خبر درخبر(515)
شمس تبریز قاسمی
میرٹھ کے لساڑی گیٹ کی رہنے والی ایک مسلم خاتون علاج کرانے کیلئے لکھنو جانا چاہتی ہیں ،وہ لکھنو چنڈی گڑھ ایکسپریس میں سوارہوتی ہیں ،راستے میں اس کی طبعیت بگڑتی جاتی ہے ،بجنورکے چاندپور اسٹیشن پر کمل شکلا نام کاایک ریلوے سپاہی اس کی مدد کی حامی بھرتاہے اور اسے سیٹ دینے کے نام پر وکلانگ کوچ میں لیکر جاتاہے ،وہاں پہونچنے کے بعد وہ سپاہی درندہ بن جاتاہے ،بندوق کی نوک پر تمام مرد مسافروں کو ہ کوچ چھوڑنے کا حکم دیتاہے ،دروازہ بند کرک حیوانیت کی تمام حدیں پاکرکے بیمار خاتون کے کی آبروریزی شروع کردیتاہے ،وہ بیمار خاتون چیختی ہیں ،چلاتی ہیں لیکن اس کی آواز بے اثر ثابت ہوتی ہے اور پولس کی وردی پہنا ہوا ملک کا محافظ چلتی ٹرین میں اس کی عزت لوٹنا شرو ع کردیتاہے ،بجنور اسٹیشن پہونچتے پہونچتے سپاہی کی درندگی سے بیمار خاتون کی عزت تارتار ہوجاتی ہے ،بجنور اسٹیشن پر خاتون کو نیم مردہ اور بیہوشی کی حالت میں اتارا جاتاہے ،عوام کمل شکلا پر بھڑکتی ہے ،موقع پر موجود پولس اس کو گرفتار کرکے تھانہ لے جاتی ہے ،لیکن تھانہ میں کمل شکلا کو سزا دینے ،اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے اس کی وی آئی پی ضیافت کی جاتی ہے ،کرسی میز لگا کر اسے شاندار کھانا کھلایا جاتاہے ،موقع پر موجود صحافی جب یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ ر یپ کا مجرم ہے تو جواب ملتاہے ابھی جرم ثابت نہیں ہواہے ، سوشل میڈیا پر جاری ہنگامہ آرائی اور عوامی مطالبہ کے بعد کمل شکلا کو آج معطل کردیاگیاہے ۔
دسمبر 2012 میں دہلی کی سرزمین پر چلتی بس میں ایک لڑکی کے ساتھ ریپ ہواتو پور دی دنیا میں ہلچل مچ گئی ،سرکار لرزدہ براندام ہوگئی ،دہلی سمیت پورے ہندوستان میں مہینوں احتجاج کا سلسلہ جاری رہا،ریپ کے مجرمین کیلئے ملک کا قانون تبدیل کیا گیا ،فاسٹ ٹریک عدالت کے ذریعہ نربھیا حادثہ کے مجرمین کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ۔
ایک میرٹھ کی اس خاتون کا واقعہ ہے جس کی عصمت چلتی ٹرین میں لوٹی گئی ہے ،بیماری کی حالت میں اس کے ساتھ ریپ کیا گیاہے اور یہ درندگی کسی عام آدمی نے نہیں ،کسی مجنوں اور اوباش نے نہیں بلکہ پولس وردی میں ملبوس ایک شخص نے کی ہے لیکن اسے کوئی خاص سزا نہیں ملی ہے ،مین اسٹریم میڈیا میں اس خبر کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ،کسی سیاست داں نے اس کی مذمت نہیں کی ہے ،یوپی اورمرکزی سرکار نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لی ہے آخر کیوں ؟ اور کون ہے اس کیلئے ذمہ دار ؟
اس کیلئے ذمہ دار ہم ہیں ،ہمارا سماج ہے ،ہماری سوسائٹی ہے ،ہماری چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں کیوں کہ ہم خاموش ہیں ،سڑکوں پر نکل کر ہم نے احتجاج نہیں کیاہے ،اپنی بہن کی حمایت میں ہم نے کوئی اقدام نہیں کیا ہے ،نربھیا حادثہ کے مجرمین کی پھانسی کا فیصلہ مہینوں کے احتجاج کے بعد ہواتھا ،مسلسل ہونے والے مظاہرے کے سامنے انتظامیہ ،مقننہ اور عدلیہ آئین تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی تھی ،ہم چاہتے ہیں کہ میرٹھ کی رہنے والی ہماری اس مسلم بہن کو انصاف ملے ،مجرم کیفرکردار تک پہونچے تو ہمیں سوشل میڈیا کے بجائے حقیقی دنیا میں قدم رکھنا ہوگا،سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا ہوگا ،عدلیہ کوظلم کی شکار خاتون سے آگاہ کراناہوگا ۔
چلتی ٹرین میں عصمت دری:مجرم ہم اور ہمارا سماج یہ مسئلہ سماج کا ہے ،کسی مذہب اور دھرم سے اس کا تعلق نہیں ہے اس لئے بغیر کسی مذہبی تفریق کے ہر کسی کو آگے آناہوگا ،ہندومسلم سمیت سبھی سماج کو مل کر اس درندگی کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی،عدلیہ اور انتظامیہ کو یکساں نگاہ سے دیکھنا ہوگا،ہر مجرم اور ریپسٹ کو ایک طرح کی سزا دینی ہوگی ،قانون اور آئین کا اطلاق یکساں طور پر کرنا ہوگا، مسلم خواتین کی عصمت تارتار کی جائے یا ہندو خواتین کی بہر صورت یہ ناقابل معافی جرم ہے ،زانی مسلمان ہو یا ہندو وہ قابل سزا ہے ، اس لئے عدلیہ سے لیکر انتظامیہ تک کو اس بارے میں بیدا ر کرنا ہوگا ،نربھیا کے مجرموں کی طرح ہر خاتون کی عصمت تارتار کرنے والوں کو تختہ دار پر لٹکا نا ہوگا ۔
اخیر کی سطروں میں کمل شکلا کی درندگی کو کیمرے میں قیدکرنے والے امیش کا تذکرہ ضروری ہے جس کی لی گئی تصویر نے پولس وردی میں چھپے درندے کے جرم کو واضح طور پر بے نقاب کیا ہے،امیش کا یہ مانناہے عصمت دری کا معاملہ ہندو اور مسلمان کا نہیں بلکہ سماج کا ہے ،اگر کسی مسلمان بہن کی آبروریزی کی جاسکتی ہے تو ہندوبہن کی ساتھ بھی یہ سب کیا جاسکتاہے ،عصمت عصمت ہے خواہ ہندو بہن کی ہو یامسلمان بہن کی ۔
stqasmi@gmail.com