ملک کی آدھی آبادی پر مشتمل دیش کی بیٹیاں دیش کے باہر ہی نہیں اندر بھی تحفظ چاہتی ہیں

عمیر کوٹی ندوی

اس وقت ہمارے ملک میں خواتین کی خبرگیری، حسن سلوک اور احترام کی جو فکر پروان چڑھ رہی ہے ،نئی دہلی کی رہنے والی 20سالہ عظمیٰ کی پاکستان سے واپسی اسی سلسلسہ کی کڑی ہے۔ خبروں کے مطابق معاشقہ کی وجہ سے پاکستان جانے والی یہ لڑکی وہاں مبینہ طور پر ظلم وزیادتی کا شکار ہوئی۔لیکن خود اس لڑکی کی سوجھ بوجھ اورپاکستان میں ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کی کوششوں کے نتیجہ میں اس کی وطن واپسی ممکن ہوسکی ۔اس کی واپسی کے لئے پاکستان کےاسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کیا گیا، اس کیس کی پیروی وکیل شہنوازنون نے کی اور عدالت نے اس لڑکی کے حق میں فیصلہ سنایا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نےفریق مخالف کی اس دلیل کو کہ “یہ پاکستان کے وقار کا معاملہ ہے” یہ کہہ کر خارج کردیا کہ” اس معاملہ میں درمیان میں پاکستان کا وقار کہاں سے آگیا”۔ جسٹس کیانی نےاپنے فیصلہ میں کہا کہ” عظمیٰ ہندوستان میں کہیں بھی جانے کے لئے آزاد ہے”۔اسی کے ساتھ عدالت نے ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمیشنر کو ہدایت دی کہ وہ اس لڑکی کو ضروری کاغذات لے کر واگھابارڈر سے ہندوستان لے جائیں۔وزیر خارجہ سشماسوراج جو نہ صرف اس پورے معاملہ پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھیں بلکہ متعدد بار فون پر لڑکی سے بات کرکے اسے تسلی بھی دی۔اس لڑکی کے مطابق وزیر خارجہ سشماسوراج نےاس سے کہا تھا کہ “گھبرانا نہیں ،تم ہندوستان کی بیٹی ہو۔ اگر دوسال بھی ایمبیسی میں رکھنا پڑا تو رکھیں گے، لیکن تمہیں طاہر کے حوالے نہیں کریں گے”۔ انہوں نے پاکستان کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ،اس لڑکی کا کیس لڑنے والے وکیل اور ہندوستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ “اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس کیانی نے انسانی بنیاد پر فیصلہ سنایا ہے “اس فیصلہ کا ستائشی انداز میں ذکر بھی کیا ۔ وزیر خارجہ سشماسوراج نے لڑکی کی طرف سےاس کیس کی پیروی کرنے والے وکیل شہنواز نون کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ”یہ مقدمہ انہوں نے ایک والد کی طرح لڑا ہے”۔

وطن واپسی پر اس لڑکی نے اپنے ساتھ پیش آنے والے تلخ واقعات کا ذکر کیا تو اس کی واپسی میں معاونت کرنے پر ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا کہ”حکومت ہند اور وزیر خارجہ سشما سوراج کی شکرگزار ہوں، کیونکہ ان کی کوششوں کے سبب ہی میں ہندوستان واپس آسکی ہوں”۔ اس واقعہ کے ردعمل اور اس کی آڑ میں دئے جانے والے بیانات اور عائد کردہ الزامات سے ماوراء دیکھنے والی بات یہ ہےکہ ایک لڑکی جو کسی بھی وجہ سے برے حالات کا شکار ہوئی اس کو بچانے کے لئے دونوں ہی ممالک کی حکومتوں نے مثبت قدم اٹھایا، عدلیہ نے اپنا مؤثر کردار اداکیا اور انتظامیہ نے بھی اپنا کام کیا۔ عدلیہ نے اس معاملہ میں ” پاکستان کا وقار”کے ذریعہ کی جانے والی اُس کوشش پراُس کی نفی کرکے قدغن لگادیا جوعصبیت اور فرقہ واریت کو ہوادینے کے لئےاکثر وبیشتر کی جاتی ہے۔ اس کا مشاہدہ ہر جگہ ہر کہیں ہوتا رہتا ہے۔ میڈیا ماحول گرم کرتا ہے، سڑکوں چوراہوں پر ہنگامہ آرائی اور تخریب کاری ہوتی ہے، وکلاء مقدمات کی پیروی نہ کرنے کے لئے سبھا لگا بیٹھتے ہیں۔اگر کوئی مقدمہ لڑنے کے لئے آمادہ ہوجائے تو اسے زود وکوب کیا جاتا ہے اور نہ ماننے پر قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ لیکن اس معاملہ میں دونوں ممالک میں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ دونوں ہی طرف سے مثبت اقدام کیا گیا۔ یہ اچھی بات ہےاور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خواتین کی خبرگیری، حسن سلوک اور احترام کی فکر دونوں جگہ پروان چڑھ رہی ہے۔

