اعتکاف : یہی وہ در ہے جہاں آبرو نہیں جاتی

خورشید عالم داؤد قاسمی

تمہید:
اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بندوں کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینے سے نواز کر، موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ عبادت کے ذریعے اپنے رب کا مطیع و فرمانبردار بن جائے، اپنے رب سے وابستہ ہوجائے، اپنے رب سے مغفرت کی درخواست کرے اور خود کو جہنم کی آگ سے آزاد کرالے؛ چناں چہ رمضان کے مہینے کا ہر لمحہ مسلمانوں کے لیے مبارک اور قیمتی وقت ہے۔ ماہ رمضان میں ایک سنت کا ثواب، غیر رمضان کےایک فرض کے برابر ہے؛ جب کہ ایک فرض کا ثواب، رمضان کے علاوہ کے 70/فرضوں کے برابر ہے۔ رمضان ہی کی مبارک راتوں میں، تراویح جیسی عبادت کا سنہرا موقع ملتا ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیےرمضان کے پہلے دس دنوں کو رحمت کا عشرہ بنایا ہے، دوسرے دس دنوں کو مغفرت کا عشرہ اور تیسرے دس دنوں کو جہنم کی آگ سے چھٹکارے کا عشرہ بنایا ہے۔ اسی اخیر عشرہ میں، ہزار مہینوں سے بہتر رات ” لیلۃ القدر ” ہوتی ہے۔ اسی آخری کے دس دنوں میں اعتکاف جیسی اہم عبادت بھی ہے، جس کے مقاصد میں یہ ہے کہ مسلمان اعتکاف کرکے “لیلۃ القدر” کی فضیلت کو حاصل کرنےکی حتی المقدور کوشش کرے، فرشتہ جیسی معصوم مخلوق کے مشابہ بنانے کی کوشش کرے اور اللہ کی قربت حاصل کرے۔ اس مختصرمضمون میں اعتکاف کی تعریف، احکام، فضائل و مسائل وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اعتکاف کی تعریف:
“اعتکاف” عربی زبان کا ایک لفظ ہےجس کے معنی ٹھہرنے اور اپنے آپ کو روک لینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں، مسجد کے اندر ( اعتکاف کی) نیت کے ساتھ، اپنے آپ کو مخصوص چیزوں سے روک رکھنے کا نام ہے۔ (قاموس الفقہ 2/170)

اعتکاف کی قسمیں:
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: (1) واجب، (2) سنت مؤکدہ علی الکفایہ اور (3) مستحب۔
واجب: واجب اعتکاف کی دوقسمیں ہیں: (1) کوئی شخص کسی شرط کے ساتھ منت مانے کہ اگر اس کا فلاں کام ہوجائے؛ تو وہ اس کا کی تکمیل پر اعتکاف کرے گا؛ تو اب اس کام کی تکمیل پر، اس کے لیے اعتکاف کرنا واجب ہوگا۔ اس منت کو فقہ کی اصطلاح میں “نذر معیّن” کہتے ہیں۔ (2) کوئی شخص مطلقا یعنی بغیر کسی شرط کے اعتکاف کرنے کی منت مانے، مثلا یوں کہےکہ وہ فلاں دن کا اعتکاف اپنے اوپر لازم کرتا ہے، یا فلاں دن اعتکاف کرنے کی منت مانتا ہے؛ تو اس صورت میں بھی اس پر اعتکاف واجب ہوجائے گا۔ اس طرح کی منت کو فقہ کی اصطلاح میں “نذر مطلق” کہتے ہیں۔ واجب اعتکاف کم از کم ایک دن اور ایک رات کا ہوگا، اس کے لیے روزہ رکھنا بھی شرط ہے۔ بغیر روزہ کے واجب اعتکاف ادا نہیں ہوگا۔

سنت مؤکدہ علی الکفایہ: رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف کو فقہاء احناف “سنت مؤکدہ علی الکفایہ” کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی محلہ یا گاؤں کی مسجد میں، رمضان کے آخری عشرہ کا ایک شخص بھی اعتکاف کرلے؛ تو سنت ادا ہوجائے گی اور اس محلہ یا گاؤں کا کوئی بھی شخص گنہگار نہیں ہوگا اور اگر ایک شخص نے بھی اعتکاف نہیں کیا؛ تو پورے محلہ اورگاؤں کے لوگ اس سنت کے چھوڑنے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے۔

سنت مؤکدہ علی الکفایہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے۔ جو شخص اس اعتکاف کو کرنا چاہتا ہے، وہ بیسویں رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے، اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور عید (شوال) کا چاند نکلنے تک مسجد میں معتکف رہے۔ اب چاہے عید کا چاند انتیس کا ہو یا تیس کا، اعتکاف مکمل ہوگیا۔

مستحب یا نفل: مستحب یا نفل اعتکاف یہ ہے کہ اس کی نیت کرکے، آدمی چاہے تو ایک ہی منٹ کے لیے مسجد میں چلا جائے، مستحب اعتکاف ہوجائے گا۔ مستحب اعتکاف کےلیے روزے اور وقت وغیرہ کی شرط نہیں ہے۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ جب بھی مسجدمیں داخل ہو؛ تو داخل ہوتے وقت، اعتکاف کی نیت کرلے اور جب تک مسجد میں رہے،لغوباتوں سے پرہیز کرے اور تلاوت، اذکار یا پھر نفل نماز وغیرہ میں مشغول رہے؛یہ نفل اعتکاف شمار ہوگا۔

اعتکاف کی حکمت:
شریعت میں جس عبادت کے بھی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یا پھر جس عبادت کے کرنے پر حوصلہ افزائی کی گئی ہے؛ اس میں حکیم و خبیر پروردگار نےبڑی حکمت ودانائی بھی رکھی ہے۔اعتکاف بھی ایک قسم کی عبادت ہے۔ اعتکاف کی حکمت یہ ہے کہ معتكِف (اعتکاف کرنے والا) نماز باجماعت کا انتظار کرے، خود کو فرشتوں کے مشابہ بنانے کی کوشش کرے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرے۔

“اعتکاف میں معتكِف اللہ کے تقرب کی طلب میں، اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ تعالی کی عبادت کے سپرد کردیتا ہےاور نفس کو اس دنیا کے مشاغل سے دور رکھتا ہے، جو اللہ کے اس تقرب سے مانع ہےجسے بندہ طلب کرتا ہے،اور اس میں معتكِف اپنے پورے اوقات میں حقیقتا یا حکما نماز میں مصروف رہتا ہے؛ اس لیے کہ اعتکاف کی مشروعیت کا اصل مقصدنماز باجماعت کا انتظار کرنا ہےاور معتكِف اپنے آپ کوان فرشتوں کے مشابہ بناتا ہے،جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے، انھیں جو حکم ہوتا ہے وہی کرتے ہیں اور رات ودن تسبیح پڑھتے ہیں، کوتاہی نہیں کرتے۔” (موسوعہ فقہیہ 5/310)

اعتکاف کرنے کی جگہ:
مردوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرے۔ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہوں پر مردوں کا اعتکاف درست نہیں ہوگا۔ معتكِف کے لیےمساجد میں افضل مسجد: مسجد حرام، پھر مسجد نبوی، پھر مسجد اقصی (فلسطین)، پھر ان کے شہر کی جامع مسجد،پھر محلہ کی مسجد جہاں پنج وقتہ جماعت کا انتظام ہو یعنی وہ مسجد جس میں امام اور موذن ہو۔ خاتون اگر شادی شدہ ہو؛ تو اپنے شوہر کی اجازت کے بعد، اپنے گھر میں جس جگہ روزانہ نماز پڑھتی ہے، اسی جگہ پر اعتکاف کرے۔ اگر روزانہ ایک معین جگہ پر نماز ادا نہ کرتی ہو؛ تو وہ عارضی طور پر،ایک جگہ متعین کرلے اور اسی جگہ پر اعتکاف،نماز، تلاوت اور تسبیح واذکار کرے۔

اعتکاف کی بھی قضا ہے:
اگر کوئی شخص واجب اعتکاف میں تھا اور اعتکاف کسی وجہ سےٹوٹ گیا؛ تو اسے اس اعتکاف کی قضا کرنا ضروری ہے۔ قضا میں از سر نو ان تمام ایام کی قضا کرنی ہوگی، جتنے دنوں کی منت اس شخص نے مان رکھی تھی؛ کیوں کہ اس میں تسلسل ضروری ہے۔اگر کوئی شخص رمضان کے آخری عشرہ میں، سنت اعتکاف میں تھا اور اعتکاف کسی وجہ سے ٹوٹ گیا؛ توصرف اس ایک دن کی قضا کرے، جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے۔ مگر احتیاط اس میں ہے کہ مکمل دس دن کی قضا کرلے۔ سنت اعتکاف ٹوٹ جانے کے بعد، باقی دنوں کا اعتکاف نفل شمار ہوگا۔ واضح رہے کہ نفل اعتکاف مسجد سے نکلتے ہی ختم ہوجاتا ہے، وہ ٹوٹتا نہیں؛ اس لیے اس کی قضاوغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں۔

اعتکاف کے فضائل:
اعتکاف کے فضائل اور اجر وثواب بہت ہی زیادہ ہیں۔ رمضان کے آخری عشرہ میں سنت اعتکاف ہوتا ہے۔ آخری عشرہ میں اعتکاف کے فضائل وبرکات اس سے سمجھے جاسکتے ہیں کہ نبی –صلی اللہ علیہ وسلم– مدینہ منورہ آمد کے بعد، ایک سال کے علاوہ، ہر سال بڑی پابندی سے رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔

عبد اللہ بن عمر –رضی اللہ عنہما– فرماتے ہیں: “كَانَ رَسُولُ اللّهِ –صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ– يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ”. (صحیح بخاری، حدیث: 2025) یعنی رسول اللہ– صلی اللہ علیہ وسلم– رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔

رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے فرمایا: “مَنِ اعْتَكَفَ عَشْرًا فِي رَمَضَانَ كَانَ كَحَجَّتَيْنِ وَعُمْرَتَيْنِ”. (شعب الایمان 5/436، حدیث: 3680) ترجمہ: جو شخص رمضان کے دس دنوں کا اعتکاف کرتا ہے، تو (اس کا یہ عمل) دو حج اور دو عمرے کی طرح ہے (یعنی اسے دو حج اور دو عمرے کا ثواب ملے گا)۔

رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے فرمایا: “مَن اعْتكَفَ إِيمَانًا واحْتسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقدمَ مِن ذَنبِه”. (فیض القدیر 6/74) ترجمہ: جو شخص ایمان کی حالت میں، ثواب کی امید کرتے ہوئے اعتکاف کرتا ہے، اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ معتكِف جب تک اعتکاف میں رہتا ہے، مسجد میں ہونے کی وجہ سے بہت سے گناہوں سے بچا رہتا، جن کو وہ باہر رہ کر، کرسکتا تھا اور وہ اعمال جسے وہ مسجد سے باہر رہ کر کرتا تھا، جیسے: مریض کی عیادت اور جنازہ کی نماز میں شرکت، مگر اب اعتکاف کی وجہ سے نہیں کرسکتا؛ تو اس کے نہ کرنے پر بھی معتکف کو اس کا پورا ثواب ملےگا۔ حدیث ملاحظہ فرمائے:
رَسُولَ اللّهِ –صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ– قَالَ فِي الْمُعْتَكِفِ: “هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ، وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا”. (ابن ماجہ، حدیث: 1781) رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم– نے معتكِف کے سلسلے میں فرمایا: “وہ گناہوں سے رکا رہتا ہے اور ان کی تمام نیکیاں ایسے ہی جاری رہتی ہیں، جیسے وہ ان ساری نیکیوں کو کررہا ہے”۔

اعتکاف سے متعلق چند ضروری مسائل:
(1) اعتکاف کرنے والا طبعی اور شرعی ضروریات کے بغیر، ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ جائے؛ کیوں کہ اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (2) معتكِف کے لیے مسجد میں کھانا پینا اور سونا جائز ہے۔ (3) اگر معتكِف نے جان کر کچھ کھا پی لیا؛ تو اس کا روزہ کے ساتھ اعتکاف بھی ٹوٹ جائے اور اعتکاف کی قضا ضروری ہوگی۔ (4) اگر شوہر نے بیوی کو اعتکاف کی اجازت دیدی ہے؛ تو جب تک بیوی اعتکاف میں ہے،خاوند اس کے ساتھ جماع نہیں کرسکتا ہے۔ (5) معتكِف کا طبعی ضرورت ـــــ جیسے: پیشاب، پاخانہ، غسلِ جنابت، اگر کوئی کھانا لانے والا نہ ہو تو کھانے لانے ـــــ کے لیے مسجد سے باہر نکلنا جائز ہے۔ مگر ضرورت سے زیادہ وقت مسجد سے باہر نہ ٹھہرے اور جاتے اور آتے وقت راستہ میں ٹھہر کر کسی سے بات چیت بھی نہ کرے۔ (6) معتكِف ایسی مسجد میں اعتکاف کررہا ہے، جس میں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی؛ تو جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے جانے کی اجازت ہے۔ مگر اس جامع مسجد میں “تحیۃ المسجد، جمعہ سے پہلے کی سنت نماز، خطبہ، نمازِجمعہ اور بعد کی سنت نماز” کے بقدر ہی ٹھہرنا جائز ہے۔ اس سے زیادہ وقت ٹھہرنا درست نہیں۔ اگر معتكِف اذان پکارنے کے لیے مسجد سے باہر نکلتا ہے؛ تو یہ بھی درست ہے۔ یہ سب “شرعی ضروریات” میں شمار ہوں گے۔ (7) طبعی اور شرعی ضروریات کےلیے اگر معتكِف مسجد سےباہر نکلے اور راستے پر کوئی بیمار مل جائے، تو چلتے ہوئے بیمار پرسی کرسکتا ہے۔ اسی طرح راستے پر چلتے ہوئے،کسی سے علیک سلیک اورحال دریافت کرنا چاہے؛ توکرسکتا ہے۔ (8) اعتکاف کے لیے خاتون کاحیض یا نفاس سے پاک ہونا ضروری ہے، حیض یا نفاس کی حالت میں اعتکاف درست نہیں ہوگا۔ اگر اعتکاف کی حالت میں حیض آگیا؛ تو اعتکاف ٹوٹ کیا۔ حیض کے ختم ہونے کے بعد، ایک دن کے اعتکاف کی قضا کرلے۔

خاتمہ:
جو شخص اعتکاف کی نیت سے خانۂ خدا میں ہےمقیم ہے، اسے چاہیے کہ اپنے قیمتی اوقات کو ضائع نہ کرے۔ معتكِف کو چاہیے کہ تلاوتِ قرآن کریم، نفل نمازوں، تسبیح وتہلیل، استغفار اور کتب دینیہ کے مطالعہ میں مشغول رہے۔ معتكِف کثرت سے درود شریف پڑھے اور رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم – کو درود وسلام کا تحفہ بھیجتا رہے۔ اگر مسجد میں تعلیم وتعلم یا پھر وعظ ونصیحت یا درس وتدریس کی مجلس لگی ہواور اس میں بھی شرکت کرنا چاہتا ہے؛ تو کرسکتا ہے۔ معتكِف رات میں عبادت میں مشغول رہ کر”لیلۃ القدر” کی فضیلت حاصل کرنے کو جد وجہد کرے۔مختصر یہ کہ جب تک معتكِف مسجد میں ہے، ہر طرح سے خود کو اللہ تعالی کی ذات سے، وابستہ کرنے کی سعی بلیغ کرے اور جو کچھ بھی مانگنا ہو، اس پاک ذات کے سامنے اپنے ہاتھ پھیلا کر مانگ لے اور اپنے ضروریات کی تکمیل کی درخواست پیش کرے۔ اللہ تعالی تعالی کےسامنے ہاتھ پھیلانے والا کبھی رسوا نہیں ہوتا اور پھیلنے والا ہاتھ بھی کبھی ناکام ونامراد نہیں لوٹتا؛ بل کہ اللہ تعالی ہاتھ پھیلانے والے کو سرخرو رکھتا ہے، اس کی دعاؤں کو قبول فرماکر، اس کی ضروریات کو غیب سے پوری فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی کو شرم آتی ہے کہ ان کا بندہ ان کے سامنے اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر، خیر کا سوال کرے، پھر اللہ تعالی ان ہاتھوں کو ناکام اور خالی لوٹا دیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: “إِنَّ اللَّهَ يَسْتَحْيِي أَنْ يَبْسُطَ إِلَيْهِ عَبْدُهُ يَدَيْهِ يَسْأَلُهُ بِهِمَا خَيْرًا فَيَرُدَّهُمَا خَائِبَتَيْنِ”. (مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث: 29555) اکبر الہ آبادی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا: ؎
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے جہاں ….. آبرو نہیں جاتی