فیروزاحمدندوی
اختلاف وانتشار ہرجگہ اور ہرآن مذموم ومبغوض ہے لیکن کم از کم ایسے مسائل جو امت اسلامیہ ہندیہ سے مجموعی طور پر منسلک ہو اس وقت تو اس سے بچا جانا انتہائی ضروری ہوجاتا ہے ، ویسے بھی ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے حالات نازک سے نازک تر ہوجاتا جارہا ہے ۔ جب کوئی خاص مسئلہ مسلمانوں کو درپیش ہو تو کیوں نہ امت کے تمام مسالک کے رہنما و قائدین مل بیٹھ کر ایک متفقہ فیصلہ لیکر مقابلہ کے لئے میدان میں اتریں تاکہ عوام الناس تک یہ بات پہنچے کہ سارے مسلمان اس ایشو پر متحد ویکتا ہیں ۔آپسی نااتفاقی سے ہمارے شرخواہان قوم کو مزید تقویت مل جاتی ہے اور وہ لوگ ہماری شریعت اسلامیہ پر تیز حملہ شروع کر دیتے ہیں ، نتیجہ من حیث القوم مسلمانوں کی بدنامی ہوتی ہے ۔
طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کے بحث کے دوران آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل کپل سبل کا الزامی جواب کہ اگر ایودھیا میں رام کے پیدایش پر ہندوں کے آستھا کی وجہ سے سپریم کورٹ دخل نہیں دے سکتی تو اسی طرح مسلمانوں کے چودہ سو سال سے چلی آرہی یہ طلاق ثلاثہ کا عمل بھی آستھا کی وجہ سے سپریم کورٹ کو اس مسئلہ پر بحث نہیں کرنا چاہیے ۔ لفظ آستھا کو لیکر بعض لوگوں کو دور اندیشی دکھانے کا موقع مل گیا اور لگے بورڈ پرحملہ اور غیر دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے لگے۔کسی نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کے بدلے بابری مسجد کا سودا کیا جارہا ہے ، اور بعض غیر ضروری بحث میں پڑگئے کہ آیا طلاق ثلاثہ قران میں ہے یا نہیں ۔۔ حالانکہ ہم میں سے ہر دینی علوم کے جاننے والے علم رکھتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ قران وحدیث پرمشتمل ہے اگر ایک مسئلے کی وضاحت قران میں نہیں ہے تو ہمیں اس مسئلہ کی وضاحت حدیث سے مل جاتی اور اگر ظاہری طور پر دونوں میں ہماری کم علمی کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آتا ہے تو صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین و تابعین وتبع تابعین کے عمل سے اس مسئلہ کی وضاحت ہوجاتی ہے ۔کیونکہ ہم مسلمانوں کا عقیدہ اگر ہندی لفظ میں کہا جائے تو آستھا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو ہر زمانے اور ہر مکان پر رہنے والے انسان کے لئے نمونہ عمل اور طریقہ زندگی ہے جس میں زمانے کے تغیرات کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔چاہے دنیا کتنی بھی ترقی کی منزلیں طے کرتی رہے اسلام نے اس کے ہر مسئلہ کا حل پیش کیا ہے بلکہ نئی نئی سائنسی ایجادات کے ساتھ اسلام کا نقطہ نظر اور بھی گہرا،موکد ہوتا جارہا ہے ۔
سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے ایشو کو جانے اور ایک ہندو وکیل کے رکھنے سے یہ بات امت مسلمہ ہندیہ کے سامنے کھل کر آتی ہے کہ ہم آخر اتنے لاچار کیوں ہوگئے کہ ہمارے پاس ایک بھی مستند عالم دین کے ساتھ ساتھ ماہر وکیل نہیں ہے ، ہم نے پورے ہندوستان میں دینی مدارس کا جال تو بچھا دیا ۔حالانکہ اس کی مزید ضرورت ہے ۔لیکن اچھا عالم کے ساتھ ایک اچھا وکیل، ڈاکٹر ، انجینیر ، اور علوم دنیویہ کے دوسرے ماہرین نہیں بنا سکے ۔ہم کیوں نہ مدارس ہی میں اس طرح کے شعبہ جات نکال لیں جس طرح ان مدارس کے لئے مالی اسباب فراہم کر لیتے ہیں اسی طرح ہم کیوں نہ اس جانب بھی خاص توجہ دیکر اس طرح کے اسلامی علوم کے ماہرین کے ساتھ اچھے وکلاء ،ڈاکٹرس، میڈیا کے میدان میں اچھے لکھنے والے بھی تیار کرائیں ۔ہماری نظر ممبئی کے مولانا برہان الدین صاحب کے زیر سرپرستی چلنے والا ادارہ مرکز المعارف پر جارہی ہے ۔اس ادارہ سے نکلنے والے طلباء بھی اس جانب خاص توجہ دیں کیونکہ وہ انگلش میں اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اگر ہم کہیں کہ مدارس کے طلباء کہاں ان علوم کے جانب جائیں گے، وہ اپنا فرض منصبی میں لگے ہیں مسلمانوں کے درمیان دینی علوم کی ترویج واشاعت میں لگے ہیں کیونکہ ان مدارس کی بھی امت مسلمہ کو بے حد ضرورت ہے نہیں تو مسلمانوں کی آنے والی نسل دین سے محروم ہوجائے گی ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ کی زبان میں مدارس ایک پاور ہاوس کی طرح ہے جو ساری قوم کے رگوں میں بجلی سپلائی کرتا ہے ۔تو آج کل پورے ملک میں پھیلے بہت سے جدید علوم کے ادارے مسلم مینیجمنٹ کے تحت چل رہے ہیں کیوں نہ ایسے ذمہ دار لوگ اس طرف توجہ دیں کہ ماہرین وکلاء،ڈاکٹرس وغیرہ بنانے کے ساتھ دینی علوم میں ماہرین بھی پیدا کریں ، صرف بنیادی دینی تعلیم، دعا، سورتیں وغیرہ یاد کرانے پر بس نہ کریں ۔
سب سے اہم مسئلہ ہماری دین سے دوری ہے ہم خود ایسے ایشوز کو کرید کر نکالتے ہیں اگر ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا تو ہم اس طرح رسوائی اور بدنامی کا سامنا نہیں کرتے اس کے لئے سب سے پہلے دین کو اپنانا ہوگا اور اسلامی معاشرہ تشکیل دینا ہوگا اور اس کے لئے ہماری مسجدوں کے خطباء اور مقررین حضرات کمر کس لیں کہ اپنے معاشرہ کو اسلامی رنگ میں ڈھالیں گے اور جو لوگ عام مسلمانوں کے لئے باعث ندامت والا عمل کریں ان کو معاشرہ سے بائیکاٹ کردیں جیسا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا ہے ۔
ایک طرف ہم یہ بھی کرسکتے ہیں کہ خاص کر گلف ممالک میں اچھی انکم والے حضرات مل بیٹھ کر ایسی کمیٹی بنائیں جس کا مقصد ہو کہ ہندوستان میں رہنے والے ایسے عالم دین جو بہتر وکیل یا ڈاکٹرس بننا چاہتے ہوں یا ایسے ڈاکٹرس اور وکلاء جو دینی علوم میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہوں ان کی مالی مدد کی جائے تاکہ مسلمانوں کو وقت ضرورت ایسے لوگ کام آ سکیں ،لیکن دیکھنے میں آتا ہے گلف ممالک میں رہنے والے بہت سے لوگ مثبت ذہنیت کے بجائے منفی پروپیگنڈا میں لگے رہتے ہیں ۔جس سے مزید انتشار و اختلاف کو ہو مل رہی ہے ۔اللہ ہماری حفاظت فرمائے اور اپسی اختلافات سے بچائے آمین یا رب العالمین ۔(ملت ٹائمز)