سہیل انجم
یکم اپریل 2008 کو جب دہلی سے شائع ہونے والے روزنامہ قومی آواز کی اشاعت موقوف کر دی گئی تو اردو اخبارات کے قارئین میں مایوسی کی ایک فضا چھا گئی۔ اگر چہ اس وقت بھی دہلی سے کئی روزنامہ اخبارات شائع ہو رہے تھے اور آج بھی شائع ہو رہے ہیں لیکن قارئین قومی آواز کو بھلا نہیں سکے۔ جب بھی کہیں اردو صحافت کا ذکر چھڑتا ہے تو اس اخبار کا ذکر جمیل بھی ضرور ہوتا ہے۔ یہ عجیب بات رہی ہے کہ قومی آواز کے بند ہونے کے اگلے روز سے ہی اس کے دوبارہ شروع ہونے کی باتیں بھی ہونے لگی تھیں۔ جو لوگ اس اخبار سے وابستہ رہے ہیں ان سے لوگوں کا یہ پوچھنا مسلسل جاری رہا کہ قومی آواز پھر کب شروع ہو رہا ہے۔ اس بارے میں افواہیں بھی خوب گردش کرتی رہیں۔ اس کے ایڈیٹر کے لیے کبھی کسی کا نام اچھلتا تو کبھی کسی کا۔ کبھی یہ کہا جاتا کہ کانگریس کو اس اخبار کی ضرورت ہے اور وہ جلد ہی اسے دوبارہ شروع کرے گی تو کبھی کہا جاتا کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی اور نائب صدر راہل گاندھی اس اخبار کے تئیں کافی سنجیدہ ہیں۔ کچھ لوگ ان جذبات کا بھی اظہار کرتے کہ کانگریس نے قومی آواز بند کرکے اپنا سیاسی نقصان کیا ہے۔ افواہیں اڑتی رہیں، باتیں ہوتی رہیں اور قیاس آرائیاں کی جاتی رہیں۔ لیکن ان افواہوں اور قیاس آرائیوں نے کبھی حقیقت کا روپ نہیں لیا۔ اسی درمیان گزشتہ سال اگست میں یہ خبر آئی کہ سینئر صحافی اور ہندی میگزین آوٹ لک کے سابق ایڈیٹر نیلابھ مشرا کو نیشنل ہیرالڈ کا گروپ ایڈیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ اس خبر نے انگریزی قارئین کے دلوں میں امید کی کوئی جوت جگائی ہو یا نہ جگائی ہو مگر اردو قارئین کے دلوں میں ضرور جگا دی۔ انھیں یہ محسوس ہونے لگا کہ شاید اب قومی آواز بھی نئی شکل و صورت کے ساتھ سامنے آجائے۔
بالآخر اسی سال مئی کے اواخر میں ایسو سی ایٹڈ جرنلس کی جانب سے ایک خوش کن اعلان کیا گیا اور اطلاع دی گئی کہ سینئر صحافی جناب ظفر آغا کو قومی آواز کا ایڈیٹر مقرر کر دیا گیا ہے۔ لیکن جو پریس ریلیز جاری کی گئی اس میں اس کی کوئی تفصیل نہیں تھی کہ یہ اخبار کب شروع ہو رہا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا گیا کہ قومی آواز کی کمی پورے ملک کی اردو دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس نے اردو صحافت میں جو خلا چھوڑا تھا اسے ہم جلد ہی پُر کریں گے۔ بعد میں یہ واضح ہوا کہ سرِدست قومی آواز کی ویب سائٹ شروع کی جا رہی ہے اور کچھ دنوں کے بعد اخبار بھی منظر عام پر آجائے گا۔ اس سلسلے میں جب راقم الحروف نے جناب ظفر آغا سے بات کی تو انھوں نے بھی یہی بتایا کہ ابھی ویب سائٹ شروع ہو رہی ہے، اخبار بعد میں آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں یہ دیکھ کر بڑی خوش گوار حیرت ہوئی کہ آج بھی لوگ قومی آواز کے دیوانے ہیں اور اس کی اشاعت ثانی کی خبر نے اردو قارئین کو مسرت سے ہمکنار کیا ہے۔
قومی آواز کی اشاعت ثانی کا فیصلہ خوش آئند
ظفر آغا کا نام صحافتی دنیا میں کافی معروف ہے۔ وہ ایک سنجیدہ صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے 80 کی دہائی میں اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا۔ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ الہ آباد سے تعلق رکھنے والے ظفر آغا انگریزی رسائل و جرائد لنک، بزنس اینڈ پولیٹیکل آبزرور، انڈیا ٹوڈے اور پیٹری یاٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔ وہ ایک عرصے تک ٹی وی چینل ای ٹی وی کے لیے مختلف شخصیات کے انٹرویوز کرتے رہے ہیں جنھیں بڑے پیمانے پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ وہ ملکی اور غیر ملکی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے ہیں۔ انگریزی کے علاوہ ان کو اردو صحافت کا بھی خاصا تجربہ ہے۔ وہ روزنامہ جدید میل کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ ان کے کالم ملک و بیرون ملک کے اردو اخباروں میں بھی مسلسل شائع ہو رہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے صحافتی تجربات کو بروئے کار لاکر قومی آواز کو اسی مقام پر فائز کریں گے جو اس کا طرہ امتیاز تھا۔
دریں اثنا نیشنل ہیرالڈ کے ہفت روزہ ایڈیشن کا اجرا ہو چکا ہے۔ پہلے بنگلور سے ہوا اور اس کے بعد دہلی سے ہوا ہے۔ بنگلور میں اس کا اجرا نائب صدر حامد انصاری نے اور دہلی میں صدر پرنب مکھرجی نے کیا۔ دونوں صدور نے نیشنل ہیرالڈ کی خدمات کا ذکر کیا اور اس کی ضرورت پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے صحافت میں قدروں کے بتدریج فقدان پر اظہار افسوس کیا اور میڈیا اور صحافت کی آزادی کی اہمیت اجاگر کی۔ لیکن بہر حال ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ قومی آواز روزنامہ کی شکل میں نکلے گا یا ہفت روزہ کی شکل میں۔ اس بارے میں تفصیلات معلوم کرنے کے لیے ہم نے نیلابھ مشرا سے بات کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ملی۔ لیکن بہرحال روزنامہ کی جو اہمیت ہے وہ ہفت روزہ کی نہیں اور قومی آواز کا جو اثر مرتب ہونا چاہیے وہ روزنامہ کی شکل ہی میں مرتب ہوگا۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ نیشنل ہیرالڈ اور قومی آواز کے ساتھ ساتھ ہندی اخبار نوجیون کی اشاعت ثانی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ یہ تینوں اخبار پنڈت جواہر لعل نہرو نے جاری کیے تھے۔ نیشنل ہیرالڈ اور نوجیون 1938 میں اور قومی آواز 1945 میں لکھنو سے شروع کیا گیا تھا۔ ان اخبارات نے جنگ آزادی میں اپنا رول ادا کرنے کے بعد آزاد ہندوستان میں ملکی و صحافتی خدمات انجام دیں۔
قومی آواز کے بانی ایڈیٹر ممتاز صحافی اور ناول نگار حیات اللہ انصاری تھے۔ ان کے بعد عشرت علی صدیقی اور عثمان غنی ایڈیٹر ہوئے۔ اردوصحافت کے لیے گراں قدر اصول مرتب کرنے میں اس اخبار کا بڑاکردار رہا ہے۔ حیات اللہ انصاری نے ممتاز صحافیوں اور ادیبوں کی ایک ایسی ٹیم بنائی تھی جس نے اس اخبار کوتاریخ ساز بنادیا۔ بعد میں اس کے دہلی، ممبئی، سرینگر اور پٹنہ ایڈیشن بھی شائع ہوئے۔ دہلی ایڈیشن کے آخری ایڈیٹر موہن چراغی تھے۔ قومی آواز معیاری اور سنجیدہ صحافت کا بہترین نمونہ تھا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کو کانگریس کے بدترین مخالفین بھی بڑے ذوق وشوق سے پڑھتے تھے اور اس میں شائع ہونے والی ہر خبر کی صدائے بازگشت پورے ملک میں سنائی دیتی تھی۔ اس کو جہاں ایک طرف مسلمان پڑھتے تھے تو دوسری طرف ہندوﺅں ، سندھیوں اور پنجابیوں میں بھی یہ اخبار پڑھا جاتا تھا۔ حالانکہ یہ اخبار آٹھ صفحے کا تھا لیکن اس کے آٹھ صفحات میں ہی قارئین کے ذوق کے مطابق بھرپور مواد ہوتا تھا۔ قومی آواز کی خاص بات یہ تھی کہ اس روزنامہ میں عوامی بول چال اور عام فہم زبان کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اس اخبار نے متعدد الفاظ کا املا تبدیل کیا۔ مشکل الفاظ واصطلاحات کے بجائے عام فہم الفاظ واصطلاحات رائج کیں ۔ قومی آواز نے باقاعدہ ادبی وسیاسی میگزین (ہفتہ وار ضمیمہ) شائع کرنے کی اردو روزناموں میں ایک نئی روایت قائم کی تھی۔ دہلی سے اس کا ہفت روزہ ایڈیشن بھی نکلتا رہا ہے جس کی ایڈیٹر معروف شاعرہ اور صحافی نور جہاں ثروت تھیں۔ قومی آواز کی صحافت کو برصغیر میں ایک معتبر و مستند صحافت سمجھا جاتا تھا۔ اس اخبار کے صحافیوں نے صحافتی قدروں سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کے معیار پر کوئی حرف آنے دیا۔ اس سے وابستہ صحافیوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے بعض آج بھی صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
(مضمون نگار ایک معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ہیں)
sanjumdelhi@gmail.com