خواتین کے تعلق سے اس فکر کے باوجود خود ہمارے ملک میں ایک بار پھر25-26مئی کی درمیانی شب میں خواتین کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہےجس نے انسانیت کو شرم سار کردیا ہے۔یہ واقعہ اس ریاست میں پیش آیا ہے جہاں پر حکمراں پارٹی نے سال گزشتہ 30-31جولائی کی درمیانی شب میں وقوع پزیر اسی طرح کے ایک واقعہ اور ریاست میں کرائم کنڑول کو اسمبلی انتخابات میں اہم ایشو بنا یا تھا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب ایک کنبہ کے لوگ اپنی والدہ کی تیرہویں کے لئے بذریعہ کار نوئیڈا سے شاہجہان پور جارہے تھے کہ این ایچ- 91پر بلند شہر کوتوالی دیہات حلقہ میں کار کو روک کر لوٹ پاٹ کی گئی تھی اور ایک خاتون اور اس کی چودہ سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی۔ لیکن اب جب کہ اس پارٹی نے ریاست اترپردیش میں اقتدار حاصل کرلیا ہےاس کے باوجود وہاں لگا تار اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں۔حالانکہ یہ پارٹی مرکز میں بھی برسراقتدار ہے، اس کے باوجود نہ تو کوئی مؤثر قدم اٹھتا ہوا نظر آرہا ہے اور نہ ہی کہیں سے تیزوتند بیانات ہی آرہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو میڈیا ماضی کے واقعہ پر آسمان سرپر اٹھائے ہوئے تھا وہ اس بار بس جیسے تیسے خبر کی اشاعت پر ہی اکتفا کررہا ہے اور وہ بھی دل پر پتھر رکھ کر۔

پولس کی مستعدی بھی قابل دید ہے۔بلند شہر ہائی وے پر جیور کے سبوتا گاؤں کے قریب بدمعاشوں نے نہ صرف کارسے جیور سے بلندشہر جانے والے ایک ہی خاندان کے لوگوں سے ساتھ لوٹ پاٹ کی بلکہ کار میں سوار چار خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی بھی کی اور مزاحمت کرنے پر اس خاندان کے سربراہ شکیل کو گولی مار کرہلاک بھی کردیا۔مہلوک شکیل نےکار کے ٹائر پنچر ہونے پر اپنے بھائی کو01:30پر فون کر کے اس کی اطلاع دی تھی اور فوراً آنے کے لئے کہا تھا ۔ ابھی بات چل ہی رہی تھی کہ ان پر حملہ ہوگیا ، موبائل کے آن ہونے پر واقعہ کے بارے میں شکیل کے بھائی کواسی وقت معلوم ہوگیا اور اس نے وقت ضائع نہ کرتے ہوئے فوراً پولس کو اس کی اطلاع دے دی۔ اس کے مطابق اس نے پانچ منٹ کے اندر پولس کوواقعہ کی اطلاع دےدی تھی۔ جیور تھانہ سے جائے واقعہ کی دوری صرف پانچ کلو میڑ ہے لیکن حسب معمول پولس مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو گھنٹے کے بعد3:30پر وہاں پہنچی۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کے معاملات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔17؍مئی کویوپی کےہی ہردوئی ضلع میں پانچ لوگوں نے ایک لڑکی کو اس کے گھر سے اغوا کر کے اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی اوراس کے بعدنیم مردہ حالت میں اسے چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ یہ ریاست خواتین کے ساتھ زیادتی کے معاملہ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ سال گزشتہ اجتماعی زیادتی کے762واقعات درج کئے گئے۔ اس ریاست کے علاوہ ابھی چند روز پہلےہریانہ کے سونی پت کی 23 سالہ لڑکی کو اغوا کرکے اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔زیادتی کے بعد لڑکی کو قتل کر کے اس کی لاش کو پھینک دیا گیا۔ لاش کو کتوں نےکئی جگہوں سے نوچ ڈالا۔ یہ واقعات زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ خواتین کی خبرگیری، حسن سلوک اور احترام کی فکر ملک کے باہر ہی نہیں ملک کے اندر بھی حقیقی معنوں میں اسی قوت ارادی کے ساتھ پروان چڑھنی چاہئے ۔ اس لئے کہ اعداد وشمار اور رپورٹوں کے مطابق ہمارے ملک میں ہر بیس منٹ میں خواتین کے ساتھ زیادتی کا کم از کم ایک واقعہ پیش آتا ہے۔پھر بھارت کی بیٹی دیش سے باہر ہی نہیں دیش کے اندر بھی رہتی ہے اور وہ اس ملک کی آدھی آبادی ہے۔