اقلیتی کمیشن کی سالانہ کانفرنس میں اقلیتوں کی فلاحی اسکیم کا پردہ فا ش

خاص مضمون :ملت ٹائمز
ڈاکٹر قمر تبریز

Qamar Tabrezجس کانفرنس کا آغاز حکومت ہند کی سینئر وزیر کی بے بسی سے اور اختتام جونیئر وزیر کی موجودگی میں آئی اے ایس افسر کے اس بیان سے ہوا ہو کہ ’’ملک کے موجودہ حالات کی وجہ سے مجھے رات میں نیند نہیں آتی‘‘ اُس کانفرنس کی روداد کو سننا اور خاص کر اقلیتوں پر کی گئی باتوں کو سمجھنا ہم سب کے لیے نہایت ضروری ہو جاتا ہے۔ کانفرنس کی مضحکہ خیز بات یہ رہی کہ اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین شکیل احمد کو اپنی ریاست میں اقلیتی اسکیموں کو نافذ کرنے میں پیش آ رہی دشواریاں بیان کرنی تھیں، لیکن اس موضوع پر بات نہ کرکے وہ اپنی پوری تقریر کے دوران قومی اقلیتی کمیشن کے چیئر مین نسیم احمد سے صرف یہی گزارش کرتے رہے کہ وہ یو پی کے گورنر سے سفارش کرکے انھیں ’’کابینی درجہ‘‘ دلوادیں، جس کے لیے اکھلیش حکومت پہلے سے ہی گورنر کے پاس سفارش بھیج چکی ہے۔
دراصل، قومی اقلیتی کمیشن نے 24 فروری، 2016 کو دہلی کے وِگیان بھون میں ریاستی اقلیتی کمیشنوں کی سالانہ کانفرنس منعقد کی تھی، جس میں ہندوستان بھر کے نمائندوں نے شرکت کی اور اپنے اپنے مسائل حکومت ہند کے سامنے رکھے۔ اس کانفرنس کا آغاز قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نسیم احمد کی استقبالیہ تقریر سے ہوا، جس میں انھوں نے کانفرنس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ قومی اقلیتی کمیشن اور ریاستی اقلیتی کمیشنوں کے دائرۂ اختیارات الگ الگ ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہیں، پھر بھی ہر سال یہ کانفرنس اس لیے منعقد کی جاتی ہے، تاکہ مرکزی و ریاستی حکومتیں باہمی تعاون سے اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہتر طریقے سے کام کر سکیں اور مرکزی اسکیموں کو ملک بھر میں کامیابی کے ساتھ نافذ کیا جا سکے۔
لیکن حیرانی اُس وقت ہوئی، جب وزیر برائے اقلیتی امور ڈاکٹر نجمہ ہیپت اللہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ ’’مرکزی حکومت کے پاس ایسا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے، جس سے وہ اس بات کی جانچ کر سکے کہ اقلیتی اسکیمیں صحیح معنوں میں ہر جگہ نافذ ہو بھی رہی ہیں یا نہیں؟‘‘ ان کے اس بیان سے مرکزی وزیر کی بے بسی جھلکتی ہے اور ساتھ ہی ایک بڑا سوال بھی کھڑا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسا نظام ہے، جس میں اقلیتی اسکیموں کو نافذ کرنے کے لیے مرکزی حکومت کروڑوں روپے کا بجٹ تو مختص کر دیتی ہے اور فنڈ بھی جاری کردیتی ہے، لیکن یہ پتہ ہی نہیں لگا پاتی کہ وہ پیسے کہاں اور کیسے خرچ ہو رہے ہیں!۔۔۔ اور تو اور، ڈاکٹر نجمہ ہیپت اللہ نے اپنی افتتاحی تقریر میں یہ تو دعویٰ کیا کہ ’’وزیر بننے کے بعد میں نے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا، کیوں کہ دیگر پانچوں اقلیتوں (عیسائی، سکھ، بدھ، پارسی اور جین) میں تعلیم کی کمی نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کی ہنر مندی کے فروغ (اسکل ڈیولپمنٹ) پر توجہ مرکوز کی‘‘، لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بات کہہ کر اپنے ہی دعووں کی قلعی کھول دی کہ ’’مرکز میں رہتے ہوئے ہمارا کام پالیسی بنانا ہے، اسے نافذ کرنا ریاستی حکومتوں کا کام ہے۔‘‘
چونکہ اُس دن پارلیمنٹ کی کارروائی چل رہی تھی، لہٰذا نجمہ ہیپت اللہ اپنی تقریر مکمل کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے لیے روانہ ہو گئیں۔ بعد میں ان کی غیر موجودگی میں جب کانفرنس کے تکنیکی اجلاس کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ریاستی اقلیتی کمیشنوں کے نمائندوں و اہل کاروں نے ملک بھر میں اقلیتی اسکیموں کے صحیح ڈھنگ سے نافذ نہ ہونے کی اصلی وجہ بتائی۔ زیادہ تر نمائندوں کی شکایت یہ تھی کہ ضلع کی سطح پر جو بھی افسر تعینات ہیں، انھیں یا تو مرکزی حکومت کی اقلیتی اسکیموں کو نافذ کرنے میں دلچسپی ہی نہیں ہے (جسے بعض دفعہ تعصب پرستی کا نام دیا جاتا ہے) یا پھر انھیں ان اسکیموں کے بارے میں صحیح معلومات نہیں ہیں۔ ان کے اس بیان کی تصدیق کانفرنس کے پہلے تکنیکی اجلاس کے دوران اسٹیج پر موجود قومی اقلیتی کمیشن کے رکن، کیپٹن پروین ڈاور نے بھی کی، جنھوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’میں نے حال ہی میں بہار کے پورنیا، کٹیہار وغیرہ کئی ضلعوں کا دورہ کیا، جہاں میں نے پایا کہ اقلیتی اسکیموں کو بہتر طریقے سے نافذ کیا جا رہا ہے۔ میں نے دیگر ریاستوں کا بھی دورہ کیا تھا، جس کے بعد اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جہاں جہاں ضلع انتظامیہ درست ہے اور ڈی ایم ان اسکیموں میں دلچسپی لے رہے ہیں، وہاں وہاں (اقلیتوں سے متعلق) یہ اسکیمیں کامیابی سے چل رہی ہیں۔‘‘ اس سے یہ بات مسلّم ہو جاتی ہے کہ اصل مسئلہ سرکاری افسروں کی سطح پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانفرنس میں بار بار مرکزی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی کہ ٹریننگ کے دوران اِن سرکاری افسروں کو اقلیتی اسکیموں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی جانی چاہئیں، تاکہ وہ اسے نافذ کرنے میں دلچسپی دکھائیں۔
کانفرنس کے پہلے تکنیکی اجلاس کا موضوع تھا ’’حکومت ہند کی اقلیتی فلاحی اسکیمیں ۔ ایک جائزہ‘‘۔ وزارتِ اقلیتی امور میں ڈائرکٹر کے عہدہ پر فائز انوراگ باجپئی نے اس موضوع پر اپنا تفصیلی خطبہ پیش کیا، جس میں انھوں نے کئی ایسے پہلوؤں کو اجاگر کیا، جن پر ابھی کافی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، انوراگ باجپئی نے بتایا کہ 2001 کی مردم شماری میں مسلمانوں کی جس تعلیمی پس ماندگی کے اعداد و شمار پیش کیے گئے تھے، 2011 کی مردم شماری میں بھی اس میں کوئی خاص کمی نہیں آئی ہے۔ لہٰذا، ا س شعبہ میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بعد میں ریاستی اقلیتی کمیشنوں کے نمائندوں کی جانب سے یہ بات کہی گئی کہ چونکہ ہر ریاست میں اچھے کالج یا تو قصبوں؍ شہروں یا ریاست کی راجدھانیوں میں واقع ہیں، جہاں پر لڑکیوں کے لیے ہوسٹل اور سیکورٹی کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے مسلم والدین اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر نہیں بھیج پاتے۔ اس کا سد باب کیا جانا چاہیے۔ اس پر مداخلت کرتے ہوئے، اسٹیج پر موجود قومی اقلیتی کمیشن کے سکریٹری امریندر سنہا نے کہا کہ انھیں بھی ایسی شکایات و تجاویز ملی ہیں۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ شہروں میں جہاں جہاں ورکنگ ویمن ہوسٹل موجود ہیں (اگر نہیں ہیں، تو ان کی تعمیر کرائی جائے)، وہاں وہاں کالج جانے والی لڑکیوں کے لیے گریجویٹ؍انڈر گریجویٹ ہوسٹل کی بھی تعمیر ہونی چاہیے اور ہوسٹل کے باہر ایک پولس چوکی بھی بنائی جانی چاہیے، تاکہ ان لڑکیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں انھوں نے وہاں موجود ریاستی اقلیتی کمیشنوں کے تمام نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی اپنی حکومت سے کہیں کہ وہ اس کام کے لیے ریاست کی راجدھانیوں میں کم از کم ایک ایکڑ زمین فراہم کردے، جہاں پر لڑکیوں کے لیے ہوسٹل بنوائے جا سکیں۔
’’اُستاد‘‘ اسکیم کے بارے میں انوراگ باجپئی نے بتایا کہ اس کا مقصد روایتی ہنر کو محفوظ رکھنا ہے، لیکن چونکہ ہندوستان میں کرافٹ مارکیٹ کافی محدود ہے، اس لیے وزارتِ اقلیتی امور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ٹکنالوجی اور اس شعبہ میں دیگر ماہر اداروں کے اشتراک سے کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کرنے پر غور کر رہی ہے، جس سے روایتی ہنر کو موجودہ بازار کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جاسکے۔ حالانکہ میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جن استادوں کو سرکار نے اپنا سنٹر کھول کر ہر چھ مہینے میں تین نئے لوگوں کو اپنا ہنر سکھانے کے لیے کہا تھااور اس کے لیے انھیں مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، اس وعدے کو نجمہ ہیپت اللہ اب تک پورا نہیں کر پائی ہیں۔ سنٹر کھولنے کے لیے ان استادوں کو درخواست فارم جمع کیے ہوئے دو سال ہو چکے ہیں، لیکن مرکزی حکومت کی طرف سے ابھی تک انھیں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ’’نئی اُڑان‘‘ اسکیم کے بارے میں انوراگ باجپئی نے بتایا کہ اسے سال 2013-14 میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے تحت سول سروسز امتحان کی تیاری کرنے والے ان اقلیتی طلبہ کومدد فراہم کی جاتی ہے، جنھوں نے اس امتحان کا پہلا مرحلہ پار کر لیا ہو، یعنی پری لمس پاس کر لیا ہو۔ باجپئی نے بتایا کہ پہلے سال میں 12 طلبہ نے ان امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی اور گزشتہ برس بھی اتنے ہی طلبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح ’’سیکھو اور کماؤ‘‘ اسکیم کے بارے میں بتاتے ہوئے انوراگ باجپئی نے کہا کہ حکومت ہند کی یہ واحد اسکیم ہے، جس کے تحت ’’ٹریننگ کے بعد نوکری کی گارنٹی‘‘ دی گئی ہے۔ اس اسکیم کو بھی سال 2013-14 میں شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت ہر سال اقلیتی طبقہ کے 20 ہزار افراد کو ٹریننگ فراہم کی جاتی تھی، لیکن اس سال اس اسکیم کے تحت 92 ہزار 330 افراد ٹریننگ حاصل کر چکے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ ایک قابل تحسین قدم ہے اور اقلیتوں کو اس سے فائدہ بھی پہنچ رہا ہے، لیکن میں نے جب ٹریننگ دینے والے چند اداروں اور وہاں سے فارغ ہونے والے افراد سے رابطہ کیا، تو پتہ چلا کہ اس میں بھی گھوٹالہ ہو رہا ہے۔ بچوں کو ٹریننگ سرٹیفکیٹ تک نہیں دیے جا رہے ہیں۔ جنھیں نوکری مل گئی وہ تو خوش ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے پریشان بھی ہیں۔ خیر، ’’نئی منزل‘‘ اسکیم کے بارے میں انوراگ باجپئی نے اطلاع دی کہ اس کی 50 فیصد فنڈنگ ورلڈ بینک کر رہا ہے اور اس اسکیم کی کل لاگت 650 کروڑ روپے ہے۔
اب آئیے، وقف املاک کی بات کرتے ہیں۔ انوراگ باجپئی نے بتایا کہ ملک بھر میں وقف بورڈوں کے پاس اس وقت 6 لاکھ ایکڑ زمینیں موجود ہیں اور اگر ان کو صحیح تصرف میں لایا گیا، تو اس سے سالانہ 12 ہزار کروڑ روپے کی کمائی ہو سکتی ہے۔ لیکن بقول امریندر سنہا، ان میں سے 4 لاکھ ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے اور مرکزی حکومت کے پاس ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے، جس سے کہ وہ ان زمینوں کو غیر قانونی قبضے سے چھڑا سکے۔ اس پر کمال فاروقی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وقف ایکٹ اگر پارلیمنٹ سے پاس ہوجائے، تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اسے اسٹینڈنگ کمیٹی نے پاس کر دیا ہے، صرف لوک سبھا سے اسے پاس ہونا ہے۔ قومی اقلیتی کمیشن کے سکریٹری امریندر سنہانے انھیں یقین دلایا کہ حکومت تک ان کی یہ بات پہنچا دی جائے گی۔ نواڈکو کے تحت ہونے والے کاموں پر بھی انوراگ باجپئی نے روشنی ڈالی اور بتایا کہ اس کے تحت اب تک 3,60,577 وقف املاک کا رجسٹریشن کیا جا چکا ہے۔
ریاستی اقلیتی کمیشنوں کے زیادہ تر چیئرمین کی شکایت یہ بھی رہی کہ مرکز سے جب بھی کوئی وفد اقلیتی اسکیموں یا اقلیتوں کی صورتِ حال جاننے کے لیے کسی ریاست کا دورہ کرتا ہے، تو وہاں کے ریاستی اقلیتی کمیشن کو اس کی پہلے سے اطلاع نہیں دی جاتی، یہ رویہ صحیح نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر ریاست کے چیف سکریٹری سے اقلیتوں کی بابت معلومات حاصل کی جاتی ہیں، جب کہ صحیح معلومات ریاستی اقلیتی کمیشن کے پاس ہوتی ہے۔ خاص طور سے آسام، اتر پردیش اور مہاراشٹر اقلیتی کمیشن نے اس سلسلے میں اپنی شکایت درج کرائی کہ وہاں پر فرقہ وارانہ فساد یا پھر دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کی گرفتاری کے معاملے میں ہمیشہ ریاستی اقلیتی کمیشن کو اندھیرے میں رکھا جاتا ہے۔ ملک کی واحد خاتون چیئرپرسن، کرناٹک اقلیتی کمیشن نے بھی کہا کہ ریاست کے چیف سکریٹری اقلیتوں سے متعلق جب بھی کوئی میٹنگ کرتے ہیں، تو اس میں وہ انھیں ممبر کے طور پر نہیں بلاتے، جس کی وجہ سے انھیں وہ اختیار نہیں مل پاتا کہ وہ مضبوطی کے ساتھ اپنی بات رکھ سکیں۔اسی طرح بہار اقلیتی کمیشن کے چیئرمین، محمد سلام نے کہا کہ وہ اقلیتوں کے مسائل سے متعلق جب بھی کوئی خط قومی اقلیتی کمیشن کو بھیجتے ہیں، تو اسے سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ مثال کے طور پر انھوں نے اردو میں ووٹر لسٹ چھپوانے کی بات کہی، جسے موجودہ چیئرمین نسیم احمد نے جب سنجیدگی سے لیا اور پھر الیکشن کمیشن سے اس کی سفارش کی، تب جاکر بہار اسمبلی انتخابات کے دوران اس تجویز پر عمل ہو پایا۔
تاہم، کانفرنس کے دوران مضحکہ خیز پہلو اس وقت سامنے آیا، جب اترپردیش اقلیتی کمیشن کے چیئرمین شکیل احمد مائک سے بار بار اقلیتی کمیشن کے چیئرمین نسیم احمد سے یہ گزارش کرتے ہوئے دکھائی دیے کہ وہ یو پی کے گورنر سے سفارش کرکے انھیں ’’کابینی درجہ‘‘ دلوادیں۔ انھوں نے نسیم احمد سے کہا کہ ’’یو پی حکومت گورنر کے پاس اس سلسلے میں کافی پہلے درخواست بھیج چکی ہے، لیکن گورنر صاحب کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں۔ اگر آپ کی نظر عنایت ہو جائے، تو ہمارا یہ کام ہو سکتا ہے۔‘‘
کانفرنس کے اختتام سے آدھا گھنٹہ پہلے وہاں وزیر مملکت برائے اقلیتی و پارلیمانی امور مختار عباس نقوی تشریف لے آئے۔ پوری کانفرنس کے دوران حکومت کا کوئی بھی وزیر وہاں موجود نہیں تھا۔ خیر، چونکہ دوسرے تکنیکی اجلاس کی نظامت قومی اقلیتی کمیشن کے ایڈیشنل سکریٹری، آئی اے ایس افسر اجوئے کمار کے سپرد تھی، لہٰذا انھوں نے مختار عباس نقوی کی موجودگی میں معذرت کے ساتھ یہ بات کہی کہ اس وقت ملک کے حالات ایسے ہیں کہ رات میں انھیں نیند نہیں آتی۔ اس خبر کو بعض اخباروں نے شائع بھی کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت صرف ملک کی اقلیتیں ہی پریشان نہیں ہیں، بلکہ امن و امان کو لے کر سرکار کے اعلیٰ افسران بھی بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔
(مضمون نگار معروف صحافی اور تجزیہ نگار ہیں)
qamartabrez@gmail.com

SHARE