2019 کا مشن اب بھی آسان نہیں کرپشن اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرست طاقتوں میں سب سے پہلے کس کو روکنا ضروری ہے؟

تبسم فاطمہ
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ،اترپردیش اسمبلی انتخاب میں بی جے پی کی زبردست جیت کے بعد یہ تبصرہ عام تھا کہ کاش اترپردیش کے عوام نے، بہار کے عوام کی طرح اتحاد کا مظاہرہ کیا ہوتا تو وہاں بھی بھاجپا کو مثالی جیت حاصل نہیں ہوتی ۔ صرف بیس ماہ کی مدت کے بعد بہار میں عظیم اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا۔ نتیش کے کھلے سیاسی کھیل نے کسی کوبھی حیرت میں نہیں ڈالا ، کیونکہ اس کی آگاہی بہت پہلے ہو چکی تھی ۔ ہاں سیاسی تماشہ کے لئے نتیش نے 26 جولائی کا دن مقرر کیا ۔ استعفی دیا ۔ گورنر سے ملنے چلے گئے ۔دو منٹ میں وزیر اعظم مودی کی طرف سے مبارکباد کا پیغام آ گیا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے محض کچھ گھنٹے میں بہار میں این ڈی اے کی حکومت بن گئی ۔ نتیش بی جے پی کے کھلے کھیل سے واقف تھے ۔ پہلے اس کھلے کھیل کی حقیقت کوجان لیجئے ۔ بی جے پی کے ذریعہ اٹھائے گئے ہر قدم کے پیچھے ذراسی تلاش کے بعد ،آپ کو دو پہلو نظر آجائیں گے۔ ایک پہلو عوام کی مخالف میں نظر آئے گا جسے بھکت اور سوشل میڈیا عوام کی پرزور حمایت اور ملک کے فروغ میں معاﺅن ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوڑی کا زور لگادیں گے ۔ہندوستان کی نئی سیاست میںاہم کردار اب اس کنفیو زن کا ہوگیا ہے ۔ مثبت اور منفی دونوں طرح کے رویوں کے درمیان دیش بھکتی کا معاملہ اٹھاکر منفی رویوں کو حاشیہ پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ نتیش ان تین برسوں کی سیاست میں اس راز سے واقف ہوگئے تھے کہ اب این ڈی اے کے ساتھ چلناہے تو سیاست کے اسی کھلے کھیل میں حصہ داری ثابت کرنی ہوگی ۔ بیس ماہ کی حکومت میں زیادہ ترخاموش رہنے اور کچھ عجیب و غریب بیانات سے وہ عوام کو کنفیوز کرنے کا کھیل کھیلتے رہے۔ لیکن سرجیکل اسٹرائیک ،نوٹ بندی پر مودی کی حمایت کے بعد یہ صاف ہوگیا تھا کہ جلد ہی عظیم اتحاد سے پلڑہ جھاڑ کر وہ ان ڈی اے کے ساتھ حکومت بنالیں گے۔ میرا کمار کی مخالفت کے بعد صرف دن گننا باقی رہ گیاتھا کہ آخر نتیش ان ڈی اے کے دامن کو کب تھامتے ہیں۔ ۲۸ جولائی این ڈی اے کی نئی حکومت بننے کے ساتھ بہار کے عوام بالخصوص مسلمان خود کو ٹھگے ہوئے محسوس کررہے ہیں۔ لیکن ان سب سے ایک بڑا سوال اس وقت ہندوستانی سیاست کے سامنے ہے اور وہ یہ ہے کہ نئی سیاست ،نئی حکمت عملی میں حکمراں پارٹی کی طاقت اور تسلط کے آگے کیا اب عوام کی حیثیت ختم ہوچکی ہے۔؟
ہندوستانی سیاست میں اب اخلاقیات پر مشتمل سوالوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔ منی پور اور گوا میں کانگریس کو اس وقت جھٹکا لگا جب دیکھتے ہی دیکھتے عوام کی پسند کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں بی جے پی نے جھنڈے گاڑدیے ۔ یوپی اسمبلی کے نتائج سامنے آئے تو اے وی ایم مشین تک کا حوالہ دیاگیا مگر بی جے پی نے ایسے الزامات یا حوالوں سے جھکنا یا متاثر ہونا سیکھا ہی نہیں ہے ۔ بنگال میں ممتا بنرجی اور دہلی میں کجریوال کی حکومت بھی اب خطرے میں دکھائی دے رہی ہے ۔ بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کا جو نعرہ دیا تھا ۔ اب وہ اس نعرے کے بہت قریب پہنچتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ غور کریں تو اس نعرے کے بعد نتیش نے سنگھ مکت بھارت کانعرہ لگایا تھا ۔ بہار اسمبلی انتخابات سے قبل بھی نتیش این ڈی اے کا ہی حصہ تھے ۔بہار کی سیکولر اور جمہوری فضا اور بہاری عوام کے رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے نتیش نے وقت کا انتظار نہیں کیا، سوشیل مودی سے پلڑا جھاڑ لیا۔
کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ عظیم اتحاد نے مورچہ سنبھالا تو مودی غصے میں یہاں تک کہہ گئے کہ نتیش کے ڈی ان ایے میں گڑبڑی ہے ۔ اس بات سے بہار کی سیاست میں زلزلہ آگیا۔ یہاں وزیر اعظم مودی سے صرف ایک چوک ہوئی ۔نتیش کا ڈی ان اے وہی تھا جو بی جے پی کا تھا۔ ہاں بہار کے عوام کا ڈی ان اے مختلف تھا ۔ لیکن اب لگتا ہے کہ ہندو راشٹر کے نعرے اور ملک میں تیزی سے آگے بڑھتی بی جے پی کی مہم نے اکثریتی طبقے کے ڈی ان اے کو ایک کردیا ہے ۔ نتیش سنگھ مکت بھارت کاخیال چھوڑ کر سنگھ کاحصہ بن گئے ۔ 27 جولائی کی تاریخ کو ہندوستان کی سیاست میں اخلاقیات کی موت کے نام سے بھی یاد کیاجائے گا ۔
ایک سوال ہے کہ بہار کی اس نئی سیاست سے ہندوستان کے عوام کس حد تک متاثر ہوں گے؟اس کاجواب بہت آسانی سے نہیں دیاجاسکتا ۔آزادی کے بعد سے اب تک اگر بہار کی سیاست کارنگ دیکھا جائے تو بہت حد تک اخلاقی نظام اور جمہوریت کا کردار حاوی رہاہے۔فسادات کے دور میں بھی بہار نے گنگاجمنی تہذیب اور قومی یکجہتی کامظاہرہ کیا ۔ال کے اڈوانی کے رتھ کو روکنے والی پہلی ریاست بہار تھی ۔ اسی طرح جب 2014 لوک سبھا میں شاندار فتح کے بعد بی جے پی کی نظر بہار پر تھی ،تو بہار کے عوام نے متحد ہوکر لالو پرساد یادو اور نتیش کے حق میں ووٹ کیا ۔ کانگریس بھی ایک بھی مضبوط کڑی ثابت ہوئی ۔ تازہ پس منظر پر غور کریں تو لالو پرساد یادو کے خاندان اور کرپشن کو بنیاد بناکر نتیش نے سوشیل مودی کے ساتھ مل کر آسان سا جو اکھیلا اور اس کھیل میں پوری بازی ان کے ہاتھ میں تھی ۔اس کھیل میں صرف ایک بات ہوئی جس پر غور کرنا ضروری ہے ۔ کرپشن اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی میں سب سے پہلے کس کو ختم کرنا ضروری ہے؟ اگر لالو پرساد یادو کرپٹ ہیں تو مدھیہ پردیش کے ویاپم گھوٹالہ سے لیکر چھتیس گڑھ ،راجستھان اور مہاراشٹر تک کوئی بھی ایسی ریاست نہیں ہے جہاں کرپشن کا الزام نہ لگا ہو۔ کرپشن کو مہرا بناکر آناً فاناًنتیش نے سیاسی کارڈضروری کھیلالیکن اس کھیل میں ان کا مستقبل بھی روشن نہیں بلکہ تاریک ہے ۔ نتیش کی بوکھلاہٹ یہ تھی کہ جے ڈی یو نے انہیں مستقبل کا وزیر اعظم تسلیم کرلیا تھا۔ لیکن نتیش کمار کانگریس کی کمزوری ،بسپا اورسپا کے بکھراﺅ کے ساتھ دنوں دن کمزور پڑتے کیجریوال اور ممتا بنرجی کو بھی دیکھ رہے تھے، جو مرکزی حکومت کے دباﺅ میں اس طرح آ گئے تھے جیسے مظلوم جانور شیر کے جبڑے میں آگیا ہو۔ نتیش کی نظر ۲۰۱۹ کے انتخاب پر تھی۔ اوروہ یہ سمجھ چکے تھے کہ اپازیشن متحد بھی ہوجائے تو مودی اور بی جے پی کے فتح کے رتھ کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔
وہ اس حقیقت کو تسلیم کرچکے تھے کہ اب ان کا وزیر اعظم بننا ناممکن ہے۔ لالو پرساد یادو کا بیان یا دکیجئے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نتیش پر قتل کا الزام ہے۔ نتیش کو اس بات کا بھی خطرہ تھا کہ لالو پرساد یادو کے بعد کہیں خفیہ ایجنسیاں ان کے ریکارڈ کی چھان بین نہ شروع کردیں۔ یہ انتقامی سیاست کے دباﺅ کا وہ صفحہ ہے جہاں نتیش کے ساتھ کجریوال اورممتا بھی خود کو کمزور محسوس کررہے ہیں بلکہ نئی سیاست وہاں آگئی ہے جہاں اقتدار پر انتقام اور مشن حاوی ہوگیا ہے۔
اس پورے سیاسی پس منظر میں اگر کوئی حاشیہ پر ہے تو وہ مسلمان ہے۔ اترپردیش میں وزیراعلیٰ یوگی رام مندر بنانے کی بات کرتے ہیں تو مسلمانوں کے جذبات کا خیال نہیں رکھتے۔ ان سی آر ٹی کی کتابوں سے غالب اور ٹیگور کو غائب کردیا جاتا ہے۔ تعلیمی نظام کو زعفرانی رنگ دینے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ نئے صدر جمہوریہ ہند کی تقریر میں گاندھی جی کے ساتھ دین دیال اپادھیائے کا نام لیا جاتا ہے اورباقی نام فراموش کردیے جاتے ہیں سیاست کے اس نئے رنگ میں اخلاقیات کا صفحہ غائب ہوچکا ہے۔ یہ نیا صفحہ ہے کہ جوآج آپ کا کٹر حمایتی بن کر سامنے آرہاہے، وہی کل آپ کا مخالف بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بی جے پی کا نیا ماڈل ہے جہاں کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے ترجمان زعفرانی رنگ میں رنگے ہوئے اب آر ایس ایس کے مشن کو آگے بڑھارہے ہیں۔ اس نئے نظام سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ممکن ہے ایک دن بی جے پی کی یہ فراخدلی بی جے پی کو مہنگی پڑ جائے۔ بہار انتہا پسند اور فسطائی طاقتوں کے آگے ایک مضبوط دیوارکی طرح تھا، نتیش کمار نے دھوکہ سے اس دیوار کو ڈھانےکی کوشش کی ہے— لیکن یہ بھی کہاجارہا ہے کہ لالو پرساد یادو کا کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔ بہار کے پس منظر کا جائزہ لینے کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ بی جے پی کے لیے ابھی بھی ۲۰۱۹ کا سفر آسان نہیں۔ کچھ سودے اکثر مہنگے ثابت ہوتے ہیں۔
tabassumfatima2020@gmail.com