زندہ اور جاوید حقیقت کے دوران یہ مذمتیں مسلم نوجوانوں کو کوئی اچھا پیغام نہیں دے رہی ہیں بلکہ ان تنظیموں اور اس قیادت کے خلاف ہی ماحول سازی کررہی ہیں۔آج کا نوجوان بہرحال یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہم ہی پر ظلم ہورہا ہے اور ہم ہی کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے اور جو اصل مجرم ہیں ان کی پشت پناہی بھی کی جارہی ہے اور انہیں نوازا بھی جارہا ہے۔ ایسے میں مسلم قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ ایک طرف دہشت گردی کی مذمت کریں وہیں نوجوانوں کو اس کے اصل مرتکبین سے روسناش بھی کرائیں اور ان کی بھی مذمت کریں ان کے خلاف تحریک بھی کھڑی کریں اور نوجوانوں کو اپنے عمل کے لئے ایک مثبت سمت بھی عطا کریں،محض تردید اور مذمت سے کام چلنے والا نہیں ہے۔یہ بھی واضح کرناچاہیے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے نام پر قائم یہ نام نہاد مسلم دہشت گرد ہی تنہا موجود نہیں ہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کی دیگر سیاسی تحریکیں بھی موجود ہیں جو اسلام کے احیاء اس کی تنفیذ اور اسلامی جمہوریت کی علمبردار بن کر میدان میں کھڑی ہیں۔مسلم نوجوانوں کو یہ بتایا جانا ضروری ہے کہ موجودہ دنیا میں اکثر مسلم ملکوں میں جمہوری طریقوں سے جو سرکاریں بنی ہیں ان میں زیادہ تر اسلام پسندوں کا ہی غلبہ رہا ہے۔ جن کا دہشت گردی سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا۔1980-1979کے کامیاب ایرانی انقلاب سے لے کر حال ہی میں افریقی ملک گیمبیا میں اسلامی جمہوریت کی تنفیذ تک متعدد مسلم ملکوں نے اسلام کو اپنا نظام حکومت قرار دیا ہے اور جو پارٹیاں ان ملکوں میں برسراقتدار آئی ہیں ان میں سے کسی کا بھی دہشت گردی سے دور کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ایران کے بعد ترکی ،تیونس، مصر، لیبیا،فلسطین،سوڈان، الجزائر، مالدیپ وغیرہ بہت سے ممالک شامل ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ جو میڈیا دہشت گرد تنظیموں کی خبر دینے میں اتنے جوش کے ساتھ منہمک،سرگرداں اور مشغول ہے وہی میڈیا مسلم ملکوں میں برسراقتدار آنے والی ان اسلامی جماعتوں کی خبر دینے میں انتہائی بخل اور کنجوسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔جس کی وجہ سے مسلمان نوجوان اصل حقیقت سے واقف نہیں ہوپاتا ۔ دنیا بھر میں جاری دہشت گردی کو مسلم دہشت گردی یا جہادی عنصر قرار دینے کی یہی اصل وجہ ہے ۔ دنیا کے مسلمانوں میں ہر جانب اسلامی بیداری کی لہر دوڑ رہی ہے اور گزشتہ دو دہائیوں میں بیشتر مسلم ممالک میں انتخابات کے ذریعے اسلام پسندوں نے حکومت حاصل کی ہے۔جس نے استعماری ،صہیونی قوتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں اور انہوں نے اپنی شہنشاہیت کی بقا ء کی خاطر سب کچھ کر گزرجانے والی مسلم آمریتوں سے ہاتھ ملا کر دنیا میں ایک ایسا ماحول بپا کرنے کی کوشش کی ہے گویا ہر جگہ مسلمان ایک وحشی ملت بن کر اپنے ہی لوگوں کے خلاف شمشیر بکف ہو کر میدان میں کود پڑے ہوں اور اپنے ہی ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر انہیں کھنڈروں میں تبدیل کررہے ہوں، اپنے ہی لوگوں کاقتل عام کرکے انہیں در بدر ہونے پر مجبور کررہے ہوں۔ کروڑوں مسلمانوں کو خود ہی کیمپوں کی زندگی گزار پر مجبور کررہے ہوں۔ ظاہر ہے ایسا کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ وہ طبقات ہوسکتے ہیں جو اسلام کے دشمن ہوں اور اس سیاسی اسلام سے خوفزدہ ہوں جو دنیا میں قیام امن اور انسانی مساوات قائم کر کے مواقع کی منصفانہ تقسیم کے مخالف ہوں۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی وہ قوتیں جو تمام مادی و سائل کو اپنی مٹھی میں قید کرنا چاہتی ہیں اور عام انسانوں کو اپنا محکوم بنانا چاہتی ہیں وہ اس سیاسی اسلام کو کسی قیمت پرگوارا نہیں کرسکتی ہیں۔ انہی قوتوں نے یہ متحارب مسلم تنظیمیں کھڑی کرکے اسلام کی شبیہہ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اقوام عالم کے مابین مسلمانوں کوحاشیے پر کھڑا کردیا جائے ۔ دہشت گردی کی مذمت کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا بھر میں جاری غلبہ اسلام کی ان تحریکوں کا بھی مطالعہ کریں اور مسلم نوجوانوں کو ایک جمہوری اور سیاسی تحریک کے ذریعے دہشت گردی کی معاون اور پشت پناہ ان غاصب طاقتوں کے خلاف تحریک بپا کرنے کی ترغیب دیں۔ تاکہ داعش اور اس جیسی دیگر دہشت گرد اسلام دشمن تنظیموں کے خلاف بر سر پیکار ہو کر مسلم نوجوان احیاء سلام کی مثبت تحریک کی جانب مائل ہو سکیں اور اسلام دشمن استعمار اور صیہونیت کا مقابلہ بھی کر سکیں۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں )

SHARE