… میں دل کو اس مقام پر لاتا چلا گیا

ڈاکٹر زین شمسی
ابن صفی ’احمقوں کا چکر‘ میں لکھتے ہیں کہ جب ہر جگہ حماقتیں ہورہی ہیں تو سمجھئے اس کے پس پشت خطرناک قسم کا سنجیدہ دماغ کام کر رہا ہے۔ اسی ناول میں ایک اور جگہ قلم ہلاتے ہیں کہ فوجی بھی عجیب و غریب قسم کے ہوتے ہیں ۔ انتہائی شائستہ قسم کا فوجی بھی تھوڑا بہت وحشی ضرور ہوتا ہے ، اور ایک انتہائی مزیدار جملہ چپکایا ہے کہ ’ آوارگی میں عورت افزائی کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے‘۔ میں بہت دیر تک اس جملے سے محظوظ ہوتا رہا ، مگر اب تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا ہوں کہ یہ جملہ کس پر فٹ کروں ، تھک ہار کر خود پر ہی فٹ کرلیا، اگر آپ کو اعتراض ہے تو کورٹ کچہری کا چکر لگایئے۔ فی الحال اس جملے سے درگزر کرتے ہوئے اوپر کے دو جملوں پر ہی بات سے بات بناتے ہیں۔
مگر پہلے یہاں پر علی سردار جعفری کو بھی یادکر لیں جو یکم اگست کو وفات پاگئے تھے ،اور یہ کہہ کر گئے تھے کہ
’ لیکن میں یہاں پھر آؤں گا
بچوں کے دہن سے بولوں گا
چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا
جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں
اور کونپلیں اپنی انگلی سے
مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی
میں پتی پتی کلی کلی
اپنی آنکھیں پھر کھولوں گاؒ ‘
لیکن شاید انہوں نے اپنا ارادہ یہ سوچ کر بدل دیا ہے کہ
تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد
بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
اور
کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
تو بات حماقتوں کی ہو رہی تھی اور حماقتیں بھی ایسی کہ ایک بھکت سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے کہا مودی نے بہت بڑا کام کیا ہے ؟ پوچھا ، بتائو کیا کام ، کہنے لگے یہ تو مجھے معلوم نہیں ،لیکن کام بہت بڑا کیاہے۔تو اب اس حماقت کا جواب دینے کا مطلب تھا کہ میں نرااحمق ہی ہوں۔
جنرل بخشی کی فوجی وحشت کشمیر تک خوب موج کرتی ہے ،مگر چینیوں کی بات کیجئے تو انہیں شوگر ہو جاتا ہے۔ وی کے سنگھ فوجی تھے تو پہاڑ توڑ رہے تھے اور مودی بھکت ہوئے تو ایسا لگا کہ وہ فوج میں کچن کمانڈر رہے ہوں گے۔دوسرے ان فوجیوں کو سلام کیجئے جو بغیر چھٹی لیے ، بغیر اپنوں کا پیار پائے سرحدوں کی نگہبانی کرتے ہیں اور ملک کی پالیسیاں ان کی لاش پر جھنڈے پہرا دیتی ہیں۔
ڈر ہے کہ احمقوں کا احمقانہ پن کہیں جنگ کی صورتحال پیدا نہ کر دے۔ خوب سن رہا ہوں کہ اب بھارت 1962والا بھارت نہیں ہے۔ اب چین اپنی طاقت پر غرور نہ کرے۔ مگر کیا چین 62والا ہی چین ہے۔ مگرہاں جہاں تک ہمت کا سوال ہے تو ہندوستانی فوج کو تو چھوڑیئے احمق ہندوستانیوں کی ہمت اس طرح بڑھ گئی ہے کہ وہ جانور کے لیے انسانوں کا قتل کرنے میں گریز نہیں کرتے ، اب وہ بھارت کہاں ، اب تو یہ ہجومی دہشت گردی کا گہوارہ بن چکا ہے۔ تازہ ویڈیو دیکھ ہی لیا ہو گا کہ کیسے ایک مادر زاد برہنہ عورت ایک مادرزاد برہنہ مرد کے کندھوں پر زبردسی بٹھا دی جاتی ہے اور ہجوم مارے خوشی کے ناچ رہا ہوتا ہے۔ بھارت بدل رہا ہے مترو!بھارت ہمت ور ہو رہا ہے اور ظاہر ہے کہ لڑائی صرف طاقت کے زور پر نہیں ، ہمت کے سہارے لڑی جاتی ہے تو چین سے مقابلہ کے لیے انہیں بھکتوں کو سرحد پر بھیج دیا جائے جو بات بات میں اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی بات کرتے ہیں۔
