حالات آپ کے حق میں کبھی تھے ہی نہیں!

محمد آصف اقبال
کانگریس اور اس کی ہمنوا جماعتیں عموماً آر ایس ایس اور اس سے وابستہ جماعتوں و تنظیموں پر الزام تراشی کرتی ہیں۔ وہیں بی جے پی اور اس کی ہمنوا جماعتیں کانگریس کے گزشتہ پچاس سالہ دور اقتدار، اس کی کمیوں، خرابیوں، بے اعتدالیوں اور نفرت پر مبنی سیاست کے دوران منظر عام پر آنے والے مسائل کو خود انہیں کے چشمے سے آئینہ دکھاتی ہیں۔ ہندوستان میں آزادی سے قبل فسادات کا سلسلہ جاری ہوا جس نے ملک کے ہندومسلم اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔ نیز ان فسادات کے ذریعہ جہاں دو قوموں کے درمیان دوریاں پیدا ہوئیں وہیں جان و مال اور عزت و آبرو بھی پامال ہوئیں۔ بی جے پی کہتی ہے کہ یہ سب کانگریس کے دور اقتدار میں ہوا۔ تو کانگریس جو ملک کی سب سے بڑی ومنظم سیاسی جماعت ہے اور جس نے گزشتہ پچاس سال پرسکون حالات میں حکومت کی باگ دوڑ سنبھالی کہتی ہے یہ سب فرقہ وارانہ اور متشدد لوگوں کے ذریعہ انجام دی جانے والی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔عوام سمجھ نہیں پاتے کہ مسائل جن سے آج وہ دوچار ہیں اُس میں کس سیاسی جماعت کا کتنا حصہ ہے اور کس وہ مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اقتدار سے برخاست کرے؟ وہیں دلچسپ معاملہ یہ بھی ہے کہ ملک کا وہ پڑھا لکھا طبقہ جو گزشتہ پچاس یا ستر سالہ دور اقتدار دیکھ چکا ہے، حالات سے کسی حد تک باخبر ہے، معاملات جو جاری ہیں ان سے بھی واقفیت رکھتا ہے،کبھی کانگریس کے خلاف بولتا اور لکھتا ہے تو کبھی متشدد سیاسی جماعتوں کے خلاف۔اس کے باوجود وہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہے کہ حالات خراب کرنے میں کس کا کیا رول ہے ؟
واقعہ یہ ہے کہ ہرمنظم بامقصد اور حوصلہ مند فکر و نظریے کے حاملین اپنے افکار و نظریات پر پختہ یقین رکھتے ہیں ساتھ ہی انہیں اُن پر مکمل اعتماد ہوتا ہے۔ انہیں اس با ت کا ذرا خوف نہیں ہوتا کہ ہم اگر کسی شخص یا گروہ سے تعلق استوار کریں گے تووہ اپنے مخصوص فکر و نظریہ ، مقصد و نصب العین اور طریقہ کار سے بھٹک جائیں گے۔نتیجہ میں ایسے افراد اور گروہ سے وابستہ ہر شخص خوداعتمادی سے لبریز ہوتا ہے۔وہ سکڑا ہوا اور الگ تھلگ نہیں رہتا۔ بڑے پیمانہ پر اور ہر طرح کے افراد و گروہوں سے تعلقات استوار کرتا ہے۔اپنے فکر و نظریہ کو فروغ دیتا ہے اور مقصد اور نصب العین میں درجہ بہ درجہ ترقی حاصل کرتے ہوئے منزل مقصود سے قریب تر ہوتاجاتا ہے۔طریقہ کار کوئی بھی ہو کامیابی کا اصول یہی ہے کہ بڑے پیمانہ پر تعلقات استوار کیے جائیں۔اس پس منظر میں اگر ملک میں موجود افکار و نظریات اور ان سے وابستہ جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ سے وابستہ افراد و گروہوں نے آغاز ہی سے بڑے پیمانہ پر تعلقات استوار کیے۔ اپنے مخصوص فکر و نظریہ کے فروغ اور مقصد و نصب العین میں کامیابی کے حصول کے لیے ہر سطح پر اور ہر قسم کے افراد اور گروہوں سے راست یا بلاواسطہ وابستہ ہوئے۔نیزیہ وابستگی اس حد تک بڑھی کہ مختلف سیاسی جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور گروہوں میں اہم ترین عہدوں تک انہیں رسائی حاصل ہوئی۔ آج یہ بات اگر کہی جائے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں آر ایس ایس کی فکر سے وابستہ افرادبڑے پیمانہ پر موجود ہیںاور بہت سے مقامات پر اہم ترین عہدوں پرفائز بھی ہیں،تویہ بات مبالغہ آمیز نہیں کہلائے گی۔ آر ایس ایس کی کامیابی کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے جماعتی اسٹرکچراورممبرسازی پر زور نہیں دیا ۔برخلاف اس کے فکر و نظریہ کا فروغ ہی سب کچھ ٹھہرا۔ لہذا بڑی تعداد میں ایسے افراد جو دیگر جماعتوں اور تنظیموں کے ممبر ہیں،اِس کے باوجود وہ آر ایس ایس کی فکر و نظریہ سے وابستہ ہیں۔اور ان تمام مقامات پر جہاں کہیں بھی وہ موجود ہیں ،اُس فکر و نظریہ کے لیے سرگرم عمل ہیں یا کم از کم اس میں رکاوٹ نہیں ڈالتے ۔اِنہیں کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج کہیں سافٹ ہندتو ،تو کہیں ہارڈ ہندوتو کا نظریہ موجود ہے۔ ان دونوں ہی مقامات میں ایک چیز جو یکساں ہے وہ ہندوتو ہے جس کے فروغ میں یا اس میں رکاوٹ نہ ڈالنے میں،دونوں ہی مقامات بڑی تعداد میں افراد اپنی بھرپور صلاحتیوں کے ساتھ موجود نظر آتے ہیں۔
آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا جماعتیں جس منزل کی جانب گامزن ہیں اس میں رکاوٹ پیدا کرنے والی تین بڑی فکری و نظریاتی قوتوں کا تذکرہ کیا جا سکتا ہے۔i)کمیونسٹ فکر اور اس نظریہ سے وابستہ افراد۔ii) دلت جنہیں منو وادی نظام میں شودر کہا جاتا ہے۔ اور نمبرiii) مسلمان جو درج بالا تمام افکار و نظریات سے مختلف ، بالاتر اور اپنی مخصوص شناخت رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں کمیونسٹوں نے آزادی سے قبل ہی جدوجہد جاری کی تھی اور آزادی کے بعد دوریاستیں مغربی بنگال اور کیرلہ میں سیاسی بساط پر اقتدار بھی حاصل کیا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ دونوں ہی ریاستیں ان کے ہاتھ سے جاتی رہیں اور فی الوقت ایسا محسوس ہوتا کہ خصوصاً مغربی بنگال ان کے ہاتھ میں دوبارہ آنے والا نہیں ہے۔برخلاف اس کے کیرالہ بھی ان کی گرفت سے دور ہے اور وہاں بھی دھیرے دھیرے ان کے لیے سیاسی زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود آر ایس ایس کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی مغربی بنگال میں اپنی زمین تلاش کر رہی ہے۔ وہیں الگ گورکھا لینڈ ریاست کی آوازیں بھی بخوبی سنی جا سکتی ہیں۔اور جو لوگ گورکھا لینڈ ریاست کی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی پشت پہ فی الوقت کون لوگ مددگار ہیں؟ انہیں بھی بچشم دیکھا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی یہ بات بھی اچھی طرح دیکھی جا سکتی ہے کہ آئندہ دس بارہ سال میں مغربی بنگال کی سیاسی زمین کن لوگوں کے لیے ہموار ہوتی نظر آرہی ہے؟کمونسٹوں کے علاوہ دوسری طاقت ہندو سماج کا دلت طبقہ ہے جو بظاہر منووادی نظریہ کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ لیکن بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں پہلے کانگریس نے اُن کا دل کھول کے استحصال کیا۔ متذکرہ طبقہ کے چند لیڈران کو چھوٹے و بڑے عہدے دے کر ان کی آبادی کے بڑے حصہ کو اپنے لیے کارگر بنایا تو اب یہی کام بی جے پی کررہی ہے۔ اس کے باوجود 1984میں کانشی رام نے شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب اور دیگر پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر بہوجن سماج پارٹی تشکیل دی تھی۔جسے بعد میں مایاوتی نے اپنے ہاتھ میں لے کر ذاتی پارٹی بنا ڈالا۔اس خستہ حالی کے باوجود اس سے وابستہ طبقہ بہوجن سماج پارٹی کو اندھیری رات میں ٹمٹماتا ہوا سہارا سمجھتا ہے۔لیکن چونکہ وہ صرف اپنی بنیاد پر اقتدار تک نہیں پہنچ سکتے لہذا اِس طبقہ سے وابستہ قیادت ذاتی مفاد کی خاطر کبھی کانگریس کا دامن تھامتی ہے تو کبھی بی جے پی کا۔نتیجہ میں اندرون خانہ وہ مزید کمزور ہو جاتے ہیںاور فکری و نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود وہ اُنہیں طاقتوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں جن کے خلاف وہ کبھی متحد ہوئے تھے۔
فکری و نظریاتی اور معاشرتی اعتبار سے تیسری بڑی طاقت مسلمان ہیں۔ لیکن چونکہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تعلیمی میدان میں آغاز ہی سے انہیں کمزور کیا گیاہے لہذا وہ اس حالت میں نہیں ہیں کہ فی الوقت وہ منظم طاقت بن کے ابھریں۔نیز یہاں بھی ذاتی مفادات ہر زمانے میں ابھرے ہوئے نظر آئے ہیں جس کے نتیجہ میں کبھی کانگریس پارٹی کو مسیحا سمجھا و سمجھایا گیا تو کبھی دیگر ریاستی پارٹیوں کو ۔ دوسری جانب مسلمانوں کو مسلکی اور ہندوانہ ذات پات کے نظام نے آج تک اس قدر گھیرے لیے رکھا ہے کہ ان کے درمیان اتحاد کی بنیادیں جو ہر اعتبار سے مضبوط ترین تھیں، آنکھوں سے اوجھل ہو چکی ہیں۔اس کی ایک معمولی مثال ملک کے موجودہ حالات ہیں۔جہاں حد درجہ خوف اور مسائل سے وہ دوچار ہیں۔ مسائل سے نبٹنے کے لیے وہ چند کوششیں بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔پس اسی دوران اگر کوئی مسلکی مسئلہ سامنے آئے جائے یا شادی بیاہ کا معاملہ تو وہ اپنے مخصوص مسلکی اور ذات پات کے نظام میں ذرا دیر کیے تعصبات میں مبتلا ہو کر وہیں لوٹ چلیں گے جہاں سے وہ چلے تھے۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ بظاہر چند لوگوں کا کسی کے خلاف اکھٹا ہوجانا دوسروں کی نیند حرام کر دے گا،تو یہ خواب خرگوش سے زیادہ کچھ بھی نہیں! (جاری) …

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں