غلام رسول قاسمی
حکومتی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے نشانہ پر مادر علمی دارالعلوم دیوبند و اطراف و اکناف کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگا ہے کہ خدایا یہ تیرے بے نام و نشان اور دنیاوی طور و طریقے سے نابلد و آخری نبی صل اللہ علیہ و سلم کے مہمانوں پر کیا آفت آن پڑی ہے، ایسے حالات میں ہمیں رجوع الی اللہ کے ساتھ ساتھ کچھ انتظامی امور کو مزید فعال بنانا ہو گا، اب جب کہ باطل شہرِ علم و ادب میں اپنا پنجہ گاڑ چکا ہے تو ہمیں بھی کچھ بدلاؤ لاکر انکے مکر و فریب سے بچنے کی تدبیریں کرنی پڑے گی، اور ثابت کرنا پڑے گا کہ ہم اربابِ مدارس اسلامیہ کسی بھی طرح کے غیر قانونی کام سے مکمل طور پر اپنی برات کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم پوری طرح چھان بین کے بعد ہی کسی طالب علم کا داخلہ لیتے ہیں، لیکن کیا کہا جائے ان غیر ملکی طلباء کو کہ بنا کسی سرکاری پروف کے ہندوستان چلے آتے ہیں اور اس پر مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم ان کا داخلہ بھی منظور کر لیتے ہیں! اطلاعاً عرض کردوں کہ دیوبند کے آس پاس کے علاقوں میں بنگلہ دیشی طلباء کی ایک بڑی تعداد( بلکہ اکثر )ایسی بھی قیام پذیر ہے جن کے پاس کسی بھی طرح کا ویزا یا میڈیکل سرٹیفکیٹ نہیں ہے، سال گزشتہ خود دارالعلوم( اندر )میں صرف دورہ حدیث میں ایسے جعلی کاغذات کے آدھار پر تقریباً ساڑھے پانچ سو سے زائد بنگلہ دیشی طلباء تھے جو کسی طرح( رشوت دیکر)ہندوستانی باڈر کراس کر لیتے ہیں اور دارالعلوم میں آ کر ہندوستان کے کسی بھی صوبہ کا جعلی آدھار کارڈ وغیرہ بنوا لیتے ہیں، انجام سے بے خبر یہ طلباء اور دیوبند کے گرافکس سنٹر والے چند پیسوں کی خاطر اتنا بڑا رسک لیتے ہیں اور کہیں کا بھی جعلی سرٹیفکیٹ بنادیتے ہیں،اور مدارس والے بھی اسی سرٹیفکیٹ پر اکتفاء کرلیتے ہیں،
مزید یہ کہ یہ بنگلہ دیشی طلباء دستاویز نہ ہونے کے باوجود عموماً دن میں دو سے تین مرتبہ اپنے وطن کو فون کرتے ہیں جنہیں یہ تک پتا نہیں کہ ہماری کالز ریکارڈز کی جاتی ہیں اور ہمارا لوکیشن ٹریک کیا جاتا ہے،تو کیا ایسے طلبہ گرفتار نہیں ہوں گے؟ نیز مدارس اسلامیہ کو میڈیا بدنام نہیں کرےگی؟ ضرور کرے گی،
ابھی گزشتہ ماہ رجب کی بات ہے کہ مدرسہ ہتھورہ باندھ میں وہاں کے ایک طالب علم نے آپسی رنجش کی بنا پر پولیس کو انفارم کر دیا کہ یہاں چند بنگلہ دیشی رہتے ہیں، بس ہونا کیا تھا پولس جمپ لگادی وہ تو بھلا ہو مدرسہ کے فعال ذمہ داران کا کہ راتوں رات یہ اعلان کروا دیا کہ جتنے بھی بنگلہ دیشی ہیں وہ کسی بھی طرح آج ہی یہاں سے رخصت ہو جائیں! تب جا کر معاملہ ٹلا، سوئے اتفاق کہ وہ تمام( تقریباً اسی سے نوے )طالب علم ڈائریکٹ دیوبـــند پہنچ گئے جنہیں پکڑنے کے لئے یوپی پولس نے جست لگانی ہی چاہی تھی، تو کیا سرکاری افسران اور خفیہ ایجنسیاں دیوبـــند پر مسلسل نظر نہ رکھی ہوگی؟؟ ضرور رکھی ہوگی بلکہ خاکم بدہن رکھ ہی نہیں بلکہ گاڑ بھی چکی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جب بھی کسی معاملے( اپنی ناکامی چھپانے کے لئے )کو دبانے کے لئے سرکار کو ضرورت پڑے گی یا کوئی افسر سستی شہرت حاصل کرنا چاہے گا جھٹ پٹ دیوبـــند پر ہی چڑھ دوڑے گا کیونکہ انہیں اک بڑا سرمایہ ہاتھ لگ چکا ہے الأمان و الحفیظ، آخر میں میری دیوبـــند کے تمام مدارس کے اربابِ حل و عقد سے درخواست ہے کہ وہ اب داخلوں کے معاملے میں سخت کارروائی کرے( نا کہ برائے نام “خانہ پری” جیسا کہ عموماً پوچھ تاچھ بس اسی آدھا پر داخلہ منظور کر لیتے ہیں )خود دارالعلوم اور وقف دارالعلوم بھی اس معاملے میں سست روی کا شکار ہے! خدارا ہوش کے ناخن لیں اور نظام داخلہ کو مزید بہتر بنائیں! اور جن غیر ملکی طلباء کا داخلہ منظور ہو چکا ہے ان سب کی صحیح طور پر چھان پھٹک کریں! اگر انکے پاس ہندوستانی تعلیمی ویزا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ انہیں مدرسہ سے چلتا کر دیں!، کیا ہی بہتر ہوتا کہ آدھار کارڈ کی فنگر پرنٹ مشین کے ذریعے داخلہ لینے کو یقینی بنائیں اور اسی کے ذریعے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ کون طالب علم کس صوبہ سے واقعی تعلق رکھتا ہے یاجھوٹ بولکر اس صوبہ کا نام چڑھوایا ہے، امید ہے کہ اربابِ مدارس اس پہلو پر غور کریں گے اور باطل کی للچاتی نظروں کو ناکام و نامراد بنائیں گے.
Gulamrasool939@gmail.com