جے این یو کے حالیہ واقعے سے سبق لینے کی ضرورت

محمد نوشاد عالم ندوی
ملک میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور رہائی کاسلسلہ طویل عرصہ سے چل رہاہے۔ مسلم نوجوان مختلف الزامات کیتحت گرفتارکیے جار ہے ہیں اور پھرعدالتوں کے ذریعہ ان کی رہائی بھی عمل میں آرہی ہے۔ ہم میں سیکچھ لوگ اس بات کو لیکر تالیاں بجاتیہیں کہ قانون اپنا کام کررہا ہے مگر گرفتاری سے لے کر رہائی تک کے خوفناک ٹارچرکو بھول جاتے ہیں جو بعض اوقات بلکہ اکثرو بیشتر جھوٹے الزامات میں گرفتار ہونے والوں کی نصف عمر کھاجاتاہے۔ اور یہ بات اپنے آپ میں کیا کچھ کم خوفناک ہے کہ ان جھوٹی گرفتاریوں کے پس پردہ پوری کی پوری مسلم قوم کو ذہنی ٹارچرمیں مبتلا رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ درست ہے کہ جھوٹے الزامات کے تحت گرفتار ہونے والے مسلم نوجوانوں کے لیے مختلف تنظیموں، جماعتوں اور سرکردہ شخصیات کی جانب سیوقتا فوقتا آواز یں بھی اٹھائی جاتی ہیں اورچھوٹے یا بڑے پیمانے پرمظاہریبھی کیے جاتے ہیں، ان کے لیے قانونی لڑائی بھی لڑی جاتی ہے اور ان میں سے زیادہ تر جلد یا دیر باعزت بری بھی ہوجاتے ہیں لیکن کیاان کی باعزت رہائی ہی اس پورے معاملے اور سنگین مسئلیکاواحد، مستقل اور آخری حل ہے؟۔ اس سلسلیمیں امت کیہمدردوں ،تنظیموں اورجماعتوں کو ضرور بالضرور غور کرنا چاہیے اور خاص طور پر ان مسلم سیاسی لیڈروں کو جو ان میں کئی نوجوانوں کے فیصلہ کن ووٹ حاصل کرکے پارلیمنٹ تک پہنچتے ہیں۔
ابھی کچھ دنوں پہلیمولانامحمداقبال کو سال بعدجیل سیباعزت رہاکردیاگیا، جن کودہشت گردی کیالزام میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ ان کی گرفتاری اوررہائی دونوں ہی اپنے پیچھے کئی سوالیہ نشان چھوڑ گئے ہیں۔ جھوٹیالزام میں گرفتارکے گئے شخص کیسالہ زندگی کا حساب کون دے گا؟ ان کی زندگی کے قیمتی سال برباد ہوگئے۔ اس کاذمہ دارکون ہے؟ وہ باہمت، بہادر اور ملک کے لیے مرمٹنے والے جانباز سپاہی جنہوں نے انہیں جھوٹے الزمات کے تحت گرفتار کیا تھا ان کا کیا ہوا؟۔ کیا کبھی ان سے بھی پوچھ کچھ کی جائے گی؟ اور کیا کبھی ان سے بھی عدالت عالیہ یہ حساب مانگے گی کہ آخر انہوں نے کس بنیاد پر ایک بے گناہ انسان کی زندگی برباد کردی۔ عدالت اپناکام منصفانہ اندازمیں کرتی ہے، اس سیکسی کو انکار نہیں اور ہو بھی نہیں سکتا، وہ ناکافی ثبوت کی بات کہہ کراپنی ذمہ داری سیسبکدوش ہو گئی اور مسلمان بے گناہوں کے حق میں عدالت کا منصفانہ فیصلہ سن کراپنے آپ میں خوش ہوگئے مگرمسئلہ یہیں ختم نہیں ہوجاتا اور قانونی لڑائی کا سفر یہیں پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ یہ سفر یہاں سے شروع ہوتا ہے اور بے جا گرفتاریوں سے لے کر باعزت رہائی تک کی قانونی لڑائی کا سفراس سے آگے کی قانونی لڑائی کے لئے ایک بنیاد اور سنگ میل ہے۔اور سفر کے اگلے مرکزی اہداف میں تین بہت ہی اہم ہدف شامل ہیں ایک یہ کہ ان بے جاگرفتاریوں کا سلسلہ ختم ہو اوردوسرے یہ کہ جنہیں عدالتوں نے بے گناہ ثابت کردیا انہیں ان کی ناحق گرفتاری اور بربادشدہ زندگی کی بھرپائی کی کچھ سبیل نکالی جائے اور تیسرے یہ کہ جن لوگوں نے انہیں ناحق پھنسایا تھا، ان کی زندگیاں برباد کرڈالیں اور عدالتوں کا قیمتی وقت جھوٹے مقدمات کی پیروی کرنے اور کروانے میں برباد کیا انہیں ان کے اس غیرذمہ دارانہ عمل کی سزابھی ملے، تاکہ وہ آئندہ کسی بے گناہ کو عدالت میں گھسیٹ کر لانے سے پہلے سوبارسوچیں اور صرف انہیں لوگوں پر ہاتھ ڈالیں جو واقعی مجرم ہوں۔یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہیجس کی طرف دھیان دینیکی اشدضرورت ہے۔

اس طرح کیالزامات میں گرفتارمسلم نوجوان باعزت بری تو ہورہے ہیں لیکن دوسری طرف گرفتاریوں کاسلسلہ بھی ہے جو تھمنیکانام ہی نہیں لے رہا ہے۔ ایسالگ رہاہے جیسے قانون کے رکھوالوں اور دیش بھکتوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ ملک کی جیلیں ہمیشہ بھری رہنی چاہیے، جیسے ہی کچھ جگہیں خالی ہوں انہیں فوراً پر کردیا جائے۔ یعنی اگر نوجوان رہا ہوجائیں تو ان کی جگہ دوسرے پانچ نوجوانوں کو وہاں رکھنا ضروری ہے۔ جیسے یہ کوئی فل ان دی بلینکسیا آنکھ مچولی جیسا کوئی کھیل ہو جو مسلسل کھیلا جارہا ہے۔ ہماریسیاسی ہمدرد اور ملی رہنماسمجھ لیں تو بہتر ہے۔ کیونکہ ایسا تونہیں ہے کہ وہ اس کھیل کی زد پر کبھی نہیں آئیں گے، آج نہیں تو کل یہ گھناونا کھیل ان کی دہلیز تک بھی پہنچ ہی جائے گا اور اس وقت ان کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
یہ خبر آپ نے یقیناً سنی ہوگی کہ ایک ساتھ پانچ مسلم نوجوانوں کو رہا کردیا گیا، یہ بھی حددرجہ خوشی کی بات ہے، لیکن سوال وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ خالد مجاہد کا درد بھرا قصہ بھی آپ کے ذہن میں ہوگا۔ مفتی عبدالقیوم کی گرفتاری، جیل کی کال کوٹھری کی درناک اذیتوں کے بعد پھر ان کی رہائی کی دردبھری کہانی ہم بہت تفصیل سے میڈیاکی زبانی سن چکے ہیں۔
ابھی حالیہ دنوں میں بنگلور سے مولانا انظرشاہ قاسمی کی اور یوپی سے مفتی عبدالسمیع قاسمی عرف سمیع اللہ کی گرفتاری ہوئی ہے۔ مفتی عبدالسمیع پرداعش کوفنڈنگ کرنیکاالزام لگاکرگرفتارکیاگیا،جن کے پاس رہنیکامکان تک بھی نہیں ہے۔ ایک مدرسے کے فارغ، درس وتدریس اور دعوت وتبلیغ سیرغبت کی وجہ سے وہ جگہ جگہ اصلاحی تقاریرکیاکرتیتھے، فی الوقت وہ پولیس حراست میں ہیں۔ جن کی بیگناہی اور رہائی کے لیے مختلف تنظیموں کی طرف سے مختلف مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ لیکن کیا وہ ہمارے دھرنیومظاہریسیچھوٹ پائیں گے، یا نہیں! اس کے لیے ہم سب کوسوچنا چاہئے کہ ہم کہاں ہیں ؟ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے؟ اس طرح کیبہت ساریسوال ہیں،جن کا جواب ہم سب کوڈھونڈھنیکی ضرورت ہے۔
حالیہ واقعیجے این یو کے طالبعلم لیڈر کنہیاکمارکے بارے میں آپ دیکھ ،سن اور پڑھ ہی رہے ہیں۔ کنہیا کمار کا معاملہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ہم قومی حیثیت سے کہاں کھڑے ہیں؟ اخباروں کی سرخیوں میں رہنے والا جیاین یو کیطالبعلم کی گرفتاری کا واقعہ ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ کنہیا کمار کی گرفتاری کیخلاف دنیا بھر کے سیاسی لیڈروں اورپارٹیوں کے علاوہ تقریباً ۰۰ یونیورسٹیوں نے کھل کراس کی حمایت کی ہے، گویاعالمی سطح پر ان کی حمایت میں لوگ آئے۔ یہ بہت ہی اچھی بات ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائیکم ہے۔ ان پربھی ملک کیخلاف نعرے لگانیکا الزام ہے۔ یہ الزام کتنا سچ ہیاس پربات کرنا یہاں قبل از وقت ہوگا۔ یہاں صرف یہ کہنا چاہیں گے کہ ایک طالبعلم کی حمایت میں اتنے سارے لوگ۔ سینئرجرنلسٹ ابھے دوبے نے تووزیرداخلہ کویہاں تک کہاہیکہ اگر آپ کو لگتاہیکہ جیاین یو معاملیمیں حافظ سعید کا ہاتھ ہے اوریہ یہاں نعرے بازی کروا رہا ہے تو پھر آپ کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرجاناچاہیے۔ اسی طرح ایک دوسریشخص ابھیتیواری نیبھی ٹویٹ کرکے کہا ہے کہ بی جے پی کے دور اقتدار میں جس طرح کبھی پٹھان کوٹ،کبھی مظفرنگر، کبھی دادری توکبھی جے این یو جیسا معاملہ سلگتا ہے تو اس سے لگتا ہے کہ اس پارٹی کا نام بھارت جلاؤ پارٹی ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ نہ جانے کتنے لوگوں نے کیا کیا نہیں کہا، جس کو یہاں قلمبند کرنا مشکل ہے۔
ہم یہاں وزیرداخلہ کیلیے تو نہیں لیکن مسلم قوم کیلیے، مسلم سیاسی اور مذہبی لیڈروں اور جماعتوں اور تنظیموں سے یہ ضرور کہیں گے کہ اگرآپ اب بھی بیدارنہیں ہوئے، تو آپ کو چلو بھرپانی میں ڈوب کر مرناچاہئے۔ کیونکہ بی جے پی جس طرح سیملک کیماحول کوخراب کرنے کے لییکسی مندر میں گائے کا گوشت رکھ کر، کسی مسجدمیں خنزیرکاگوشت رکھ کر ،کہیں قرآن کی بیحرمتی کر کے اور کہیں گیتا کے اوراق نذرآتش کروا کر جس طرح کا پیغام دیناچاہتی ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نییہ سوچ لیا ہے کہ ایساکہرام مچادو کہ گنگا۔ جمنا اور نرمدا۔گوداوری ایسے لوگوں کیخون سیسرخ ہوجائیں۔
لہٰذا ملت کیبہی خواہوں اور ہمدردوں سے اپیل ہے کہ اپنے مسلکی اور تنظیمی اختلافات کو بھلا کر سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں کیونکہ یہی وقت کا تقاضہ ہے اور اتحاد کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کے بیک زبان ہوکر حکومت سے اپیل کریں کہ وہ اس طرح کی گرفتاریوں پر روک لگائے اور جو افسران اس طرح کی گرفتاریوں میں ملوث پائے جائیں ان کے خلاف سخت سیسخت کارروائی کی جائے اور اپنی بیگناہی کی بنیاد پر رہا ہونے والے نوجوانوں کی بازآبادکاری کیلییٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ لیکن اس میدان میں تن تنہاایک جماعت ہے، ان کی کوششوں کوسلام کیا جاسکتا ہے اورکرنابھی چاہیے۔ لیکن دیگر تنظیموں، دیگرملی جماعتوں اورملت کیدیگرہمدردان کو بھی آگےآناچاہیے۔ جمعیۃ علماء کی کوششوں سے ہی پہلے محمدعامر، پھرمفتی عبدالقیوم اوراس کے بعدشیخ مختار، علی اکبر، عزیزالرحمان،حافظ نوشاد اور نورالاسلام اور اب مولانا اقبال، باعزت بری ہوچکے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کافی مسلم نوجوان رہاہوئیہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ صرف میں تقریباً ایک سو اکتالیس () مسلمانوں کو دہشت گردی کے مختلف الزمات کیتحت گرفتار کیاگیا، اوریہ بھی معلوم ہوگاکہ جن میں سے ایکسو تیئس () بے قصورپائیگئے۔ اب آپ ہی اندازہ لگائییکہ کتنی بڑی تعداد میں بیگناہ مسلم نوجوان سلاخوں کے پیچھے جارہے ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہنا چاہیں گیکہ باقی تنظیموں کوبھی آگے آنا چاہیے۔ کیونکہ یہ بات توہم سب کومعلوم ہیکہ،ایک ہوجائیں توبن سکتیہیں خورشیدمبیں۔ اگرہم سب ایک ہوجاتیہیں تو پھر فرقہ پرست عناصر ہماری گردن پرہاتھ ڈالنے سے پہلیایک بار نہیں سو بار سوچیں گے۔ اس کے علاوہ ایک بات اور بھی ہے جو ہم تمام ملی جماعتوں اور تنظیموں کے گوش گزار کرنا چاہیں گے کہ وہ ان نوجوانوں کو جن کو عدالت ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے باعزت بریکررہی ہیں، ان کے پیچھے بھی ایک لمبی زندگی ہے اور پور اکنبہ ہے۔ ان کی پرورش وپرداخت کے لیے ان کے لییکوئی بہترمتبادل بھی تلاش کریں۔ کیونکہ وہ قید کے دوران جن کی جو بھی مدت ہو، آٹھ سال، دس سال، یا اس سے بھی زیادہ، پہلے سے ہی ٹوٹ چکیہوتیہیں۔ بلکہ وہ اس لائق نہیں ہوتیہیں کہ رہائی کے بعد اٹھ کھڑے ہوں۔ اورسماج بھی ان کو اپنانیسیکتراتاہیتوکوئی ایسانظام تیارکریں جس سیسماج کو انہیں اپنانیمیں کوئی شرمندگی نہ ہو۔ بلکہ ان کو اس پر فخرہوکہ عدلیہ نیان کوباعزت بری کردیا۔ اور یہ اسی طرح عزت واکرام کے مستحق ہیں جس طرح پہلے تھے بلکہ وہ مزید برآں ہمارے مالی اوراخلاقی تعاون کے بھی محتاج ہیں۔
mohdnaushad14@gmail.com
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب دہلی میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں )

SHARE