امیدیں ٹوٹتی جارہی ہیں

محمد شاہنواز ناظمی
کئی دنوں تک تاملناڈو کے کسانوں نے جنتر منتر پر جمع ہوکر اپنی پریشانی حکومت کے سامنے رکھی ،ان کسانوں کے مظاہرے میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا رہا ، لیکن کسان اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے ،آخر میں یقین دہانی کا سہرا اپنے سر باندھ کر گھر کو لوٹ چلے ۔مجھے جہاں تک لگتا ہے کے کسانوں کو ان کے تحریک کا بس ایک ہی فائدہ مل پاتا ہے کے امید کی رسی کو اور مظبوط کرلیں۔اور اسی امیدو یقین کے درمیان اپنی زندگی جیتےر ہیں۔ اے کاش کے اگر ہمارے پاس کچھ اعداد و شمار ہوتے جن سے ہمیں یہ معلوم ہو جاتا کے کسانوں نے اتنے مظاہرے کئے اور اتنے میں کامیاب رہے لیکن ایسا سراغ نکالنا ذرا مشکل ہے ۔کل ہی کی بات ہے کے مدھیہ پردیش میں کسانوں پر گولی چلائی گئی جس میں اب تک پانچ کی موت ہوچکی ہے اور کئی زخمی ہیں اب بات آتی ہے کے ان پر گولی کیوں چلائی گئی تو بتا دوں کے مدھیہ پردیش میں کسانوں نے ایک بار پھر مظاہرہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ان کی مانگ بس اتنی ہے کے قرض معاف ہوجائے ، پیداوار کی مناسب قیمت ملے جائے، اسی کو لیکر کئی جگہوں پر کسانوں نےاناج لے جارہے ٹرکوں کو بازار جانے سے روک دیا، بس اتنی سی بات نے کیا رخ اپنایا دیکھتے ہی دیکھتے کسانوں اور پولیس کے مابین رساکشی کا ماحول بن گیا اور پولیس نے کسانوں پر بے سوچے سمجھے اپنی بندوق تان لی اور گولی چلا دی جس سے کئی بے کس کسانوں نے اپنی جان جان آفریں کے حوالے کردیا اور بہت سارے افراد زخمی حالت میں اسپتال پہونچائے گئے۔معاملہ اتنا سنگین رخ اپنا چکا ہے لیکن وہاں کے وزیر اعلی کا کہنا ہے کے کسان کی موت پولیس اور وہاں پر تعینات آر پی ایس کے نجوانوں کے گولی سے نہیں ہوئی ہےوزیر اعلی ہٹ دھرمی اور اپنی پرکھوں کے ورثہ کو باقی رکھنےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔وزیر اعلی صاحب اپنے اپنے بچاؤ کے لئے دلیل یہ پیش کرتے ہیں اور برملا کہہ جاتے ہیں کے مندسور اور نمیچ میں (یہ علاقہ کے نام ہیں) کچھ دنوں سے کچھ بدمعاش لوگ کسانوں کی آڑ میں لوٹ مار کررہے تھے اس کو ہوا دینے کے لئے بہت سی گاڑ ی میں آگ لگاچکے تھے،لیکن اس کے باوجود سرکار نےحکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھاکے کسانوں پر کوئی کاروائی نہ کی جائے بلکہ اس کو نرمی سے حل کرنے کی کوشش کی جانے چاہئے۔لکین لگاتار اینٹی سوشل الیمینٹ کے جانب سے پولیس پر حملے ہورہے تھے اور پانی سر کے اوپر ہوچلا تھا ۔ تب جاکر ہم نے تغلقی فارمان جاری کردیا کے اگر کسانوں کے آڑ میں کچھ بدمعاش پولیس پر حملہ آور ہورہے ہیں تو ان بدمعاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے ان پر گولی چلادواور اسے ہندوستان کی مٹی پلید کرنے نہ دو ۔ جہاں تک میرا خیال ہے کے کسانوں کے آڑ میں کوئی غنڈا گردی نہیں ہورہی تھی اور اگر مانے بھی لیا جائے کے کچھ اوباش قسم کے لوگ ناجائز فائدہ اٹھا رہے تھےتو کیا وزیر اعلی کو حکم نامہ جاری کرنے سے پہلے یہ نہیں سوچنا چاہئے تھا کے ایک کی وجہ سے کئی کسانوں کی جان جاسکتی ہے لیکن ان کو غریبو ں کے بارے میں سوچنے کا وقت ملے تب نہ ؟صرف اپنے بچاؤ کے لئے میڈیا کے سامنے بیان دے دیا اور آج کل تو میڈیا بھی نہایت حق گوئی سے کام لے رہی ہے اسی میں مرچ مصالہ ملا کر عوام کے سامنے پیش کردیتی ہے اور عوام بے چاری یہ تصور کر بیٹھتی ہے کے چلو کوئی نہیں غلطی سے ہمارے بھائیوں پر گولی چل گئی حالاں کہ ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ یہ امیر لوگ ایک غریب کی آوز دبانے کا اسی طرح سے حربہ استعمال کرتے آرہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

