جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن کٹھیلا کے قابل فخر استاد شیخ الحدیث حضرت مولانا صلاح الدین صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ
عامر ظفر قاسمی کٹھیلا مدھوبنی خادم معہدالطیب نبی کریم، نئی دہلی
آئین الٰہی کے ماتحت قدرت کے نوشتے پورے ہوکر رہتے ہیں اور انسان چاہے کس قدر بلند مرتبہ ہو آخر فانی ہے
ہرآنکہ زاد نباچاربایدش
زجام وہرمئے کل من علیہافان
یہ عجیب بات ہے کہ باری تعالٰی کے وجود کے منکر بہت ہوئے لیکن موت کی حقیقت سے انکار کرنے والا کوئی نہی ہردہریہ موت کا معترف نظرآتاہے بھلا اس سے کہاں فرار؟کرہ ارض پر موت وحیات ایک آسمانی نظام ہے موت تو بہرحال آنی ہے موت کے نام سے منسوب یہ آسمانی نظام کبھی کبھی ایسا اجتماعی صدمہ لیکر آتا ہے جسکی دھمک ہرذی حس انسان محسوس کرتا ہے صدمہ کا یہ اجتماعی احساس ہر روز نہیں ہوتا جب ایسی شخصیت دنیا سے رخصت ہوتی ہے جسکی پسندیدگی کی منادی خود خالق کائنات کرچکا ہوتا ہے 11رمضان المبارک کواس نیلے آسمان نے ایساہی کربناک نظارہ دیکھا کہ بےشمار آنکھیں اشکبار قلوب لرزیدہ لرزیدہ اور ایک خلقت ماتم کناں
ویراں ہے مئے کدہ خم و ساغراداس ہے
تم کیا گئے روٹھ گئے دن بہارکے
مطالعہ کاذوق آپ کی فطرت تہی درس میں ایساسہل انداز اختیار فرماتے تھے کہ کند سے کند لڑکے کو آپ کی بات سمجھ میں آجاتی تہی مناسب اور دھیمے لب و لہجے میں آپکی تقریر طالب علم کیلئے نہایت بصیرت افروز ثابت ہوتی تھی طلبہ کو نصیحت فرماتے تو ارشاد فرماتے جب تک اساتذہ کا ادب واحترام انکی خدمت اور مدرسہ سے محبت نہ ہو گی علم سے محرومی رہے گی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے یہ التزام فرماتے تھے کہ گھنٹہ شروع ہوتے ہی درسگاہ میں تشریف لاتے اورختم ہوتے ہی موقوف فرمادیتے سبق پورے گھنٹے پڑھاتے تھے دوران درس مولانا طلبہ کے سوالات کا تشفی بخش جواب دیتے
آپکی وفات حسرت آیات بڑاہی دل گداز اور صبرآزما تھا وہ لمحہ جب 11رمضان المبارک کوسورج طلوع ہونے سے پہلے میری چھوٹی ہمشیرہ عالمہ ظاہرہ انجم نے خبر دی کہ حضرت مولانا صلاح الدین صاحب قاسمی شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ فیضان القرآن کٹھیلا احمد آباد میں مالک حقیقی سے جا ملے بس اتنا سننا تھا کہ چاروں طرف اندھیرا چھا گیا، ہوائیں رک گئی نیند اڑ گئی اور انسانوں کاایک سمندر موجیں مارتا ہوا حضرت کے گھر کی طرف بہنے لگا، بےقرار لوگوں ایک ہجوم تھا جو حضرت کے دولت کدہ پرجمع تھا، بقدر نسبت ہرشخص متاثر تھا، بعض لوگ زاروقطار رورہے تھے، بعض سسکیاں بھر رہے تھے، بعض تصویر غم سے خاموش تھے ہرشخص کی خوائش اور تمنا تھی کہ حضرت کی زیارت کرے جسدخاکی کو احمد آباد سے بذریعہ ایمبولینس اپنے آبائی وطن مدھوبنی کی مشہور بستی کٹھیلا میں لاگئ چنانچہ انتظام کیا گیا زیارت کرائی گئی (ایک سورج تھاکہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیراں ہے کیاشخص تھا زمانے سے گیا)آپ کے 4فرزند ہیں 1 مولانااسامہ سیفی قاسمی استادحدیث وفقہ مدرسہ شمس العلوم شاهدره
2افتخارالامین عرف شامی 3روح الامین عرف جامی 4محمدکیفی۔
اور آپکی 7سات صاحبزادی ہیں جن میں سے ایک صاحبزادے اور ایک صاحبزادی رشتہ ازدواج سےمنسلک ہے الحمدللہ آپکی 11اولادابہی باحیات ہے چنانچہ حضرت کی زندگی کا سفر11رمضان المبارک 1438ھجری بمطابق 7 جون بروز بدھ کوہوا
وہ صورتاں الہی کس دیس بستیاں ہیں
اب جنکو دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں
تقریبا اس بائیس تئیس سالہ تدریسی دور میں آپ نے نہ جانے کتنے ہزار طلبہ کو سیراب کیا ہوگا اور کتنے ہزار طلبہ نے اپنی پیاس بجھائ ہوگی ان تمام کو شمار کرنا ناممکن نہی دشوار ضرور ہے
استاد مکرم کے صاحبزادے راقم الحروف رفیق درس مولانا اسامہ سیفی قاسمی وہ جملہ پسماندگان اور متوسلین کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہیں اور بارگاہ رب العالمین سے دعا کرتے ہیں اللہ تبارک وتعالٰی آپ کی قبر پر کڑورں رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کو جنت الفردوس میں اعلٰی علین میں جگہ عطا فرمائے آمین
قدمات قوم وماماتت مکارھم
وعاش قوم وھم فی الناس اموات
******
9582226515