تسنیم کوثر
بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہے ۔۔۔ مدراس ہائی کورٹ کی زبان تو یہ نہیں لیکن حکم کچھ ایسا ہی ہے۔جو کوئی اس کے خلاف لب کھولے دیش دروہی کہلائے ۔۔۔موب لینچنگ ہو جائے۔ میں کچھ کہوں گی تو آپ کو لگے گا میں نے کانگریس کے خلاف لکھنے کی قسم کھا رکھی ہے لیکن تاریخ کو جھٹلا پائیں گے آپ ؟
1905میں بنگال کا بٹوارہ ہوا 1905 میں ہی وارانسی میں کانگریس پارٹی کے اجلاس میںوندے ماترم کو پہلی بارعوام کے بیچ ایک محرک کے طور پر گایا گیا ۔ اس سے قبل 1876 میں اسکے دو بند لکھے گئے تھے پھر 1882 میں جب بنگالی مصنف بنکم چند چٹوپادھيائے کا ناول آنند مٹھ شائع ہوا تو اضافے کے ساتھ وندے ماترم اس میں شامل تھا۔ یاد رہے یہ حضرت برٹش ملازم تھے کلکٹر لگے تھے۔ آنند مٹھ کی پوری کہانی مسلم مخالف ہے جس کی وجہ سے تنازعہ رہا ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں کے پر زور احتجاج کی وجہ سے اسے قومی ترانے کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا بلکہ قومی گیت بنا۔ آج اسی بنگال میں یرقانی دیش بھکتی کا عفریت اپنے اسی ڈی این اے کی بنیاد پر امن و آشتی کو نگلنے کو بےتاب ہے۔
آر ایس ایس اور اس خیال سے منسلک افراد اور اداروں نے وندے ماترم گانے پر ہمیشہ زور دیا ہے۔ بلکہ ان کا تو یہ نعرہ بھی رہا ہے کہ “ہندوستان میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا ہے۔ ا گر آپکو یاد ہو تو ارجن سنگھ کا آخری زمانہ یاد کیجئے۔ کئی سیاسی مبصرین مانتے تھے کہ ارجن سنگھ کو راجیو گاندھی کی قیادت پسند نہیں تھی۔ تنازعات کے درمیان بھارت کے قومی گیت ‘وندے ماترم کی صدی 2006 میں انہیں ارجن سنگھ کے زمانے میں ملک بھر میں منائی گئی تھی۔تب سے قومی گیت کو گائے جانے کو لے کر تنازعات جو شروع ہوئے تو آج تک تھمے نہیں ہیں ۔2014 میں اقتدار میں آتے ہی کسی گرومنتر کی طرح مودی سرکار نے اسےہٹلری دیش بھکتی کا چولا پہنا کر مسلمانوں پر شروع دن سے زمین تنگ کرنی شروع کر دی تھی ۔انکو یہ ہتھیار، ہندوتوا سے کہیں زیادہ کار گر اور دیرپا لگ رہا ہے اس کو سان دینے کے لئے ایک اور ماتا گئو ماتا کو بھی ساتھ لگا دیا ہے۔اس زمانے کے خاص لوگوں کو یاد کیجئے ارجن سنگھ ، نرسمہا راو ، ارون نہرو ،این ڈی تیواری، چندرا سوامی پرنب مکھرجی، دیوراہا بابا اور ششی بھوشن باجپئی ( انہوں نے اپنے نام سے باچپئی بعد میں ہٹا دیا تھا ) جی ہاں وہی ششی بھوشن جنہوں نے 1971 میں ساؤتھ دلی کی سیٹ سے آل انڈیاجن سنگھ کے صدر بلراج مدھوک کو ہرا یا تھا۔ آپ صرف انکے آیڈیاز کو پڑھئے آپ کو نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی ششی بھوشن اور ارجن سنگھ میں دکھ جائے گی۔انکا کہنا تھا جن تنتر کو قابو میں رکھنے کے لئے تھوڑی سی ڈکٹیٹری جائز ہے ۔کانگریس کے یہ ینگ ٹرک آر ایس ایس کے کمیونل ایجنڈے کو ٹارگٹ کرنے کے لئے جانے جاتے تھے۔ ان کی تقاریر اس کا بین ثبوت ہیں۔ لیکن 1976 میں آئین کے پریمبل میں لفظ سیکیولر جڑوانے والے ششی بھوشن کو آخر کس کیڑے نے کاٹا جو انہوں نے 2006 میںارجن سنگھ کو وندے ماترم کی صد سالہ تقریب منانے اور اور اس کو گانے کو کمپلسری کرنے کا حکم نامہ جاری کروانے کا متنازعہ فیصلہ کروایا ۔ تاریخ کو پرکھئے آپکو خون کے آنسو رونا پڑے گا۔آنند مٹھ ناول کا پورا پلاٹ دنگوں میں مسلمانوں پر ہندووں کی فتح کی داستان ہے ۔اسمیں بھارت کو ماتا ثابت کیا گیا ہے اور ہندو احیا پرستی کے اس دور میں اس میں دوسرے دیوی دیوتاوں کے ساتھ اس نئی ماتا کو جان بوجھ کر جوڑا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ 1936 میں بنارس میں شو پرساد گپت بھارت ماتا مندر بنوا دیتے ہیں اور اسکا ادگھاٹن کرنے پہنچتے ہیں خود مہاتما گاندھی ۔۔۔۔! اکتوبر 1937 میں کلکتہ میں کانگریس کا اجلاس منعقد ہوتا ہے صدر تھے جواہر لال نہرو،اس اجلاس میں مسلمانوں کے اعتراض قبول کئے جاتے ہیں اور رزیولوشن پاس ہوتا ہے کہ آزادی کی تحریک میں جلسوں میں اس گیت کے اول اور دوئم بند ہی گائے جائیں گے۔اور منتظمین کو اس کے علاوہ کسی بھی حب الوطنی گیت کو گانے کا اختیار ہوگا۔انکے ساتھ قدم سے قدم ملا کرچلنے والے اپنے ان ضمیر فروش اور ملت فروش رہنماوں کے نام اگر یاد نہیں کریں گے جو آج بھی حکومتوں کے حامی بن کر اپنے قصر کی حفاظت کو مقدم سمجھتے ہیں تو کبھی یاسییت کی دلدل سے نہیں نکل پائیں گے ۔ کم از کم ماتم تو کھل کے کیجئے۔ منظم سازشوں کا جواب نشتر کے کچوکے لگائے بغیر ممکن نہیں یہ سازشیں کامیاب ہوگئی ہیں ان کا جواب بھی منظم طریقے سے دینا ہوگا قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ملک کی سالمیت اور بقا کے لئے ماضی کے اقدامات کا تجزیہ ضروری ہے کہ جس ڈی این اے سے این ڈی اے بنا ہے اسکو توانائی ہم نے ہی تو دی ہے۔ جس ارجن سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن اور تعلیمی اداروں میں پسماندہ ذاتوں کے لیے ریزرویشن جیسے متنازعہ فیصلے کئے ہوں، ان کے اس وندے ماترم گانے کو لازمی کرنے کے حکم کو سیاست سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ 2006 میں وندے ماترم کی صدی تقریبات کے موقع پر منعقد ہونے والے پروگراموںمیں بہت سے اقلیتی تعلیمی اداروں نے شرکت نہیں کی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے زیر انتظام مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، گجرات اور راجستھان کے تعلیمی اداروں میں تب کے مرکزی انسانی وسائل کے وزیر ارجن سنگھ کی ہدایات کو بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا مان لیا گیا اور حکم کے مطابق تقریبات منعقد کی گئیں اور وندے ماترم لہک لہک کر گایا گیا۔ جہاں انقلاب زندہ باد کا نعرہ تھا ، سرفروشی کی تمنا جیسے ولولہ انگیز نغمے تھے تو قومی تحریک کی جان ثابت کرنے پر تلے ‘وندے ماترم کی تخلیق کا سوواں سال دھوم دھام سے منے، یاد کیا جائے، اس میں بہت حیرت کی بات تو نہیں تھی لیکن وندے ماترم ہی کیوں؟ آزادی کی لڑائی کے دوران ہی کانگریس نے وندے ماترم پر مسلمانوں کے اعتراض کو جائز مان لیا تھا اس لئے ایسا نہیں ہو سکتا کہ ارجن سنگھ تنازعہ سے واقف نہ ہوں۔ اس کے بعد سے یہ حب الوطنی یا قومی تحریک کا نعرہ یا گیت بننے کے بجائے سنگھ پریوار کی فرقہ وارانہ پالیسی کا سوتر دھار بنا دیا گیا۔ ابھی سنگھ پریوار کا قومی تحریک سے رشتہ یا اس کی قوم پرستی پر زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے سب جانتے ہیں ، پر ارجن سنگھ کیوں اس ایجنڈے کو نافذ کرانے کی طرف گئے، اس پر غور کرنے کا مسئلہ ہے۔اور اس تناظر میں ان کے پہلے اٹھائے اقدامات کو یاد کیا جا سکتا ہے۔ جو نہ آئین کے مطابق ٹھہرے نہ متحدہ ترقی پسند حکومت کی پالیسیوں اور کامن پروگرام کی اصل روح سے میل کھاتے ہیں۔ پر اتنا کہنے میں حرج نہیں ہے کہ جب حکومت مہنگائی، کسانوں کی خود کشی، سیلاب اور خشک سالی جیسی سنگین مسائل سے گھری ہو، ایک خاص ترقی کی شرح برقرار رکھنے کی جدوجہد میں لگی ہو، تب حکومت کے اتنے سینئر رکن کی جانب سے رہ رہ کر ایسے تنازعات کو اٹھانا ؟ کون معشوق تھا اس پردہ زنگاری میں؟ آج بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ ارجن سنگھ جیسے لوگ اپنی آخری اننگز کھیل رہے تھے اور ایک غیر سیاسی اور نئے آدمی کی قیادت میں کام کرنے پر مجبور تھے ۔ لیکن ان کی یہ پہل سنگھ پریوار اور کچھ مسلم تنظیموں کو اپنی اپنی سیاست کرنے کا مدعا دے گئی۔بابری مسجد، شاہ بانو کیس سے لے کر گجرات میں ایک سابق بھاجپائی شنکر سنگھ واگھیلا کو قیادت سونپنے کی طرح بہت سے فیصلے اسی ترتیب میں گنوائےجا سکتے ہیں۔لیکن ان سب سے بڑا معاملہ بابری مسجد کا تالا کھلوانا اور عام جنتا کو پوجا کی اجازت دینا تھا 1985 ویسا ہی سال تھا جب ہندو مسلمان قائد اپنی اپنی انا کی خاطر سودے بازی میں مشغول تھے۔ کون کون تھا اس معاملے میں اور کیا تھا پورا معاملہ آج کی جنریشن کو جاننا چاہئے مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلے اور ان کی تحریکیں راجیو گاندھی سے مودی تک پڑھنا چاہئے اور تجزیہ کرنا چاہئے بنا جذباتی ہوئے۔ اگر آپ نے دیوراہا بابا کا نام سنا ہے تو یہ بھی جانتے ہونگے انہی کی تجویز پر کانگریس کا پہلا سمبل گائے بچھڑا تھا ۔ ( کیا کیا لکھوں اور کس کس کا کچہ چٹھا لکھوں) 89 میںالیکشن سے پہلے سونیا گاندھی اور راجیو گاندھی کو ان سے ملوانے لے گئے تھےبوٹا سنگھ ، ارون نہرو اور این ڈی تیواری ۔اور 6 نومبر 1989 کو فیض آباد سے انہوں نے الیکشن کیمپین شروع کیا ۔ انہی بابا کے آشیرواد سے راجیو گاندھی نے وہ کام کیا جسنے ہندوستان میں مسلمانوں کے خون سے ہندوتوا کے نظریہ کو جلا بخشی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 250 سالہ بابا جون 1990 میں پرلوک سدھار جاتے ہیں اور 1991 میں راجیو گاندھی خودکش بم دھماکے میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور نرسمہا راو کے آتے ہی 1992 میں مسجد کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ اب سوال رام مندر کا تھا یا ہندو ہندی ہندوستان بنانے کا وہ آپ کے سامنے ہے ۔ دوات خالی ہونے سے پہلے خون سے بھر دی جاتی ہے اور تاریخ رقم ہوتی رہتی ہے اور سلسلہ اسی بنکم کے بنگال اور موہن کے گجرات پہ آکے ٹھرا ہے ۔ تاریخ کی کوکھ سے جنمے سوالوں پہ غور کرتی ہوں تو لگتا ہے ایک بنگالی ہندو راشٹر کا خاکہ تو پہلے سے تیار ہی تھا پھر کس نے دو قومی نظرئیے کے تحت تقسیم وطن کے وقت اس کا رخ مشرقی پاکستان بنوانے کی طرف موڑا ؟اور جب مشرقی پاکستان بن گیا تو بنگلہ دیش بنا لینا بھی آسان ہو گیا ۔۔۔! مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں اور قائد تالیاں پیٹتے رہے۔ وہ تو کمیونسٹوں نے بنگال کی کمان سنبھال لی تو دنگے رک گئے اور گجرات کو لیب بنانے کی تیاری کی گئی جسکے تجربے بہرحال کامیاب رہے اور 2014 کا عام انتخاب اور اسکے نتائج انکے عروج کا سال ثابت ہوا۔ موجودہ حکومت اندرا جی کو درگا کہتی ہے اور نرسمہا راو کا مجسمہ بنوا رہی ہے ۔کچھ دنوں میں کئی کانگریسی رہنما ہندوتوا کے لئے اپنے یوگدان کی فہرست لئے کھڑے ملیں گے ۔کچھ توبی جے پی میں باقاعدہ شامل ہوکر سرفراز ہوچکے جو بچے ہیں ان کو بھی ٹُنکی لگی ہے اب گرے کے تب۔
یقینِ شکست
مرے دل کو تجھ پہ غرور تھا، مجھےناز تھا ترے پیار پر
ترا پیار ہائے، تھا مختصر، مجھے آج اس کی خبر ہوئی