دوسری باتوں کی طرف نہ جاتے ہوئے اور اپنی باتوں کو طول نہ دیتے ہوئے اصل مقصود کی طرف آتا ہوں ۔ کہ کسانوں نے نہ تو کوئی حکومت طلب کی ہے اور نہ کوئی اتنی بڑی بات کی ہے جس کو پورا نہ کیا جا سکتا تھا انہوں نے تو صرف دو ہی چیزوں کے بارے میں سوال کیا ہے کے چاہے وہ ماہرسٹر کے کسان ہوں یا مدھیہ پردیش کے ان کی مانگ بس اتنی سی ہے کے پیداوارکی صحیح رقم مل جائے اور قرض کو معاف کردیا جائے ۔بی جے پی نے لوک سبھا چناؤ سے قبل کسانوں سے یہ وعدہ کیا تھا کے ہماری سرکار میں ایسا قدم اٹھایا جائے گا جس سے غریبوں اور کسانوں کو فائدہ ہوگا۔

ماہرسٹر اور مدھیہ پردیش کے کسان انہی باتوں کی مانگ کررہے ہیں کے ہمارے وعدے کو پورا کیا جائے اور ہمیں اورکچھ نہیں چاہئے۔اور وہ اپنی مانگ کیوں نہ کریں جبکہ 28مئی کو بی جے پی کے صدر امت شاہ نے پی ٹی آئ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کے کوئی بھی حکومت سوامی ناتھ کے فرمولے کے مطابق نہیں چل سکتی ۔ امت شاہ اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انہوں نے مزید آگے بڑھ کر کہا کے مودی حکومت کسانوں کو ان کی لاگت سے 43 فیصد اضافہ کر کے دیا ہے ۔اب مجھے یہ نہیں سمجھ میں آرہا ہے کے کیا یہ بات کسانوں کو معلوم بھی ہے ۔کیا یہ دعوی 100 فیصد درست ہے دیکھنے میں ایسا تو کچھ نہیں آرہا اگر ایسا ہی ہوتا تو پھر کسان مظاہرہ کرنے کے لئے میدان میں کیوں اترتے اپنی جانیں کیوں گنواتے کسانوں کا اپنی مانگ پوری کرنے کے لئے سڑکوں پر آنے سے یہی پتا چلتا ہے کے ان کی کچھ بھی مانگ پور نہیں کی گئی ۔۔۔۔۔ مودی حکومت کی طرف سے یہ بھی بات پھیلائی جارہی ہے کے 2022تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کردی جائے گی چلئے دیکھتے ہیں کتنی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں ابھی تو ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں ہے کے کسان کی آمدنی فی الحال کتنی ہے کے اس اعداد وشمارسے پتایا لگیا جاسکتا تھا کے کتنی اور کتنی بڑھے گی۔مجھے تو صاف طور سے دکھائی دے رہا ہے کے یہ کوئی نہ کوئی پھر امید کے کانٹے ہیں جو غریب کسانوں کی طرف پھینکا گیا ہے تاکہ ان کے ذریعے ایک بار پھر کسان ان امید کے کانٹے میں پھنس جائیں اوراکثر دیکھنے میں آیا ہے کے بے چاری عوام ناسمجھ مچھلی کی طرح ان میں پھنس بھی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ اپنے اشارے پر ناچتے ہیں اور امید پر امید دلا کر اسے خوش رکھتے ہیں ۔

میری حکومت سے سوال کرتا ہوں کہ یہ بات کر کے آپ اپنے زبان پر قفل کیوں ڈال لئے خاموش کیوں ہیں جواب کیوں نہیں دیتے ابھی آپ ہی کے حکومت میں کئی بے قصور کسانوں کی جان لے لی گئی آپ کہاں ہیں آپ سو تو نہیں رہے ہیں اگر سو رہے ہیں تو خدا را جاگئے اور دیکھئے کے آپ کے عوام کے ساتھ کس طرح کا کھیل کھیلا جارہا ہے یا آپ بھی اسی کی جماعت میں شامل ہیں جو یہ کھیل کھیل رہے ہیں مجھے ایسے موقعے پر غالب کا ایک شعر یا د آگیا سوچتا ہوں ناظرین کی خدمت میں پیش کرد یہ شعر بالکل اس تجزیہ پر ثابت آتی ہے

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں