پٹھان کوٹ بھارتی پنجاب میں ایک میونسپل کارپوریشن ہے۔ یہ ضلع پٹھان کوٹ کا صدر مقام بھی ہے۔ 1849ءسے قبل یہ نوابی ریاست نورپور کا ایک حصہ تھا۔ پٹھان کوٹ آبادی کے لحاظ سے پنجاب کا پانچواں بڑا اور بھارت کو جموں و کشمیر کے ساتھ جوڑنے والی نیشنل ہائی وے پر پنجاب کا آخری شہر ہے۔ اِس شہر سے مقبوضہ کشمیر کو جانے والی شاہراہ پر دہلی سے 430 کلو میٹر شمال میںبھارتی فضائیہ کی ایئر بیس موجود ہے۔ اس ایئر بیس پر بھارت کی جانب سے سال 2016ءکے پہلے دن ہی سال کا پہلا بڑا ”ڈرامہ“ رچایا گیا، یہ ڈرامہ اِس بھارتی ایئر بیس پر حملے کا ڈرامہ تھا، اس ڈرامے کے بارے میں بتایا گیا کہ ”دہشتگردوں نے ایئر بیس پر حملہ کر دیا ہے۔“ اس ڈرامے کے اختتام پر بتایا گیا کہ حملے میں پانچوں دہشت گرد بھارتی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے اور اس دوران بھارتی فوج کے تین جوان بھی ہلاک ہوئے۔“ یہ ڈرامہ تو دن چڑھنے کے بعد ختم ہو گیا لیکن اس کے بعد بھارتی میڈیا کی ”فلم“ شروع ہو گئی، جس نے اس حملے کے ڈانڈے بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کے ساتھ ملانے کیلئے ایڑھی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا۔
پٹھان کوٹ پر حملے کا ڈرامہ غالباً بھارتی میڈیا کی نفسیات کو سامنے رکھ کر رچایا گیا تھا، اس کے نتائج بھی ڈرامہ رچانے والوں کی خواہشات کے مطابق ہی آئے ہونگے کیونکہ حملے کی خبر آتے ہی بھارتی میڈیا میں موجود خود ساختہ دانشور نما رپورٹر دور دور کی کوڑیاں لانے لگے اور روایتی ہتھکنڈے اپناتے ہوئے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی گئی۔ حد تو یہ ہوئی کہ ابھی حملہ اور اِس حملے کے خلاف بھارتی فوسرز کی جوابی کارروائی کا ڈرامہ بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ بھارتی میڈیا نے اِس حملے کے کڑیاں پاکستان کے ساتھ ملانا شروع کر دیں۔ پٹھان کوٹ کے ہوائی اڈے پر حملے کے بعد بھارتی میڈیا نے سکرپٹ کے عین مطابق پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی، ابھی کارروائی ختم نہیں ہوئی تھی کہ بھارتی میڈیا نے یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے اور انہوں نے پاکستان میں ایک سکھ تنظیم ببر خالصہ سے ملاقات بھی کی تھی۔ بھارتی میڈیا کے رپورٹرز اپنی خواہشات بھارتی وزیر داخلہ کے منہ میں ٹھونسنے کی کوشش کرتے بھی نظر آئے۔ پاکستان کے خلاف اس مہم میں ہر بھارتی چینل نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش بھی کی۔ ایک بھارتی ٹیلی وژن کی اینکر تو اُس بھی کہیں زیادہ آگے بڑھ گئی اور حملہ آوروں کو روک نہ پانے پر پاکستانی رینجرز پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی، اب بھلا کوئی اُس اینکر صاحبہ سے پوچھے کہ بھارتی سرحدوں کی نگہبانی کیا بھارتی سینا کی ذمہ داری ہے یا یہ ذمہ داری بھارت نے پڑوسی ممالک کی سرحدی فورسز کو سونپ رکھی ہے؟ ایک جانب تو یہ بھارتی میڈیا تھا جو پاکستان دشمنی میں بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا لیکن دوسری جانب لائیو نشریات میں عینی شاہدین نے یہ کہہ کر بھارتی ڈرامے کا پول کھول دیا کہ ”پٹھان کوٹ ایئر بیس حملہ رات تین بجے ہوا، لیکن علاقے کی سکیورٹی حملے سے ایک روز پہلے سے غیر معمولی طور پر بڑھا دی گئی تھی، جو سکیورٹی پہلے ہوائی اڈے کے گیٹ تک ہوتی تھی اُس کا دائرہ بڑھاکر قریبی آبادی کے بازار میں واقع چوک تک پھیلادیا گیاتھا۔“ عینی شاہدین کے مطابق ”ایئر بیس کے گیٹ کی رکاوٹیں ایک روز پہلے دوپہر کے وقت مرکزی چوک پر کھڑی کردی گئی تھیں اور دس بجے بند ہونے والی دکانیں دو گھنٹے پہلے ہی رات 8 بجے زبردستی بند کرا دی گئیں تھیں۔“ایئر بیس پر حملہ نما ڈرامے کے عینی شاہد کا یہ سچ بھی دراصل لائیو نشریات کے دوران چل گیا تھا، جسے ظاہر ہے کہ کنٹرول کرنا اور کاٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ورنہ اگر عینی شاہد کا بیان ریکارڈ کر کے بھارتی میڈیا پر پیش کیا جاتا تو اول تو یہ بیان چلتا ہی نہیں اور اگر چلتا تو بھی یقیناً کانٹ چھانٹ کے بعد ناظرین کیلئے اس شکل میں پیش کیا جاتا کہ کسی کو عینی شاہد کی بیان کردہ اصل حقیقت اور سچ معلوم ہی نہ ہوتا۔ ٹی وی چینلز کو مانیٹرنگ کرنے والوں نے جب عینی شاہدین کے بیانات کوسوشل میڈیا پر پیش کیا تو بھارتی میڈیا میں بھی اس بیان پر اچھی خاصی لے دے شروع ہو گئی۔
عینی شاہدین کی جانب سے حقیقت پیش کردینے کے باوجود بھارتی میڈیا اُن بیانات کو کوئی اہمیت دینے پر تیار نظر نہ آیا، کوئی بھارتی اینکر اپنی حکومت سے یہ سوال پوچھنے پر تیار نہ ہوا کہ ایئر بیس پر حملہ رات ساڑھے تین بجے ہوا تو ساری سیکورٹی چوکس ہو کر حملے سے کئی گھنٹے پہلے ہی حملہ آوروں کا انتظار کیوں کر رہی تھی؟ بھارتی میڈیا یوں تو بہت پھدکتا ہے لیکن یہ سوال کسی تیز طرار رپورٹر نے بھی نہیں اُٹھائے۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی ڈرامہ رچایا جاتا ہے تو بھارتی میڈیا پاکستان کی دشمنی میں بالکل ہی اندھا ہو جاتا ہے اور سامنے کے حقائق بھی جھٹلانا شروع کردیتا ہے، حقیقت میں بھارتی میڈیا وہ اونٹ ہے، جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے، ایسے ڈراموں کے دوران یہ کینہ پرور بھارتی اونٹ دراصل پاکستانی خیمے میں گھسنے اور خطے میں امن کیلئے ہونے والی پیشرفت کو تہس نہس کرنے پر تل جاتا ہے۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کا ڈرامہ کوئی پہلا ڈرامہ نہیں تھا۔ گزشتہ چند برسوں کا ہی جائزہ لیں تو بھارت کے اس طرح کے بہت سے ڈرامے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر ممبئی حملوں کا ڈرامہ اب مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے کہ کس طرح یہ ڈرامہ رچایا گیا اور اس کے بعد بھارت نے کس طرح پاکستان کو زیر کرنے کی ناکام کوشش کی، لیکن بھارت اس حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کو کسی بھی سطح پر ثابت نہ کر پایا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے ڈرامے کا اب کس کو معلوم نہیں؟ یہ کس کو معلوم نہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کو جلانے میں بھارتی کردار کو بے نقاب کرنے والے افراد کو بھارت میں کس طرح ایک ایک کرکے راستے سے ہٹایا گیا؟ بھارت کی جانب سے ایک مبینہ پاکستانی کشتی تباہ کرنے کا ڈرامہ تو ابھی حال کی ہی بات ہے۔ جس بھارتی افسر نے یہ ڈرامہ بے نقاب کیا، اسے بھی راستے سے ہٹا دیا گیا، جس کے بعد بھارت نے ایک کبوتر پکڑ کر اُسے آئی ایس آئی کا کبوتر قرار دے دیا اور الزام لگایا کہ ”پاکستانی فوج کبوتر کے ذریعے بھارت میں جاسوسی کر رہی تھی۔“ بھارت نے حقائق کی جانب سے آنکھیں بند کر کے دراصل یہ حقیقت سرے سے ہی فراموش کردی کہ دنیا اب کبوتر کی پیغام رسانی سے بہت آگے جاچکی ہے اور اب اس طرح کے جھوٹے پراپیگنڈوں اور ڈراموں سے اُسے پاکستان کے خلاف کوئی کامیابی نہیں مل سکتی۔
قارئین کرام! اِن بھارتی ڈراموں اور پراپیگنڈا کے ناکام ہونے کے بعد سوال تو یہ اُٹھتا ہے کہ آخر بھارت کب تک دنیا کوجھوٹے پراپیگنڈے سے بیوقوف بناتا رہے گا؟ آخر بھارت کب تک دنیا کو اپنی مظلومیت کی جعلی داستانیں سُناکر اپنا ہم نوا بنانے کی ناکام کوشش کرتا رہے گا؟ بھارت مثبت رویہ اختیار کرنے کے بجائے آخر کب تک منفی سوچ کو ہی پروان چڑھاتا رہے گا؟ آخر بھارت کب تک اپنے لغو الزامات کے ذریعے خطے کی ڈیڑھ ارب آبادی کو بے چینی اور بے اطمینانی کی سولی پر لٹکائے رکھے گا؟ آخر بھارت کب تک جھوٹے ڈراموں کے ذریعے جنوبی ایشیاکے امن کو تہہ و بالا کرنے کے در پے رہے گا؟ آخر کب تک؟