نوٹ بدلی کے بعد نوٹ فرضی

ڈاکٹر زین شمسی
دو ماہ قبل ہی جب للت ( جس کے پان کے بغیر دماغ چلنا ناممکن ہے ) نے مجھ سے کہا سر یہ والا 500 کا نوٹ جو آپ مجھے دے رہے ہیں ، یہ نقلی ہے ، میں نے کہا مجھے نہیں معلوم کون اصلی اور کون نقلی ، میں تو اےٹی ایم سے نکالتا ہوں ، خود چھاپتا نہیں ہوں ، نوٹ چھاپنے کا کام تو سرکار کرتی ہے ۔ ویسے اس کی پہچان کیا ہے۔ اس نے کہا یہ جو گاندھی جی کی طرف لائن آگئی ہے وہ نقلی ہے ، میں نے کہا اور اصلی ، اس نے کہا جو لائن گورنر کے دستخط کی طرف ہے وہ اصلی ہے ، پھر اس نے دونوں نوٹوں کو میرے سامنے پیش کیا اور میں حیرت میں پڑ گیا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ نوٹ میں ذرا سی تبدیلی تشویشناک ہوتی ہے اور یہ تو پورے کا پورا گھپلہ ہے۔ پھر میں احتیاط برتنے لگا کیونکہ کہیں سے کوئی آواز اٹھ نہیں رہی تھی ۔ ابھی کل ہی اردو کونسل کے پی پی او ڈاکٹرشمس اقبال صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں پٹرول پمپ تک گیا تو اس نے بھی دو طرح کے نوٹ تھمائے ، میں نے ان سے ذکر کیا ، انہوں نے پہلے تو اسے سنجیدگی سے لیا اور ایک نوٹ واپس کیا ، لیکن پٹرول پمپ کے لڑکے نے انہیں پھر وہی نوٹ واپس کر دئے ، انہوں نے یہ کہتے ہوئے بات ٹال دی کہ اصلی نوٹ کی پہچان بس یہ ہے کہ اسے ذرا ٹیڑھا کر کے دیکھ لو اگر بلیو کلر ہے تو سمجھو نوٹ اصلی ہے۔ بات آئی گئی ہو گئی ۔
لیکن آج جب پارلیمنٹ میں کپل سبل نے اسی بات کو زور و شور سے اٹھایا تب اس کی سنجیدگی کا پتہ چلا۔ تاہم انہوں نے یہ الزام لگایا کہ نوٹ بندی کے بعد سرکار نے ایک شاطرانہ چال چلی ہے۔ ایک نوٹ سرکار کے لیے چھاپا جا رہا ہے اور ایک نوٹ پارٹی کے لیے۔ پارٹی اپنا کام نقلی نوٹوں سے کر رہی ہے۔ انہوں نے تفصیلات فراہمکرتے ہوئے 500اور 1000کے نوٹ میں کئی طرح کا فرق واضح کیا ہے۔ واللہ علم۔ لیکن اگر بات واقعی سنجیدہ ہے تو یہ اب تک کا سب سے بڑا گھوٹالہ ہے ، کیونکہ اس میں آر بی آئی بھی شامل ہے۔ ایک ایسی مشینری جس کا دار و مدار ملک کی اکانومی پر ہوتا ہے۔ اب بی جے پی اس الزام کو ہوا میں اڑا دے گی اور میڈیا ایک سے ایک تاویلیں پیش کر کے مودی سرکار کو بچانے کی کوشش کرے گا ،وہ یہ جانچ بھی نہیں کرے گا کہ مودی سرکار نے 2ارب روپے جو میڈیا کو مختص کئے وہ اصلی تھے یا نقلی۔
پتہ نہیں اور کیا کیا دیکھنا پڑے گا۔ مغل سرائے کا نام دین دیال رکھو یا چین چٹوپادھیائے ، مگر بھارت کے وقار کے ساتھ تو مت کھیلو یار۔ نوٹ کے ساتھ کھیلنے کا مطلب کیا ہے۔ لوگوں کی گاڑھی کمائی کے ساتھ کھیلنا۔ وہ لوگ جو رات دن محنت کرتے ہیں ،مشقت کے بدلے انہیں ہزار پانچ سو ملتے ہیں ،جس سے وہ زندگی کھینچتے ہیں ، اگر وہ بھی نوٹ کی جگہ کاغذ کے ٹکرے ثابت ہو جائیں تو پھر اچھے دن تو آ ہی گئے سمجھو۔ جب سرکار کی پرنٹنگ پریس اتنی لاپرواہ ہو سکتی ہے تو کوئی بھی پرنٹنگ پریس سے نوٹ چھاپ کر بازار میں آسانی سے لایا جاسکتا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں