فرضی ہی سہی مگر ایک سرٹیفکٹ دے دو پلیز…..

خاص مضمون :ملت ٹائمز
زین شمسی
کیا ہوا ہے؟کچھ بھی نہیں ہوا ہے؟کس نے کہا ہے؟ مجھے تو پتہ نہیں ،اچھا آپ کہہ رہے ہیں تو مان لیتا ہوں ،لیکن مجھے تو ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا۔یہ کہنا ہے ایک ایسے ماسٹرجی کا جو 20سے 25بچوں کو اکیلے ہی تمام طرح کا علوم سکھاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ٹی وی نہیں دیکھتا اور اور ٹوئٹر اور فیس بک کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں جانتا۔ ان کی باتیں حیران کن تھیں ،کیونکہ میں نے ان سے پوچھ لیاتھا کہ ملک میں محب وطن اور غدار وطن کا سرٹیفیکٹ تقسیم کیا جارہا ہے۔ عدم رواداری اور رواداری کی بات ہورہی ہے۔ تعلیم کا بھگوا کرن ہو رہا ہے،کیا آپ کو نہیں لگ رہا کہ دیش ٹوٹ رہا ہے۔اسی سوال کے جواب میں انہوں نے مذکورہ باتیں کہیں۔ان کے جواب پر غور کرنے سے ایک بات تو ضرور سمجھ میں آئی کہ آج کے دور میں جو لوگ ٹی وی نہیں دیکھتے اور سوشل میڈیا پر نہیں ہوتے وہ واقعی مطمئن ہیں ،کیونکہ ملک میں جو آگ لگی ہے ،وہ اسی میڈیا کے توسط سے لگائی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر گالیوں کی بوچھار ہے ،خواہ وہ کسی بھی طرح سے ہو۔ ہر اچھی بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے جھوٹ بولا جا رہا ہے ۔ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے 100 جھوٹ بولے جا رہے ہیں۔ عجیب و غریب دلائل کے ساتھ اپنی باتوں کو اونچا رکھا جا رہا ہے۔ جھوٹ کی ایسی کھیتی ہورہی ہے کہ اس کا فصل کاٹنے والے بھی جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں۔ ایسے میں وہی لوگ پرسکون ہیں جو اپنے کام میں مشغول ہیں اور ٹی وی اور سوشل میڈیا سے دور ہیں، مگر ایسے کتنے لوگ ہیں،کتنے لوگ ہیں جو خود کو قومی خبروں اور قومی سروکاروں سے دور رکھنے میں کامیاب ہیں۔
زی ٹی وی نے جس طرح کی آگ لگائی ہے اور جسے اس آگ لگانے کا تحفہ سیکورٹی فراہم کرنے کی شکل میں ملا ہے وہ قوم کے لیے انتہائی خطرناک حکمت عملی ہے۔روزانہ اپنے پروگرام میں سپریم کورٹ کا جج بن کر جس طرح اس کے اینکر اپنیمہمانوں کو غدار ثابت کر رہے ہیں ،وہ ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی کا سب سے مکروہ چہرہ ہے ،زی ٹی وی کے تقریباً تمام اینکر برسر اقتدار پارٹی کے نیکر بنے ہوئے ہیں۔ کھلے عام ملک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں، ،جیسے انہیں ملک کے ٹکڑے کرنے کی سپاری دے دی گئی ہو۔جے این یو معاملہ کے بعد تو مودی ، امت شاہ سمیت تمام بڑے لیڈران زی ٹی وی کے ہی بتائے ہوئے راستہ پر نکل چل پڑے ہیں۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں بھی اسی موقف کا اظہار کیا گیا جو زی ٹی وی نے بنایا۔ایک ایسے اینکر پر آج ملک کی سب سے بڑی پارٹی انحصار کر چکی ہے جو تاوان وصول کرنے کے جرم میں جیل کی ہوا کھا چکا ہے۔ اس پورے معاملہ میں امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے تو وہ زی ٹی وی کے اس رپورٹر کا استعفیٰ ہے ، جس نے زی ٹی وی کی یہ دلالی بہت نزدیک سے دیکھی تھی۔
جاٹوں نے پٹریاں اکھاڑیں ، پربھو نے ریل چلا دی ،کہانی ختم ہو گئی۔ادھر اسمرتی ایرانی نے پارلیمنٹ میں اداکاری کے وہ جو ہر دکھائے کہ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ اداکاری کا کیڑا آج بھی ان کے اندر موجود ہے ،بس اسکرپٹ اچھی ہونی چاہیے۔مبینہ فرضی سرٹیفکٹ والی وزیر تعلیم جب اصلی میں چلانے لگے تو دیش کے اس شعبہ کا چلانا فرض بن جاتا ہے ،جو تعلیم کو فضول سمجھتا ہے۔ اسی لیے روہت ویمولا ہو یا کنہیا کمار اس کی چلاہٹ پر سرکار اور سرکار کے حامیوں کی چلاہت حاوی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ دیکھے بغیر کہ کس کی چلاہٹ اصلی ہے ، لوگ یہ فیصلہ لینے لگے کس نے زور سے چلایا۔پارلیمنٹ میں کیا ہو رہا ہے۔زی ٹی وی کہتا ہے کہ اسمرتی ایرانی نے سب کی بولتی بند کر دی۔ہاں اسمرتی ایرانی کا ڈائیلاگ بہت اچھا لگا کہ اگر آپ میری بات کی حمایت نہیں کرتے تو میں اپنا سر قلم کرادوں گی۔ زبردست مکالمہ تھا۔اس مکالمہ نے ایک ڈائیلاگ یاد دلایا کہ اگر سو دن کے اندر کالادھن نہیں آیا تو مجھے پھانسی پر چڑھا دینا شک ہوتا ہے کہ دونوں کرداروں کا اسکرپٹ رائٹر ایک ہی تو نہیں۔ڈائیلاگ بازی الگ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس کا سبب معلوم ہو سکا کہ ویمولا نے خود کشی کیوں کی ؟اور کنہیا کمار کو کیوں جیل میں بند کر دیا گیا، کیونکہ یہ تو اب تک واضح ہو گیا ہے کہ دیش کے خلاف نعرہ لگانے والوں میں کنہیا کمار شامل ہی نہیں تھا۔عدالت میں دنگل ہوا۔وکلا نے دنگا ئیوں کی طرح کنہیا کمار کو پیٹا، ہاتھوں میں دیش پریمی کا جھنڈا اور جھنڈے کے نیچے غدار وطن کا ڈنڈا۔خوب حب الوطنی دکھائی۔عدالت مجبور ، پولیس تماشائی۔ وکلا اور بی جے پی ممبر اسمبلی سرشار ۔معمول کی کارروائی کے بعد با عزت بری ۔ یہی قانون ہے ،یہی انتظامیہ ہے اور یہی سرکار کی حکمت عملی بھی۔وکلا کی کالی کرتوتوں کا فیصلہ ایک ہی دن میں ہوگیا اور وہ بھی ان وکلا کا جو اسٹنگ آپریشن میں صاف کہہ چکے ہیں کہ ہم نے کنہیا کو اتنا مارا کہ اس کی پینٹ گیلی ہوگئی۔ ان لوگوں نے صاف کہا کہ اس پورے معاملہ میں پولیس اس کے ساتھ تھی۔ ان غدار وطن کو کلین چٹ دینے میں دیر نہیں لگی اور کنہیا کمار اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر نے کے لیے بی ایس ایف تک لگا دی گئی۔گیان دیو آہوجا نے جو گیان بانٹا، اس کا تو جواب ہی نہیں ہے۔ اب تک ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی پر یہ الزام عائد کئے جاتے رہے کہ وہ کوئی کام ہی نہیں کرتے ،لیکن آہوجا صاحب کی کارکردگی دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکیگا ، کیونکہ انہوں نے اپنے منصب پر رہتے ہوئے کم از کم کنڈوم کا شمار تو کیا۔ہڈیوں اور سگریٹ کے بٹ تو گنے۔ایک اور دش بھکت بی جے پی رہنما کہتے ہیں کہ جے این یو کی لڑکیاں طوائف ہیں ،وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ جے این یو میں اے بی وی پی کی بھی لڑکیاں ہیں، کیا وہ یہ بات ان کیلیے بھی کہہ رہے ہیں۔گویا پرخاش نکالنے کے لیے اتنی نچلی سطح پر بات ہو رہی کہ اس دیش کا اب بھگوان ہی مالک ہے۔راج ناتھ سنگھ جیسے لیڈر کا یہ کہنا کہ کنہیا کی پیٹھ پر حافظ سعید کا ہاتھ ہے ، سیاست کے تمام حساب کتاب کو ہی برباد کر رہا ہے۔اب تک کوئی یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اگر ملک کے خلاف کچھ بھی کسی نے کیا ہے ،اسے سزا دی جائے ،بس جے این یو کو ہی ٹارگیٹ پر لے لیا گیا ہے۔تاکہ وہاں سے بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف آواز نہ اٹھ سکے ،کیونکہ پارٹی کے خلاف آواز اٹھانے کا مطلب ہے ، ملک سے غداری اور اس فارمولہ پر دیکھیں تو جے این یو ہی ملک کا غدا رہے۔ کم از کم یہ بھی سوچنا چاہیے کہ سرکار ، پولیس اور زی ٹی وی کی ملی بھگت سے جے این یو کو بدنام کرنے کی کارستانی سے پریشان ہو کر اے بی وی پی کا جوائنٹ سکریٹری ہی استعفیٰ دینے پر مجبور ہوا ہے۔پھر بھی دل ہے کہ مانتا نہیں۔
جاٹوں کا ہی معاملہ لے لیجئے۔50ہزار کروڑ کا نقصان کرنے کے باوجود سرکار یہ کہتی ہے کہ انہیں کوٹا دیا جائے گا۔ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں اور ادھر مودی کی ریاست میں پٹیل آندولن کو ختم کرنے کے لیے ہاردک غدار وطن۔ امت شاہ کہتے ہیں کہ جو لوگ ملک کے خلاف نعرہ لگاتے ہیں ،کیا انہیں پتہ نہیں ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں کتنے لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ وہ اتنے اطمینان کے ساتھ یہ بات کرتے ہیں ،جیسے جتنے بھی مجاہدین آزادی تھے وہ آر ایس ایس کے تھے بھگو ا بریگیڈ تھے۔ ایک ایسی پارٹی جو خود ہی کبھی دیگر پارٹیوں کے لئے چھوتبنی ہوئی تھی ،ایک ایسی پارٹی جس کا ملک کی تعمیر میں کہیں وجود نہیں تھا ،اس نے آج حب الوطنی کے سند کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ آج وہی پارٹی سب کو چھوت مان رہی ہے اور کھلے عام یہ کہنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی آدمی جو بی جے پی یا سنگھ کی مخالفت کرے گا وہ دیش دروہ ہے۔ گویا بی جے پی ہی دیش ہے اور سنگھ ہی قوم ہے۔
بہر حال اگر سکون کی نیند لینی ہو تو ٹی وی اور سوشل میڈیا سے الگ رہیں۔ اپنے کام سے مطلب رکھیں ،یا پھر کہیں کسی آر ایس ایس یا بی جے پی کے چٹھ بھئیوں کو بہلا پھسلا کر یا رام کر کے یا پیسہ دے کر یاان کے قدموں میں گر کر کسی بھی طرح محب وطن کا ایک سرٹیفکٹ، فرضی ہی سہی، لے لیجئے گا، زمانہ خراب ہے۔کب کہاں ،کس وقت اس کی ضرورت پڑ جائے گی،احتیاط برتیں۔

SHARE