واشنگٹن۔نئی دہلی(ملت ٹائمز؍ایجنسیاں)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وینزویلا کے بحران میں شدت کے باعث ان کی انتظامیہ اس سوشلسٹ ملک کے صدر نکولاس مادورو کے خلاف عسکری کارروائی پر غور کر رہی ہے۔ وینزویلا نے ٹرمپ کے اس بیان کو ’پاگل پن‘ قرار دے دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے بتایا ہے کہ وینزویلا کے سیاسی بحران میں شدت کے باعث واشنگٹن حکومت عسکری آپشنز پر غور کر ر ہی ہے۔ ملکی اپوزیشن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے نتیجے میں امریکی حکومت وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو کو ’آمر‘ قرار دے چکی ہے جبکہ مادورو اور ان کے قریبی ساتھیوں پر سخت پابندیاں بھی عائد کی جا چکی ہیں۔ دوسری طرف کاراکس حکومت اپنے ملک میں ان کا حالات ذمہ دار امریکا کو قرار دیتی ہے۔ مادورو کا کہنا ہے کہ امریکی ’سامراجی جارحیت‘ وینزویلا میں ان شدید حالات کی ذمہ دار ہے۔
وہیں دہلی میں واقع وینزویلا سفارت خانہ کے سفارت کار جون وی فیریر نے ملت ٹائمز سے فون پر بات کرتے ہوئے کہاکہ وینزولا کے حالات قابو میں ہیں،عالمی میڈیا کے ذریعہ امریکی اشاروں پر پیروپیگنڈا کیا جارہاہے اور وہاں کے تمام تر مخدوش حالات کے امریکہ ذمہ دار ہے ،اپوزیشن اور مظاہرین کا استعمال کرکے امریکی حکومت وینزولاکو برباد کرنا چاہتی ہے لیکن یہ کوشش کامیاب نہیں ہوپائے گی ۔
وینزویلا کے موجودہ بحران کے تناظر میں امریکی صدر ٹرمپ نے جمعے کے دن صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’’ وینزویلا کے لیے ہمارے پاس کئی آپشنز ہیں، جن میں عسکری آپشن بھی شامل ہے، اگر اس کی ضرورت پڑی تو۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’وینزویلا میں لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں، وہ مر رہے ہیں‘۔ ٹرمپ نے انتباہی انداز میں مزید کہا، ’’دنیا کے دور دراز علاقوں میں ہمارے فوجی موجود ہیں اور وینزویلا تو امریکا سے زیادہ دور بھی نہیں ہے‘‘۔
ری پبلکن سیاستدان ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے نیوجرسی میں قیام کے دوران گالف کلب میں وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور اقوام متحدہ کے لیے امریکی مندوب نیکی ہیلی کے ساتھ مذاکرات میں وینزویلا کے بارے میں بھی گفتگو کی تھی۔انہوں نے کہا، ’’وینزویلا بہت زیادہ گندا ہو چکا ہے، وہاں بہت خطرناک بے ترتیبی پائی جا رہی ہے۔ یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہے۔‘‘پینٹاگون ترجمان ایرک پاہون نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ اگر وینزویلا میں کسی عسکری کارروائی پر غور کیا جا رہا ہے تو وہ بہت ہی ابتدائی نوعیت کا ہو گا۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے زیادہ تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ ابھی تک پینٹا گون کو اس تناظر میں کوئی احکامات موصول نہیں ہوئے ہیں۔وینزویلا کے صدر نکولاس مادورو نے گزشتہ ہفتے ہی امریکی صدر ٹرمپ سے مذاکرات کے لیے رضا مندی ظاہر کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے مطابق جب تک وینزویلا میں جمہوریت بحال نہیں ہوتی، تب تک امریکی صدر ٹرمپ مادورو سے گفتگو نہیں کریں گے۔
دریں اثنا وینزویلا کے وزیر دفاع جنرل ولادیمیر پادرینو نے امریکی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’پاگل پن پر مبنی ایک عمل اور اعلیٰ درجے کی انتہاپسندی‘ قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’امریکا کو ایک انتہا پسندانہ ایلیٹ چلا رہی ہے۔ ایمانداری کے ساتھ کہوں گا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ صورتحال دنیا کو کہاں لے جائے گی۔‘‘
وینزویلا کی اپوزیشن گزشتہ چار ماہ سے حکومت مخالف مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہے۔ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے مابین ہونے والی متعدد جھڑپوں کے نتیجے میں ایک سو تیس افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔تاہم گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران سکیورٹی فورسز کے شدید کریک ڈاؤن کی وجہ سے ان مظاہروں کی شدت میں کمی آ چکی ہے۔ ان مظاہرین کا کہنا ہے کہ صدر مادورو اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