–مشرّف عالم ذوقی
ہم سڑکوں مارے جا رہے ہیں .ٹرین میں مارے جا رہے ہیں .سڑک ،چوراہے کہیں ہم محفوظ نہیں .اس ماحول میں ،اس گھٹن آلود فضا میں عید کی خوشی کہیں دور چلی گی ہے ..سوال یہ نہیں ہے کہ حکومت کی شہ پا کر وہ ہمیں ہلاک کر رہے ہیں ..سوالیہ نشان کی زد میں آر ایس ایس اور حکومت بھی ہے ..کیا یہ رام راجیہ ہے ؟ یا ہندو راشٹر کا راون راجیہ ؟ کیا مودی کے ہندوستان میں رام کی جگہ راون کو اہمیت حاصل ہو گیی ہے ؟ مسلمانوں کی ہلاکت کی بنیاد پر ہندوستان میں نیے ہندو راشٹر کی تعمیر و تشکیل کی جائے گی ؟ کیا اکثریت کےراون مسلمانوں کو اکسا کر اب گلی محلوں ،سڑکوں چوراہوں پر خون کی ہولی کھیلینگے ..اور تیس کروڑ عوام سر جھکا کر مرنے کو تیار ہو جاےگی ؟ مسلمان اگر اس مجموعی فضا کے خلاف آواز بلند کرے ،تو بکاؤ میڈیا مسلمانوں کو غدار کہنے لگتا ہے .جو مودی یا آر ایس ایس کا نہیں وہ ملک کا غدار ہے؟ ہر دن ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں مسلمانوں کو لے کر انتہا پسندی کے خونی مظاہرے جاری ہیں ..اس ماحول میں کویی بھی آواز بلند کرنا نہیں چاہتا ..کیا اس گگھٹن بھرے ماحول میں عید کی خوشیوں کا لطف حاصل کیا جا سکتا ہے ؟
سردار جعفری کا ایک شعر ہے
خزاں رسیدہ نگار بہار رقص میں ہے
عجیب عالم بے اعتبار رقص میں ہے ..
عید کے موقع پر یہ شعر ہی کیوں یاد آیا ؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ؟ پردہ داری کہاں .یہ رسم بھی اٹھ گی ..کچھ دنوں قبل اپنے بزرگ دوست نند کشور وکرم کے گھر گیا تو وکرم صاحب سرد اہ کھینچ کر بولے ..ہم ہندو راشٹر میں جی رہے ہیں ..
لیکن کیوں ہندو راشٹر میں جی رہے ہیں ؟ یہ ہندو راشٹر ہمیں قبول نہیں .ملک تقسیم ہوا.جو مسلمان یہاں سے پاکستان نہیں گئے ،انکا موقف صاف تھا .انکو مسلم ملک منظور نہیں تھا .سیکولر اور جمہوری کردار پسند تھا ..اگر اس وقت ہمارے نیتاؤں نے ہندو ملک کی بات کی ہوتی تو جو مسلمان یہاں رہ گئے ،شاید وہ بھی پاکستان کے حق میں منظوری دیتے اور ہندوستان کی جگہ پاکستان کو ترجیح دیتے .لیکن ایسا نہیں ہوا ..ملک پر جان نثار کرنے والے لاکھوں مسلمانوں نے جمہوریت اور سیکولرزم کے تحفظ کے لئے ہندوستان میں رہنا پسند کیا ..اب آر ایس ایس اگر اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتی ہے تو یہ عمل قبول نہیں .
اخلاق اور پہلو خان کے بعد بھی ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصّے میں بے قصور مسلمانوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے .ان خبروں کے لئے میڈیا نہیں ہے .ہندی اور انگریزی اخبار نہیں ہیں ..یہ خبریں صرف اردو اخباروں میں شایع ہوتی ہیں اور ہمیں اندر تک سنگسار کر جاتی ہیں .کسی عورت کو ترشول دھاروں نے مار دیا .داڑھی رکھنے کے جرم میں سڑک چوراہوں پر اب ایسے قتل عام ہو چکے ہیں …مسلّا ہے سالہ .مارو …جا ن سے مارو …پولیس کہاں ہے ؟قانون کہاں ہے ؟ ہر روز ہلاکت کی بڑھتی خبروں کے درمیان آپکو کیسے دی جائے عید کی مبارکباد ..؟میڈیا سر عام اسلام اور مسلمانوں کا مزاق اڑا رہا ہے ..سیاست نے مسلمانوں کو بے دردی سے حاشیے پر پھیک دیا ہے .اب ملک میں جو تانڈو یا رقص ہو رہا ہے وہ گجرات سے بھی بد ترین رقص ہے ..آنے والے کل میں ہمارے پاس زبان نہیں ہوگی ..ہم کویی بیان دینے کے قابل نہیں ہونگے ..ہمارے بچوں کا مزاق اڑانے والے آر ایس ایس کے چہیتے ہونگے ..اور ہمارے بچے کسی بات کا جواب دیتے ہیں تو وہ مارے جاینگے ..یہ خوفناک ذہنیت گھات لگاہے ہمارا شکار کرنا چاہتی ہے ..اور افسوس ..ہم مسلسل شکار ہو رہے ہیں …
رمضان کا مقدس مہینہ ہندوستانی سیاست میں ہمیشہ خبروں کے درمیان رہا .سیاسی پارٹیاں افطار کے ذریعہ در اصل ہندو مسلم اتحاد کا پیغام دیا کرتی تھیں .آر ایس ایس لیڈر اندریش کی افطار پارٹی کی ایک تصویر دیکھی ..انکے ہاتھ ہوا میں معلق ہیں ،جیسے پوجا ارچنا کر رہے ہوں ..کیا کل تک اسی انداز میں افطار پارٹی ہوا کرتی تھی ؟ یہ ہمارے پرب تیوہاروں کا سائیڈ افیکٹ ہے .آر ایس ایس یہاں بھی اپنے طور طریقے لانا چاہتی ہے ..
قومی اردو کونسل کا معاملہ ہی لیجئے ..چیخنے والوں نے کبھی اس راز کو سمجھا ہی نہیں ،جہاں آر ایس ایس انھیں لے جانا چاہتی ہے .آر ایس ایس انگریزوں کی طرح ڈیوا یڈ اینڈ رول پر چل رہی ہے اور ہر سطح پر کامیاب ہے .کامیاب اسلئے کہ اس وقت سب سے بڑے جاہل ہم ہیں ،اور اسی لئے ہم کو مردہ ،پست ،شکست دیتے ہوئے انکی کامیابی کا سفر جاری ہے ..حقیقت کچھ اور ہے ..آر ایس ایس اس حقیقت کو جانتی ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ جو تعلیم یافتہ ہونگے ،وہ باغی ہونگے .حکومت سب سے کم بجٹ کا استمعال تعلیم کے شعبے پر کر رہی ہے ..وہ جانتی ہے کہ آپ پڑھ لکھ کر آر ایس ایس کو گالیاں دینگے .مذہبی تنگ نظری کی مخالفت کرینگے .دلت اور مسلمانوں کی حمایت کرینگے ..اسلئے تمام تعلیمی شعبوں کے پر کترے جاینگے ..پبلیکشن ڈویژن کی میگزین آجکل بھی خطرے میں ہے ..اردو کی ہر سرکاری میگزین پر خطرہ منڈرا رہا ہے ..قومی اردو کونسل بھی زد میں ہے .اردو کے دوسرے ادارے بھی زد میں آیینگے –کیونکہ آر ایس ایس اور مرکزی حکومت کو آپ سے ،مسلمانوں سے ،تعلیم سے ،تجارت سے ،اردو سے کویی مطلب نہیں ہے ..بھاڑ میں جاہیں مسلمان اور بھاڑ میں جائے اردو ..حکومت نے بڑی آسانی سے وقف کی املاک آپ سے چھین لی . بے نامی جایداد پر قانون لے اے .بے نامی جاےداد کے رکھوالے کون ہیں ؟ تقسیم کے بعد دو بھایی میں سے ایک اگر پاکستان چلا گیا اور دوسرا بھایی ہندوستان رہا ، تو پہلے بھایی کی جایداد بے نامی تسلیم کی جاےگی ..اس قانون کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہونگے .مسلمانوں سے گوشت کی تجارت چھین لی گی ..کل بہت کچھ چین لیا جاےگا
ہم سے کھل کر پہلو خان یا اخلاق کی طرح سلوک عام ہو جاےگا …اور آپ کچھ نہیں کر پاینگے .کیونکہ آپ ہر سطح پر تقسیم ہیں ..آپ چھوٹا سوچتے ہیں ..آپ آپس میں ہی لڑتے رہ جاینگے اور وہ آپکو ہلاک کر دینگے .
خزاں رسیدہ نگار بہار رقص میں ہے
عجیب عالم بے اعتبار رقص میں ہے ..
عجیب عالم بے اعتبار میں عید کی مبارکباد دی جائے تو کیسے …یہاں خزاں کا رقص ..وہاں بہار کا ..ہم جھلستے اور قتل ہوتے ہوئے –وہاں آئین کا مزاق اڑانا بھی رقص کا حصّہ ..یہاں عید بھی خاموش اور خوفزدہ ..وہاں عید ملن کی مبارکباد دینے کا تصور بھی ہولناک …عید کا حسین تحفہ ملا بھی تو خزاں رسیدہ نگار بہار کی صورت ..درختوں کا پیراہن اتر گیا ..شاخیں عریاں ..آسمان پر خدا دشمنوں کی کمینگی سے زیادہ ہماری جاہلیت کو دیکھتا ہوا ….
خزاں رسیدہ نگار بہار رقص میں ہے………