داڑھی رکھنے پر مسلم فوجی کی معطلی کے خلاف دہلی ہائی کورٹ کا اسٹے ،جمعیۃ علماءہند کی بروقت کاروائی سے فوجی کو راحت ، مولانا ارشد مدنی کا اظہار اطمینان


نئی دہلی (ملت ٹائمزعامر ظفر)
ہندوستانی فوج کے آرمس فورس شعبہ میں گزشتہ 12سال سے ملک کی خدمت انجام دینے والے ایک مسلم فوجی جوان کو آج اس وقت ایک بڑی راحت مل گئی جب جمعیة علماءہندکے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیة کی جانب سے داخل پٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ نے ٹریبونل کے اس فیصلہ پر فوری روک لگاتے ہوئے اسٹے جاری کر دیا جس کے تحت کمانڈنگ آفیسر نے آرمس فورس ٹریبونل کے حکم کے مطابق داڑھی رکھنے کی پاداش میں مسلم جوان کا کورٹ مارشل کرکے اسے سروس سے معطل کرنے کی کاروائی شروع کردی تھی۔
آندھرا پردیش کے گنتور ضلع کے خواجہ معین الدین پاشانامی فوجی جو فی الحال اترا کھنڈ میں تعینات ہےں، نے 2011میں کمانڈگ آفیسر سے اجازت طلب کرکے داڑھی رکھنا شروع کیا تھا لیکن 2014میں اس کی کولکتہ پوسٹنگ کے وقت اچانک اس کے کمانڈگ آفیسر نے اس سے داڑھی منڈانے کا مطالبہ شروع کردیا اور جب مسلم فوجی نے داڑھی نہیں منڈوائی تو اس کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے سمری کورٹ مارشل شروع کردیا اور دہلی کی آرمس فورس ٹریبونل نے بھی فوجی کے خلاف کورٹ مارشل کی اجازت دے دی ۔ اس معاملہ کی آئندہ سماعت اب 23اگست کو ہوگی۔جمعیة علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ مسلم فوجی کوعدلیہ سے انصاف ضرور ملے گا۔
واضح ہو کہ آرمس فورس ٹریبونل کے فیصلہ کے خلاف جمعیة علماءنے دہلی ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی ۔ سماعت کے دوران ہائی کورٹ کی دورکنی بینچ کے جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس نوین چاولہ نے ٹریبونل کے فیصلہ پر فوری طور پر روک لگاتے ہوئے معاملہ کی سماعت 23 اگست تک ملتوی کردی ۔ بینچ کے سامنے جمعیة کی جانب سے مقرر کردہ وکلاءجیوتی سنگھ راوت ،ایڈوکیٹ ارشاد حنیف اور ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے بتا یا کہ داڑھی رکھنا اسلام میں فرض ہے اور ملک کے آئین نے ہر ہندوستانی شہری کو اس کے مذہب پر عمل کرنے اور اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھنے کی مکمل آزادی اور اجازت دی ہے۔ انہوں نے عدالت میں بتایا کہ فوجی خواجہ معین الدین پاشا نے کمانڈنگ آفیسر سے اجازت طلب کرکے داڑھی رکھی تھی جس پر گذشتہ چار سال سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیالیکن 2014میں اس کی کولکتہ میں پوسٹنگ کے وقت اس کے کمانڈنگ آفیسر نے اس کے داڑھی رکھنے پر اعتراض کیا اور ا سے داڑھی منڈانے کا حکم دیتے ہوئے معاملہ کوکورٹ مارشل کے لئے بھیج دیا ۔وکیل دفاع نے عدالت کو مزید بتا یا کہ آزادی کے بعد سے ہی ہندوستانی فوج کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمت انجام دینے والے مسلم فوجیوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت دی جاتی رہی ہے البتہ ا سکے لئے انہیں اجازت حاصل کرنا پڑتی تھی ،جو انہیں آسانی سے مل جاتی تھی لیکن اس کے باوجود کمانڈنگ آفیسر نے سمری کورٹ مارشل کی کاروائی کرکے ان کے موکل مسلم فوجی کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔دفاعی وکلاءکے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے آرمس فورس ٹریبونل کے فیصلہ پر روک لگادی ۔ واضح رہے کہ خواجہ معین الدین بھاشا نے 2005میں فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس نے 2011سے داڑھی رکھنا شروع کیا تھا ۔
دہلی ہائی کورٹ کے اس کے فیصلے پر جمعیة علما ہند کے صدر مولانا سید ارشدنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ آخری فیصلہ نہیں ہے تاہم انہیں یقین ہے کہ مسلم فوجی کو عدالت سے انصاف ملے گا۔مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے آئین اور قانون میں ہر مذہب کے ماننے والے شخص کو اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھنے اور مذہبی امور انجام دینے کی مکمل آزادی فراہم کرائی ہے ۔ ایسے میں اگر کسی سے اس کے اس اختیار کو چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے یہ انصاف اور آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔مولانا مدنی نے کہا کہ یہ معاملہ اس لئے بھی کافی اہم ہے کیونکہ اس کا اثر مسلح افواج میں خدمات انجام دینے والے مسلمان جوانوں پر اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی عدلیہ پر مکمل بھروسہ ہے ۔عدالتوں سے ماضی میں انصاف ملتا رہا ہے اور انشا اللہ اس معاملے میں بھی انصاف ملے گا۔