ڈاکٹر زین شمسی
بابری مسجد کے سینے میں ترشول کی چبھن ابھی باقی ہی ہے کہ اس کے سوداگر بازار میں نکل آئے ہیں۔ اس قضیہ میں 58 سال قبل مقدمہ ہار جانے والے شیعہ وقف بورڈ نے بابری مسجد کو بیچنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ نسیم رضوی کا کہنا ہے کہ مسجد میر باقی نے بنائی تھی ، اس لیے اس پر اہل تشیع کا مسلکی حق ہے۔ان کی اس دلیل کو مان لیا جائے تو یہ بھی مان لیا جائے کہ میر صادق اور میر جعفر غدار تھے اس لیے تمام شیعہ کو غدار تسلیم کر لیاجائے؟ شاید بات بری لگے ،لیکن کیا یہ اس سے بھی بری ہے کہ جب بابری مسجد پر فیصلہ کی گھڑی آئی ہے تو اسے بیچنے کا پلان بنایا گیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس سے مقدمہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، مودی سرکار کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے قافلہ نکل پڑا۔
بابری مسجد اپنی باوقار مسلم تاریخی وراثت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تہذیبی و ملی تنزلی کی علامت بھی ہے۔ آر ایس ایس کی جانب سے اسے ایک عظیم الشان رام مندر بنانے کی سیاسی سازش میں مسلمانوں کے اندر سے ہی کالی بھیڑ کی تلاش کی مہم وسیم رضوی پر ختم ہوگئی ہے ، یہ کہنا درست نہیں ہوگا، کیونکہ مسجدیں اب مسلمانوں کی رہی بھی نہیں ۔ اب تو مسجدیں مسلکوں کی ہوگئی ہیں۔ اسی لیے میں نے بہت پہلے لکھا تھا کہ ہندوئوں کو چاہیے کہ وہ بابری مسجد مسلمانوں کے حوالہ کر دیں ، جیسے ہی چابی ان کے پاس آئے گی ، لڑائی شروع ہو جائے گی کہ اس میں ہم اور ہمارے لوگ ہی نماز پڑھیں گے ، لڑائی اتنی بڑھے گی کہ مسلمان خود ہی اس میں طالعہ لگا دیں گے اور پھر ہندو کہیں گے لائو یار ہم ہی مندر بنا لیتے ہیں ، تم لوگوں سے نہ ہوگا۔
لیکن شیعہ وقف بورڈکا یہ موقف چونکانے والا شاید نہیں ہے۔ اس دور میں جب مودی حکومت کی چاپلوسی کا نایاب نسخہ ڈھونڈا جا رہا ہے تو بیچارے وسیم رضوی نے بھی اپناماسٹر اسٹروک چل دیا ہے اور کیوں نہ چلے مرکز میں مختار عباس نقوی ، یوگی حکومت میں محسن رضا، اردو میڈیا میں کس کا تسلط ہے آپ جانتے ہی ہیں ، اور بی جے پی کے ساتھ ساتھ کانگریس نے بھی اپنی قومی آواز اہل تشیع کو ہی بنایا ہے۔ جب سب جگہ مہرے سیٹ ہو رہے ہیں تو وسیم بھائی نے بھی اپنی چال چل دی ہے۔ یوں بھی ہندوستان کا ہر مسلم بچہ جانتا ہے کہ بابری مسجد پر کیا فیصلہ آنا ہے۔ ثبوت اب کام آتے نہیں ہیں۔ عدالتیں جن بھاونا پر فیصلہ دیتی ہیں ، یعقوب میمن ہوں یا کئی اور ، عدالتیں جن بھاونا کے سامنے سرنگوں ہیں تو وسیم صاحب کو اگر اپنے اس کرشماتی فیصلے سے کچھ فائدہ ہو جائے تو کیا برا ہے۔
ایک ماسٹر اسٹروک دیوبند میں بھی دیکھنے میں آیا۔برسوں سے ایک فیصلہ زیر التوا تھا کہ تبلیغی جماعت کیمپس میں کوئی سرگرمیاں نہ کر پائے اور اب واقعی ایسا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس بنا پر کہ تبلیغی جماعت دو گروپ میں تقسیم ہو گیا ہے جس کے نتیجہ میں طلبا میں انتشار پیدا ہو رہا ہے اس لیے اس کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی جائے اور وہ کر دی گئی۔اب ہمیں نہیں معلوم کہ تبلیغی جماعت کے دو دھڑے الگ الگ طرح سے نماز اور عبادت کی دعوت دے رہے تھے یا پھر ایک دھرا دوسرے دھرے کی دعوت قبول کرنے والے طلبا کو بہکارہے تھے کہ اس نے جو سکھایا ہے وہ اسلام نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم ، لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ جس جماعت کو نظر میں رکھتے ہوئے سی بی آئی بھی تھک ہار کر بیٹھ گئی کہ یہ تو دنیا کی بات ہی نہیں کرتا اورقوم کو دین کا افیون پلا رہا ہے اس جماعت پر اس دیوبند نے پابندی لگائی جس پر خود جمیعتہ علما ہند کا دو دھڑا مسلسل حکومت کر رہا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ جمیعتہ کے ان دونوں دھڑوں میں کبھی کہا سنی ہوئی یا نہیں۔ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ دین کا کام کرنے والے آپس میں متحد نہیں ہوتے تو دنیا والوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ جمیعتہ (ا) اور (م) اپنا کام الگ الگ کر سکتی ہے تو تبلیغ جماعت بھی اپنا کام الگ الگ کر سکتی ہے۔ اپنوں پر جب اپنے ہی پابندیاں لگانے لگیں تو غیروں کے حوصلے تو بلند ہوں گے ہی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں جمیعتہ کی سرگرمیوں سے آگے نکلتی ہوئی نظر آرہی ہو اور دیوبند نے اپنا ماسٹر اسٹروک کھیل دیا ہو۔ واللہ علم۔
تین طلبا دیوبند سے اٹھالیے گئے ، ہندی میڈیا نے (جس کا ہمیشہ سےشیوہ رہا ہے) اسے کھلے عام آتنکی لکھا ،ایک یا دو دن بعد وہ سارے طلباباعزت گھرواپس آگئے۔ہندی میڈیا کو اس کا پتہ بھی نہیں چلا۔اپنے 20صفحات میں بھی اس خبر کے لیے اس کے پاس جگہ نہیں مل پائی ، لیکن اس معاملہ میں اخبار مشرق کی گردن مروڑ دی گئی۔ اس کی غلطی یہ تھی کہ اخبار نے طلبا کا تعلق دارالعلوم سے جوڑ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ دارالعلوم کی شبیہ خراب ہوئی تھی ، چو طرفہ مذمت ہوئی اور اخبار مشرق کو سہو چھاپنا پڑا۔ ظاہر ہے یہ مدرسوں کی جانب سے اردو اخبار کے خلاف ایک ماسٹر اسٹروک تھا، مگر اس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ملا کی دوڑ مسجد تک ہی ہے۔ ہندی میڈیا کے آتنکی لکھنے پر دیوبند کو اعتراض نہیں ہوا، مگر اردو کے ایک اخبار پر ان کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ دیوبند کو اپنی شبیہ کی فکر ہوئی ، اس کی فکر نہیں ہوئی کہ کسی دوسرے ہی مدارس کے طلبا کو پولیس کیوں اٹھا کر لے گئی؟ میرا مدرسہ میرا ، ان کا مدرسہ ان کا۔ گویا اب اپنی شبیہ بچانے کے لیے ہی سب کام ہونا ہے ، یہ بھی ایک ماسٹر اسٹروک ہے کہ ہم اچھے باقی سب برے۔ اب اس میں ایک دلیل دی جا ئے گی کہ جمیعتہ ملزمین کا کیس لڑتی ہے ، ان کی دلیل بالکل صحیح ہے، لیکن ایسے حالات کے پیدا ہونے کا ذمہ دار کون ہے کہ پولیس جسے چاہتی ہے اٹھا کر لے جاتی ہے۔ اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ کیا بڑی ملی تنظیموں کا کام صرف بھیڑ اکٹھی کرنے کا ہے یا مسلمانوں کی رہنمائی اور حکومت کی کھنچائی کا بھی ہے۔
ادھر راجیہ سبھا میں کانگریس کا ماسٹر اسٹروک چلا اور احمد بھائی پٹیل راجیہ سبھا میں گھس گئے۔ ملک نے شاید ہی ایسا کوئی ہسٹریائی ماحول دیکھا ہوگا اور جانا ہوگا کہ راجیہ سبھا کی رکنیت کے لیے بھی اتنا بڑا ہائی وولٹیج ڈرامہ ہوتا ہے۔ احمد بھائی پٹیل کو روکنے کے لیے بی جے پی نے اپنی ساری قوت صرف کر دی۔ خرید و فروخت کا معاملہ تو الیکشن کمیشن تک پہنچ گیا۔ میڈیا دن بھر خرید و فروخت کو امت شاہ کا ماسٹر اسٹروک کہتا رہا ، بغیر یہ جانے کہ یہ ایک غلط عمل ہے ، مگر میڈیا کو امت شاہ اور مودی کے تمام کارنامے خواہ وہ کتنے بکواس کیوں نہ ہوں ماسٹر اسٹروک ہی نظر آتے ہیں۔ بہر حال آخری گیند پر احمد بھائی پٹیل جیت پائے۔ یہ جیت کانگریس کو نئی راہ دکھا سکتی ہے کہ اس کے حوصلہ بلند ہوئے ہیں ، وہیں نتیش کو بھی یہ سمجھا سکتی ہے کہ آپ بی جے پی کے پلو میں بندھے ہو مگر تمہارا ایم ایل اے آزاد ہے۔ ہاں تعجب تب ہوا جب احمد پٹیل کو مسلمان مسلمان کی نظر سے دیکھنے لگے۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ سونیا کے سیاسی مشیر ہونے کے ناطے انہوں نے آج تک کسی بھی مسلم رہنما کو سونیا سے تنہا ملنے نہیں دیا ، جو بھی ملاقات جس کی بھی ملاقات سونیا سے ہوئی ، احمد پٹیل کی موجودگی میں ہوئی۔ اتنا بڑا سایہ ہونے کے باوجود نہ تو انہوں نے مسلمانوں کے حق میں سونیا سے کوئی بل پاس کرایا اور نہ ہی کوئی مراعات ہی دلا سکے اور کانگریس میں نام کے مسلمانوں کو نزدیک رکھنے کا رواج رہا ہے ۔ احمد پٹیل بھی اسی روایت کے حصہ ہیں ،خیر اس پر بحث پھر کبھی ، فی الحال اس الیکشن نے راحت بہم ضرور پہنچایا کہ بہت دنوں بعد بی جے پی کی تلملاہٹ دیکھنے کو ملی۔ 2019 کے الیکشن میں کانگریس سے اسی ماسٹر اسٹروک کی امید ہے۔
اور ایک ماسٹر اسٹروک بھی سنتے جائیں کہ ٹائمس آف انڈیا میں آر ایس ایس کے آئیڈیا لاگ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت چھوڑو آندولن میں سنگھ برطانیہ حکومت کے تلوے اس لیے چاٹ رہا تھا کہ سنگھ کا ماننا تھا کہ ہمیں انگریزوں سے ملٹری ٹریننگ لینی ہے اور پھر جب وقت آئے گا تو اسی ٹریننگ کے زور پر انگریزوں کو مار گرایا جائے گا۔ کیا دلیل دی ہے بھائی۔ مضمون نگار نے، یہ نہیں لکھا کہ وہ وقت نہیں آیا اور انگریز گاندھی کی لاٹھی کا وار نہیں سہ پائے اور واپس برطانیہ لوٹ گئے ، مگر ٹریننگ لینے والوں نے اپنی نئی نسل کو دو چیزیں سکھائیں۔ ایک تو یہ کہ جس سے نہیں لڑ سکتے ہو اس کے غول میں گھس جائو اور موقع ملے تو بھیتر گھات کر جاؤ ، ( نتیش پر یہی فارمولہ اپنایا جائے گا ) دوسرے ملٹری ٹریننگ کا استعمال انگریزوں کی جگہ مسلمانوں اور دلتوں پر کرو ،اور دونوں فارمولہ کتنا کامیاب ہے آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