بچوں کا ادب آؤ عید منائیں

ٹی این بھارتی

اللہ اکبر، ا للہ اکبر، لاالہ الااللہ، ادھر موذن نے مغرب کی اذا ن دی اُدھر بچوں نے شوروغل شروع کردیا ۔ چلو چلو چاند دیکھنے چلتے ہیں چلو جلدی کرو مدیحہ نے اپنے بہن بھائیوں اور اڑوس پڑوس کے بچوں کو بآواز بلند پکارا ۔مریم شمیسہ ،عائشہ عنعم، غازی سائم عباس باسق، عارج خسرو، سکینہ سب چلو عید کا چاند دیکھنے چلتے ہیں ۔ چلو چلو مسجد نواب والی میں چاند دیکھنے چلتے ہیں ۔ بڑا مزہ آئے گا۔ مریم نے چلاتے ہوئے کہا مدیحہ رک جاؤ ہم سب آرہے ہیں ۔ ارے بھئی جلدی چلو۔ امی جان ہم عید کا چاند دیکھنے جارہے ہیں سب بچوں نے مل کہا تو سیدہ نے نہایت شفقت سے بچوں کو باہر بھیج دیا ارے غازی رکو ذرا میں اپنی دوستوں کو بھی بلا لوں۔ رادھا ،جیکلن اور گرپریت میری اچھی دوست ہیں ۔ ہاں مدیحہ میں بھی اپنے دوستوں کو بلا لیتا ہوں۔ جوزف کرشنا، اور بل جیت سنگھ بس میرے بھی یہ تینوں خاص دوست ہیں ۔ ہاں غازی دوستوں کے ساتھ چاند دیکھنے میں بڑا مزہ آئے گا۔ دیکھو مدیحہ ، عائشہ عنعم، دیکھو چاند نظرآگےا۔ ارے بھائی کہاں ہے چاند؟ مجھے نظر نہیں آرہاہے۔ کدھرہے چاند؟ مریم وہ دیکھو سر اونچا کرو بادلوں کے پیچھے دیکھو ۔ہاں ہاں!! مجھے بھی نظر آگیا چاند!! غازی نے چلاتے ہوئے کہا تو عباس اور صائم مسجد میں رکھی تپائی پر چڑھتے ہوئے بولے ہم نے بھی چاند دیکھ لیا ۔ چاند نظر آگیا ۔ عید کا چاند نظر آگیا ۔سب بچے مسجد سے باہرنکلے اور گھرمیں داخل ہوتے ہی گانا شروع کردےا۔
آہاآہا کل عید ہے
چاند نظر آگیا
عید گاہ جائیں گے
ڈھیر کھلونے لائیں گے
دودھ سویاں کھائیں گے
ہم تو عید منائیں گے
ہم تو عید منائیں گے
ہم تو عید منائیں گے
امی جان السلام علیکم !
عید کا چاند مبارک ہو امی جان! سکینہ مریم ،شمیسہ، مدیحہ اور غازی نے نہایت خوشی سے چاند کی مبارکبادی دی تو باسق عباس صائم عارج بھی قدرے خوشی کا اظہارکرتے ہوئے اپنے ابوجان کے گلے لگ گئے۔ ابوجان عید کا چاند مبارک۔ کل عید ہے۔ سلامت رہو میرے راج دلاروں! اللہ تمہیں خوش رکھے۔ سیدہ اور حیدر نے بچوں کو دعائیں دیں اللہ تمہیں نیک بنائے خوب نام روشن کرو۔ زندگی کی تمام خوشیاں تمہیں نصیب ہوں۔ والدےن کی دعائیں لے کر بچوں نے ضدی انداز میں سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ مدیحہ نے مچلتے ہوئے پوچھا امی جان ہمیں عید کے بارے میں کچھ بتائیں ۔ غازی عباس باسق اور صائم نے مدیحہ کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا امی جان بتائے ہم عید کیوں مناتے ہیں ؟ مریم شمسیہ عائشہ نے ضد پکڑتے ہوئے کہا ابھی بتائیے ۔ ہم عید کیوں مناتے ہیں ۔ افوہ! بچوں آج چاند رات ہے مجھے بہت سے کام کرنے ہیں لڑکیوں کے لئے مہندی تیار کرنی ہے تم سب کے دوپٹے پر گوٹہ کناری ٹانکنا ہے۔غازی عباس کی شیروانی میں بٹن لگانے ہیں چلو تم باہر جاکر کھیلو ۔نہیں امی جان ہمیں ابھی بتائیے ۔ ارے بابا ضدنہ کر۔ اچھا ایسا کرو آج تم سب حویلی کے پیچھے والے کمرے میں اپنی دادی جان کے پاس جاکر عید کی معلومات حاصل کرو۔ میں باورچی خانے میں جاتی ہوں اچھا امی جان تو یہ بتا دیجئے کہ کل عید پر کون کون سے لذیذ کھانے پکائیں گی؟عارج خسرو نے ضد کی تو سیدہ نے بچوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔ شیر۔سوئیاں ، چکن بریانی ،قورمہ، شامی کباب، دہی بڑے، گول گپے ، چھولے آلو پنیر کی ٹکی ، کاجو بادام کا شربت وغیرہ وغیرہ ۔ سب بچوں نے چہکتے ہوئے کہا بھئی واہ مزہ آگیا ۔ لڑکیاں قدرے خوش ہوکر بولیں امی جان ہمیں تو ڈھیر سارے، دہی بڑے اور گول گپے کھانے ہیں چلو اب تم سب رفو چکر ہوجاؤ اپنے سبھی دوستوں کوبھی لے جاؤ ۔ اچھا امی جان ٹھیک ہے ہم سب دادی جان کے کمرے میں جارہے ہیں ۔
دادی جان السلام علیکم ! عید کا چاند مبارک ہو۔ ارے ارے یہ بچوں کی فوج آج میرے کمرے میں کیسے؟
سکینہ مریم نے دادی جان کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔ دادی جان ہمیں عید کی کہانی سنائیے ۔ مدیحہ غازی اور عباس نے بھی گاتے ہوئے کہا ہاں ہاں دادی جان ہمیں رمضان اور عید کے بارے میں تفصیل سے بتائیے ۔ یہ سب ہمارے دوست بھی آپ سے پوری کہانی سننا چاہتے ہیں ۔شمیسہ بیٹی ذرا میرا پاندان تو اٹھاکر لانا۔ پہلے ذرا پان کھالوں تو بتاتی ہوں۔ اور تم سب بیٹھ جاؤ ۔یہ لیجئے دادی جان آپ کا پاندان۔ لائیے میں آپ کے لئے پان تیار کرتی ہوں۔ پان منہ میں رکھتے ہوئے دادی جان نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کیا پوچھنا چاہتے ہو۔ صائم غازی عباس نے مل کر بلند آواز میں پوچھا دادی جان ہم روزہ کیوں رکھتے ہیں ۔ رمضان کی کیا اہمیت ہے؟ شاباش میرے لخت جگر۔ دیکھو بیٹا رمضان مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم کےلئے خیروبرکت کا مہینہ ہے اس ماہ میں قرآن شریف نازل ہوا۔ اس ماہ میں ہربالغ مسلمان عورت ومرد پر انتیس یا تیس روزہ رکھنا لازمی ہے اگر کوئی محتاج یا بیمار ہے یا اس کی جان کو روزے کسی بھی طرح کا خطرہ ہے تو اس کے لئے روزہ معاف ہے۔ اس کے بدلے اس کو روزہ نہ رکھنے کا ہدیہ دینا پڑتاہے۔ دادی جان ہدیہ کیا ہوتا ہے؟
مدیحہ نے پرتپاک آواز میں پوچھا۔ بیٹا سمجھ لو پہلے زمانے میں تو ایک غلام کو آزاد کرنا ہوتا تھا لیکن موجودہ دور میں ایک بھوکے مسکین کو کھانا کھلانا ہوتا ہے یعنی تیس روزہ چھوڑنے پر تیس فقیروں کو کھانا کھلانا لازمی ہے۔ شمیسہ نے مدیحہ کو سمجھاتے ہوئے کہا عباس نے دادی جان کے کندھے پر سررکھتے ہوئے کہا اچھا یہ تو بتائیے کہ روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟ اس کا کیا فائدہ ہے۔ بچوں روزہ رو ح کی پاکیزگی کا نام ہے۔ اللہ سے قربت کا نام ہے۔ روزہ ہمیں نیکی کی طرف راغب کرتا ہے۔ دن بھر بھوکے پیاسے رہ کر عباد ت کرنے سے ہمارے اندر استقلال پیدا ہوتا ہے۔ قوت برداشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مدیحہ نے پرتپاک ہوکرکہا دادی جان ۔آسان اردو میں بتائیے ۔ یا پھر انگریزی میں بتائیے ۔ ارے بیٹا میرا مطلب ہے کہ بندوں کے اندر Tolerance پیدا ہوتاہے ہم اپنے غصے پر قابو رکھتے ہیں ۔ خاموش رہنے سے کوئی گندی منہ سے نہیں نکلتی۔ اور کسی کی دل آزاری بھی نہیں کرتے۔ غیبت چغلی ہر عیب سے بندے پاک رہتے ہیں، زیادہ سے زیادہ وقت عباد ت میں گزرتاہے ۔ یہ تم کو معلوم ہے کہ کل ہم عید الفطر منائیں گے۔ دادی جان عید الفطر کا کیا مطلب ہوتاہے۔ مدیحہ کی دوست رادھا نے سوال کیا ؟دادی جان قدرے خوش ہوکر بولیں۔ بھئی واہ بیٹی رادھا!تم نے طبیعت خوش کردی۔ بیٹا عید الفطر یعنی فطرے والی عید ! باسق درمیان میں بول پڑا۔ دادی جان فطرہ کیا ہوتا ہے؟ شاباش باسق! فطرے کا مطلب رمضان کا صدقہ!جو ایک آدمی پر سوا دوکلو گیہوں ہے یہ عید کی نماز پڑھنے سے قبل ادا کرنا ہوتا ہے۔ آج کل گیہوں کا رواج ختم ہوگیا ہے تو اس کی قیمت روپیوں میں ادا کی جاتی ہے۔ پیدا ہوئے بچے کا بھی فطرہ ادا کرنا لازمی ہے۔ اچھا دادی جان یہ تو بتائیے رمضان میں زکوة کیوں دیتے ہیں ۔؟ زکوٰة کیا ہے؟ زکوٰة کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے؟ شمیسہ میری بچی اللہ تمہارا نصیب اچھا کرے۔ ککسے پیارے سوال پوچھے ہیں ۔ہاں تو بچوں زکوٰة ہمارے مال کا میل کچیل ہے۔ سمجھ لو جس کے پاس 700 گرام سونا کے زیورات ہیں یا جس کی تجوری میں خرچ سے نقدی جمع ہیں اس مسلمان کو مال کی زکوة نکالنا لازمی ہے۔ تم یوں سمجھ لو کہ ایک لاکھ روپئے کےلئے ڈھائی ہزار روپیہ نکالے جاتے ہیں اب دیکھو تمہارے دادا مرحوم سید امیر علی صاحب نے میرے لئے چارلاکھ میرے لئے نقد بینک میں جمع کر رکھاہے جو میرے استعمال میں نہیں آتا۔ چنانچہ میں نے د س ہزار روپئے زکوة کے نکال کر غریبوں میں تقسیم کردیئے ہیں تاکہ غریب لوگ بھی عید کی خوشیاں مناسکیں ۔ ارے باپ رے! دس ہزار روپئے۔ دادی جان آپ تو بڑی رحم دل ہیں ۔ عباس نے دادی جا ن کا بوسہ لیتے ہوئے کہا بیٹا اس میں رحم دلی کی بات نہیں یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے ہمیں زکوة دینے کے قابل بنایا ۔اور غرےبوں کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ہم سے زکوة لے جاتے ہےں ۔عےد کی خوشی مےں امیر غریب سبھی برابر کے شریک ہیں ۔ عید سب کےلئے ہے زکوة دینے سے ہمارے خزانے میں کمی نہیں آتی ہے بلکہ مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ بس اب تم سب جاؤ مجھے نماز پڑھنی ہے۔ رادھا جوزف اور بلجیت نے دادی جان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا دادی جان ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کل سب لوگ عید کیسے منائیں گے؟ کیا ہم بھی عید کی خوشی میں شامل ہوسکتے ہیں ۔؟ دادی جان نے بچوں کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا ہاں ہاں! کیوں نہیں ؟میرے بچوں عید تو سب کے لئے ہے تم لوگ بھی مدیحہ غازی شمیسہ ،صائم عباس ان سب کے ساتھ عید کے خوشیوں میں شامل ہوسکتے ہو ۔ کل سب بچے صبح سویرے نہا دھوکر عید گاہ جائیں گے ۔ نماز کے بعد گلے شکوہ ختم کرکے ایک دوسرے سے گلے مل کر عید مبارک کہیں گے بچے وہاں سے ڈھیر سارے کھلونے، مٹھائیاں ،کچوریاں لے کر آئیں گے گھر آکر سب بچوں کو عید ملے گی۔ شیر ،سویاں ، شامی کباب، بریانی وغیرہ سب مل جل کر ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر کھائیں گے۔ بل جیت اور جوزف مست ہوکر بولے بڑا مزہ آئے گا کل ہم آپ سے عیدی لینے آئیں گے ہم بھی عید منائیں گے، دودھ سویاں کھائیں گے۔ سب بچوں نے بلند آواز سے دادی جان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا آپ نے بہت کارآمد معلومات فراہم کیں ۔ اللہ حافظ دادی جان !کل ملیں گے۔٭٭٭
E-mail : Selfdefencebharti@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں