خاص مضمون :ملت ٹائمز
ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
آزاد ہندوستان میں پہلی بار آر ایس ایس کی حمایت یافتہ ایک سیاسی جماعت جو ان دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ خود اپنے دم پر برسر اقتدار آئی ہے۔اس سے قبل جنتا پارٹی کے زمانے میں 1978۔1977کے درمیان آر ایس ایس کی سیاسی جماعت جن سنگھ، جنتا پارٹی کے ایک حلیف کے طور پر حکومت میں شامل تھی۔دوسری مرتبہ 1998سے 2004کے بیچ 28پارٹیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہوکر اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں چھ سال تک ایک مخلوط سرکار کے طورپر بی جے پی اقتدار میں رہی۔اسی لئے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کے تئیں آر ایس ایس کا سیاسی نظریہ پہلی بار مکمل طور پر بااختیار ہوا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ 26مئی 2014ء کو حلف برداری کے فوراً بعد ہی آر ایس ایس کی ایک سخت گیر ہندو تنظیم وشوہندو پریشد کے سربراہ اشوک سنگھل نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ آٹھ سو سال کے بعد ملک میں ہندوؤں کی سرکار قائم ہوئی ہے۔یہ پرتفاخر جملہ اپنے آپ میں ایک تاریخ بھی سمیٹے ہوئے ہے اور مستقبل کے لئے معنی خیز بھی ہے جس کے مظاہریکے بعد دیگرے پچھلے بیس ماہ میں سامنے آتے رہے ہیں۔اشوک سنگھل کا مذکورہ جملہ صاف بتاتا ہے کہ ملک میں مختلف مسلم خاندانوں اور مغلوں کی حکومت کو بھی سنگھ کے نظریہ ساز عہد غلامی ہی مانتے ہیں۔جبکہ انگریزی دورحکومت کو ہندو نشأۃ ثانیہ کا آغاز مانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت ملک میں انگریزوں کے خلاف 1857کی بغاوت کی تیاریاں چل رہی تھیں ٹھیک اسی وقت ہندومذہب کے بڑے بڑے لیڈران ،ہندو احیاء پرستی کی تحریک کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔
واضح رہے کہ راجہ رام موہن رائے کے ذریعہ برہمو سماج کی تشکیل کا زمانہ بھی یہی تھا۔چنانچہ آر ایس ایس کے مطابق سات سو سال کی مسلم غلامی سے انگریزوں کی مدد کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کے بعد بھی 1947ء میں آزاد ہندوستان کی پہلی جمہوری سرکار بھی ہندوخواہشات کی آئینہ دار نہیں سمجھی گئی۔اس پس منظر میں اشوک سنگھل کا یہ جملہ واضح کرتا ہے کہ آر ایس ایس اپنے ہندو راشٹر کے ابتدائی نظریے کی عوامی تنفیذ کے لئے خود اپنی ہی سیاسی جماعت کی حکومت کا انتظار کرتی رہی ہر چند کی اس سے قبل کانگریس کی سرکاریں بھی در پردہ اسی ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے کوشاں رہیں مگراب جبکہ لوک سبھا میں 282نششتوں پر قابض ہوکر بی جے پی مکمل اقتدار میں آئی ہے۔تو سنگھ کی قیادت نے سکون کا سانس لیا ہے اور مستقبل کے اپنے تمام خوابوں کو تعبیر دینے کی سعی میں مصروف ہوگئی ہے۔چنانچہ گزشتہ بیس مہینے میں ملک میں جو کچھ بھی ہوا وہ اسی خواب کی تعبیر کا پرتو ہے۔ہوسکتا ہے سنگھ پریوار کا یہ خواب ان کے لئے بہت خوشگوار ہو لیکن جس زمانے میں یہ خواب دیکھا گیا اس کو اب ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں۔موجودہ زمانے میں اس خواب کی تعبیر کو زمین پر اتارنے کے لئے جو اقدامات کئے جارہے ہیں وہ خواب کی طرح خوشگوار نہیں ہیں بلکہ جہنم زار ثابت ہورہے ہیں اور اب لوگ عام طور پر یہ کہنے لگے ہیں کہ اگر یہ رام راجیہ ہے تو ہماری توبہ۔
ہندوستان مختلف مذہبی ،سماجی ،علاقائی، لسانی اور جغرافیائی قومیتوں کے مجموعے کا نام ہے۔فطری طورپر ہر حکومت کی مجبوری ہے کہ اس کا نظریہ کچھ بھی ہو وہ ان مختلف النوع طبقات کی ضروریات اور عقائد کی تکمیل کے لئے ایماندارانہ جدوجہد کرے۔ کوئی بھی حکومت جو اس تنوع کو نظر انداز کرنے کی جرأت کرے گی وہ ملک بھر میں اپنے مخالفین کی ایک بڑی فوج اکٹھا کرے گی ۔مذہبی عقیدت کا نعرہ کچھ خاص طبقات کو کسی خاص مدت تک تو مدہوش کرسکتا ہے لیکن لمبے عرصے تک اس قسم کے نعرے ساتھ نہیں دے سکتے۔ویدک کال میں جینے والے ہندوتوا کے علمبردار 2016 کے زمینی حقائق سے نابلد محسوس ہوتے ہیں۔24کوسی چھترپتی راجاؤں والے ملک کا تصور ذہن میں رکھنے والے عناصر اکھنڈ بھارت کو سنبھالنے کا کوئی منصوبہ یا نقشہ اپنے ذہن میں نہیں رکھتے۔وہ زور زبردستی کے ذریعہ 125کروڑ ہندوستانیوں پر اپنا نظریہ اسی طرح تھوپنے کی کوشش کررہے ہیں جس طرح اشکوک اعظم کے زمانے میں بودھوں پر تھوپنے کی کوشش کی تھی اور جس کا انجام ایک بھیانک خانہ جنگی کی صورت میں سامنے آیا تھا اور پھر اس کے نتیجے میں خود ہندو نظریات کو اپنے عقائد میں بنیادی تبدیلیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔آج ایک بار پھر سوا دو سو ہزار سال کے بعد ہندو راشٹر کے قیام کے ان ہی جنونیوں کو اپنے اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے آثار محسوس ہورہے ہیں مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اشوک اعظم کے زمانے میں جب نہ اسلام تھا نہ مسلمان اور نہ سکولرزم اور نہ جمہوریت نہ حقوق انسانی کے نام لیوا تھے نہ عالمی ادارے کوئی سد راہ نہ تھا بس تلوار فیصلہ ساز تھی تب اس زمانے میں وہ ناکام رہے تھے اور آج جب کہ ساری دنیا جمہوریت سیکولرزم ، سوشلرزم انسانی برادری ،دلتوں کے حقوق ان کے ریزرویشن ، پسماندہ طبقات کی تحریکیں اور ایسی ہی دیگر بہت ساری رکارٹیں موجود ہوں ایسے میں اس ویدک کال کے ہندوتوا کو نافذ کرنے کی کوشش ایک بار پھر ملک کو خانہ جنگی کی دلدل میں ڈھکیل کے توڑ تو سکتی ہے مگر ہندو راج قائم نہیں کرسکتی۔ واقعات کے پس منظر میں دیکھیں تو یہ بات خود بخود ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔
تقریب حلف برداری کے فوراً بعد وزیر اعظم کی حیثیت سے پارلیامنٹ میں قدم رکھتے وقت نریندر مودی جی نے لوک سبھا کے دروازے پر سجدہ ادا کیا تھا اور لوک سبھا کے سینٹرل ہال میں کھڑے ہو کر پہلی تعریف پنڈت دین دیال اپادھیائے کی فرمائی تھی جو آر ایس ایس کے ابتدائی نظریہ سازوں میں سے ایک تھے۔گویاپہلے ہی دن وزیر اعظم نے یہ اشارہ دے دیا کہ ان کی سرکار آر ایس ایس کی خواہشات کی آئینہ دار ہوگی۔وزیر اعظم کا یہ اعلان اور اس کے ساتھ اشوک سنگھل کا بیان ان دونوں واقعات نے ملک میں ہندوتفاخر کا ماحول پیدا کیا جس کے نتیجے میں لا محالہ طورپر مسلم مخالف اور دلت مخالف ماحول ہموار ہوا اور فرقہ وارانہ فساد میں اچانک اضافہ ہوا۔انہی فسادات کے علی الرغم مختلف قسم کی غیر ضروری بحثوں اور تحریکوں کا آغاز بھی ہواجن میں ’لوجہاد‘ گائے پر پابندی، یکساں سول کوڈکے نفاذ کا مطالبہ ،تعلیمی نظام میں تبدیلی دلت ریزرویشن پر از سر نو بحث کا آ غازوغیرہ شامل ہیں۔ پارلیمانی ادارے کو نظر انداز کیا گیا ۔ آرڈیننس کے ذریعے اہم فیصلے کئے گئے ۔ آستھا کے نام پر اروناچل کی چنی ہوئی سرکار کو گرا دیا گیا عدلیہ کے فیصلوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کے کردار کو بحث کے زمرے میں لایا گیا ۔ پورے ملک میں اضطراب کی جو لہر دوڑی اس نے ملک کے دانشور طبقے کو بے چین کردیااور انہوں احتجاجاً اپنے ایوارڈ واپس کرنے شروع کردئیے۔ملک میں عدم رواداری کی بحث چلی اور میڈیا نے ان تمام بحثوں کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا۔ایسا پہلی بار دیکھنے میں آیاکہ رواداری اور عدم رواداری کے دوران اکثر مبابحثوں میں فوجیوں اور سابق فوجیوں کو پیش کیا گیا اور ان کے ذریعے وطنیت اور قوم پرستی کے جذبات کو ہر بحث سے اوپر بتانے کی کوشش کی گئی ۔پارلیامنٹ اور عدلیہ کے رول کو کم کرکے دکھانے کی کوشش کی گئی ملک کے مروجہ دستور پر سوالیہ نشان کھڑے کئے گئے اور ان پر بحثوں کا نئے سرے سے آغاز کیا ہے اور ان تمام بحثوں میں بار بار ہندو احیاء پرستی کو ترجیحی بنیاد وں پر پیش کیا گیا اور پورے ملک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ہندو قومیت ہی اصل ہندوستانی قومیت ہے اور جو اس قومیت کا انکار کردے وہ غدار وطن ہے اور ان غداروں کو سزا دینے کے لئے عدلیہ کافی نہیں ہے بلکہ ہندو قوم پرستوں کے ہجوم ہی اس کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ان تمام حالات میں ہندو قوم پرستوں کی جانب سے چلائی جانے والی تحریک سے تین نکات کھل کر سامنے آتے ہیں
1۔ملککے عام ہندوؤں میں احساس تفاخر کا فروغ۔
2۔پارلیمانی اداروں اور عدلیہ کی نفی، تضحیک اور تذلیل۔
3۔بزور قوت مخالف آوازوں اور تحریکوں کو عوامی بھیڑ کے ذریعے کچل دینے کی کوشش۔
گزشتہ بیس مہینوں میں ملک میں بیشتر سرکاری اداروں اور ایجنسیوں کے ذریعے ان ہی تینوں نکات پر عمل آوری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔مختلف وزراء کے بیانات ،وزیر اعظم کی خاموشی، میڈیا کے ایک بڑے طبقے کی جانب سے ان موضوعات پر کی جانے والی پرشور اور غیر اخلاقی بحثیں ،پولیس اور فوج کے ذریعے ہندو قوم پرستی کے مخالفین کی سرکوبی اور ان کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا قیام یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کو بتدریج ایک ایسی راہ پر لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں طوعاُ اور کراہاً ملک کا ہر طبقہ اس نظریے کو قبول کرنے پر مجبور ہوجائے اور جو نہ مانے ان کے ساتھ زبردستی کی جائے۔حالیہ ایام میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کا واقعہ اور ہریانہ ریزرویشن کی جاٹ کی تحریک اس کی بھرپور مثالیں ہیں۔جہاں فسطائیت بے نقاب ہو کر سامنے آکھڑی ہوئی۔واقعات کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن جے این یو میں ہر ہر قدم پر فسطائیت نے اپنے طریقہ کار کو بھرپور انداز میں بروئے کار لانے کی کوشش کی ہے۔وہ چاہے کچھ نقاب پوشوں کے ذریعے ملک مخالف نعرے لگانے کا معاملہ ہو یا یونین کے صدر کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کے لئے ریاستی پولیس کا بھرپور استعمال ہو یا وکیلوں کے لباس میں غنڈوں کے ذریعے جج کی موجودگی میں اس بے قصور کو قتل کرنے کی کوشش ہویا ایک کمیونسٹ مسلم لڑکے کو جہادی ثابت کرنے کا منصوبہ ہر جھوٹ کو میڈیا ٹرائل کے سہارے سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ملک کے عام لوگوں کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے چلنے والی یونیورسٹیاں غداران ملک کی آماجگاہ بن گئی ہیں اور ان سے نجات کے لئے ملک کا قانون پولیس اور دوسری ایجنسیاں ناکافی ہیں اس لئے عوام کی ذمہ داری ہے کہ غداروں کو خود کیفر کردار تک پہنچادیں۔دوسری جانب ہریانہ میں جاٹ ریزرویشن کی تحریک کو کچلنے کے لئے پوری ریاست میں فوج کو تعینات کیا گیا جمہوری طریقوں سے چنی ہوئی حکومت امن وامان اور نظم نسق قائم رکھنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی، مگر کسی نے اس کے استعفےٰ کا مطالبہ تک نہ کیا۔سیکڑوں کروڑوں روپئے کی املاک خاکستر کردی گئی سولہ سے زیادہ لوگ مارے گئے اور دو سو کے قریب زخمی ہوئے ۔صوبے میں شہر بشہر غنڈے اور لٹیرے کھل کھیلتے رہے حتی کہ فوج بھی انہیں روکنے میں زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ ہندوتوا وادی حکومت کے زیر انتظام فوج کو بلانے کے باوجود حالت میں زیادہ بہتری نہ آسکی۔
ان دونوں واقعات کا ایک ساتھ تجزیہ کیا جائے تو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ ملک کی سیاست کا رخ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔یہ واقعات اور ان پر حکومت اور آرایس ایس کا رد عمل یہ بتا رہا ہے کہ د انستہ طورپر ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ نظریاتی طورپر ملک کی ہیئت کو بدلا جاسکے اور ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ بد امنی اور افرا تفری کے عالم میں جمہوری طورپر چنی ہوئی سرکار بے بس اور معذور ہوجائے اور امن وامان برقرار رکھنے کے خاطر اور فوجی حکومت کے سوا کوئی چار�ۂکار باقی نہ بچے ۔ فی زمانہ ملک کی مسلح افواج کا نظریہ اور رویہ بھی واضح ہے کہ فوج کے بڑے افسران ریٹائرہونے کے بعد بی جے پی میں ہی شریک ہوتے ہیں۔میڈیا کی بحثوں میں بھی سابق فوجیوں کے نظریات بہت واضح ہیں۔شایہ یہی وجہ ہے کہ ملک کے عمومی حالات جن کا فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے ان معاملات پر تبصرے کے لئے بھی فوجیوں کی مدد لی جارہی ہے۔ موقع موقع ہونے والے دہشت گردی کو واقعات میں شہید ہونے والے چند فوجیوں کو خوب خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے مگر سینکڑوں مقروض کسانوں کی خودکشی پر ایک آنکھ بھی نم نہیں ہوتی۔یہ بھی واضح رہے کہ ان دنوں فوج کے اعلی قیادت کے تینوں زمروں میں بلکہ ہر بٹالین کے افسران تک کے اوپر اعلیٰ ذات ہندوؤں کا قبضہ ہے۔آزادی سے قبل ایک مسلم بٹالین ہوا کرتی تھی جسے بعد میں توڑ دیا گیا ۔حالانکہ سکھ ریجیمنٹ برقرار رہی ۔ریزرویشن کے قانون کا اطلاق فوج پر نہ کرکے دلتوں اورپسماندہ طبقات کو فوج سے دور رکھا گیا ۔1984کے سکھ مخالف فسادات سے قبل فوج میں سکھوں کی تعداد 33%سے زائد ہوا کرتی تھی جو مذکورہ فسادات کے بعد گھٹ کر اب دس فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ تیار کرتے وقت جب اس کمیٹی نے فوجی افسران سے فوج میں مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں استفسار کیا تھا تو فوج نے یہ اعدادوشمار دینے سے انکار کردیا تھا۔صاف محسوس ہوتا ہے کہ دانستہ طورپر ایک لمبے عرصے سے منصوبہ بند طریقے پر ہماری فوج کو اعلیٰ ذات ہندوؤں کے زیرنگیں رکھا گیا ہے۔ایسے میں ملک گیر سطح پر ہونے والی کسی بھی شورش ،خانہ جنگی یا بد امنی سے نمٹنے کے لئے یہ زعفران زار فوج جو ہندو قوم پرستوں کے زیر حکومت ہو کیا گل کھلائے گی اسے سمجھاجا سکتا ہے۔ جان بوجھ کر ملک کو انارکی اور خانہ جنگی کی جانب دھکیلا جا رہاہے۔ اس کے بعد اسی فوج کے ذریعے ملک کے دستور عدلیہ اور انتظامیہ کو یکسر کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔چنانچہ جمہوری طریقوں سے جو حاصل نہیں کیا جاسکتا وہ خانہ جنگی کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔لیکن اگر ملک کے تمام طبقات اس سازش کو پورے طورپر سمجھ لیتے ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہوجاتے ہیں تو یقیناًہندو راشٹر کا یہ بھیانک خواب توڑا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں۔)