ایک صاحب نے کیا خوب لکھا ہے کہ جنگ کی خواہش ہے تو جنگ ہوجانے دو۔ کم ازکم آج کی احمق نسل کو یہ پتہ تو چلے کہ جنگ جیتنے کے بعد بھی ایک بہت بڑی شکست منھ کھول کر بیٹھ جاتی ہے۔ فضائی آلودگی ، بے روزگاری ، ماتم ، معاشیات ، سماجیات ، تعلیم سب کے سب جنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ، اس میں جیت صر ف سیاستدانوں کی ہوتی ہے ، باقی سب ہار جاتے ہیں۔
جنگ خود ہی ایک مسئلہ ہے ، یہ مسئلہ کا حل کیا دے گی؟ ساحر نے کہا تھا شاید۔
تو چین کا اروناچل کے بعداتراکھنڈ میں گھس جانے کا کیا حل ہے۔ آج زمینی لڑائی نہیں ہوتی ، آج معاشی چڑھائی ہوتی ہے ، چین کو ہرانا ہے توصرف چینی کھلونے کا بائیکاٹ کر کے اسے ہرا سکتے ہیں۔ ہم تو جمہوریت ہیں ، ہمیں تانا شاہ بننے کی کیا ضرورت ہے۔ چین کو ہرانے کے لیے فوج کی نہیں عوامی بیداری کی ضرورت ہے ، مگر بھکت گن چاہتےہیں کہ مودی جی ثابت کریں کہ ان کا سینہ 56انچ کا ہے۔تو لڑو ، کس نے روکا ہے۔
ویسے کہتے ہیں کہ پناما لیکس میں اگر مودی کانام ہوتا تو واقعی جنگ ہوجاتی ۔ پاکستانی عدالت نے تو نڈر ہو کر وہاں کے وزیر اعظم کو بے دخل کر دیا ،لیکن بھارت کے پناما ملزموں کا کہنا ہے کہ ، پناما کیا کیپسٹن ، ویلس ، ڈن ہل بھی ہو تو نمبر ٹین (دس نمبریوں)کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ عدالت جاگ بھی جائے تو کیا ہو ، تاریخ پر تاریخ سب بگڑے کھیل بنا دیتی ہے۔ یوں بھی ابھی بھارت میں کالادھن والوں کو پکڑنا ہے ، پنامہ والے تو گجرات کی سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔
ویسے احمق ہم بھی کم نہیں ہیں ، بلاوجہ زی ٹی وی سوئچ آن کر لیتے ہیں اور ٹینشن میں آجاتے ہیں۔ یہاں تو کیا کیا نہیں ہور ہا ہے ، ایک وزیر اعلیٰ ، وزیر اعلیٰ بننے کے لیے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے استعفیٰ دے دیتا ہے اور ایک ہی دن تماشہ ختم ،پیسہ ہضم اور اس پورے واقعہ میں ایک اور دلچسپ واقعہ ہوتا ہے کہ ایک مسلم وزیر بھی ایک دن میں اسلام سے خارج ہوتا ہے اور پھر دوسرے دن کلمہ پڑھ لیتا ہے ،مگر پتہ نہیں بیوی کے نکاح کا معاملہ اب تک حل ہوا یا نہیں۔ ’نوبھارت‘ میں ایک مضمون اس سلسلہ میں پڑھا کہ اب تک مودی سرکار صرف یہ سمجھ رہی تھی کہ مسلم مرد اپنی عورتوں کو بیک وقت تین طلاق دے کر اکیلا چھوڑ دیتا ہیں ، لیکن یہ تو غضب ہوگیا کہ جے شری رام کہنے سے بھی بیوی کو تنہائی جھیلنی پڑ سکتی ہے۔ بھائی لکھنے والے تو لکھیں گے آپ کسی کاقلم تو نہیں پکڑ سکتے۔ نوبھارت کے صحافی کا بھی نہیں۔
اب دیکھئے نا سب کچھ تو ہندو مسلمان ہو ہی گیا تھا اب ایک اور نکتہ سامنے آیا ہے کہ ہندو اس لیے ہری سبزیاں کھانا پسند کرتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کے رنگ سے نفرت ہے اور مسلمان ریڈ میٹ کھاتے ہیں کہ انہیں ہندوئوں کے رنگ سے نفرت ہے ، یہ بھی کورا نظریہ ہے بھئی ، مفکر کو سلام۔
شہر ِ آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
اُلٹا لٹکو گےتو پھر سیدھا دکھائی دے گا
ان حالات میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو رہی ہے۔ سنبھل کرچلنا پڑتا ہے کہ قوم سو رہی ہے۔ نہ انہیں یہ سمجھ میں آرہا ہے کہ الگ سیاسی پارٹی بنائی جائے ، نہ انہیں یہ سمجھ میں آرہا کہ علمائے دین قوم کو کب تک دنیا سے بیگانہ رکھیں گے۔ سب کچھ تو ختم ہی ہوگیا ہے۔ نہ خوشی کا مزہ رہا،نہ غم کا درد باقی ۔
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پر لاتا چلا گیا

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں