ڈاکٹر زین شمسی
آزادی جشن کا نہیں ذمہ داری نبھانے کا نام ہے۔
ہم جس سے آزاد ہوئے ، وہ تو غیر ملکی اور غیر ذمہ دار تھے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم آج جب اپنوں کی حکومت میں ہیں کیا وہ اپنی ذمہ داری پوری طرح سے نبھا رہے ہیں ؟ کیا وہ ذمہ دار ہیں ،کیا وہ کسی کے تئیں جوابدہ ہیں ۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن صحیح تھے ، کیا وہ اتنے دوررس تھے کہ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ بھارت آزاد تو ہو رہا ہے ،لیکن یہ اپنی آزادی سنبھال کر نہیں رکھ سکے گا؟ کیا انہیں اس بات کا احساس تھا کہ بھارت نے جس طرح سے آزادی لی ہے اور جس طرح مذہب کے نام پر دوٹکڑوں میں تقسیم ہواہے ، آزادی کا مطلب سمجھ ہی نہیں سکاہے۔ کیا وہ جانتے تھے کہ آزادی کے بعد پاکستان بھی اپنے آپ کو نہیں سنبھال سکے گا اور ہندوستان بھی کبھی اپنے اس فکر سے آزاد نہیں ہو پائے گا جو ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کی وجہ بنی ہے۔ آج ہندوستان کی آزادی کے دن اس بات کو لے کر اس لیے بیٹھا ہوں کہ حالات یہی بتا رہے ہیں کہ 1947میں ہم صرف انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوئے تھے ، ذہنی غلامی آج بھی ہماری رگوں میں جان لیوا وائرس کی طرح دوڑ رہی ہے۔ تقسیم ہند نے ایک طرف تو بھارت کا داہنا ہاتھ کاٹ لیا تھا، دوسری طرف بھارت کے مسلمانوں کا دل اور دماغ بھی دو حصوں میں بانٹ کر لے گئی ۔۔ اسی لئے داغ داغ اجالا لے کر آئی آزادی کی صبح میں دو انسان کی آنکھوں میں نیند جاگتی رہی تھی ، اور وہ دو انسان تھے گاندھی اور ابوالکلام آزاد۔ یہ دونوں جانتے تھے کہ آزادی کی حصولیابیوں کے لیے جو قربانیاں دی گئیں ہیں ، آزادی کے بعد بھی مزید قربانیاں درپیش ہوں گی۔
پاکستان جانے والے پاکستان چلے گئے ،لیکن یہاں ہندوستان کے مسلمانوں نے نہرو اور گاندھی کی لیڈر شپ پر یقین کیا اور انہیں اپنا لیڈر تسلیم کر لیا ، یہاں تک کہ ہندوستان میں بچ جانے والے مسلمانوں کو ملازمت میں ریزرویشن کی نہرو کی پیشکش مسلم لیڈروں نے اس لیے ٹھکرا دی کہ انہیں یقین تھا کہ جو سلوک یہاں کے ہندوئوں کے ساتھ برتا جائے گا، وہی مسلمانوں کے ساتھ بھی روا رکھا جائے گا۔ گویا ہندوستانی مسلمانوں نے اس ملک کو اپنا سمجھا اور اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو بچھڑتے ہوئے دیکھ کر بھی ہندو بھائیوں کوہی اپنا بھائی گردانا، کہ جانتے تھے کہ ہم دونوں نے مل کر آزادی کی لڑائی جیتی ہے اور اب اس آزادی میں کسی کی حصہ داری نہیں ہونی چاہیے۔ نہرو اور گاندھی پر ان کا یقین پختہ تھا ، اور بلاشبہ نہرو نے ان کے یقین کے بت کو مسمار نہیں کیا۔
نہرو جب تک زندہ رہے ،ا نہوں نے ہندو اور مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں ہونے دی لیکن ان کی موت کے بعد وہ تخریبی طاقتیں جو خفیہ طور پر ایک بھی مسلمان کو ہندوستان میں برداشت نہیں کرپا رہی تھیں ، کسی نہ کسی روپ میں سر اٹھانا شروع کر دیا۔ یہ وہ طاقتیں تھیں جنہوں نے آزادی کے حصول میں کسی طرح کا حصہ نہیں لیا تھا ، یہاں تک کہ انگریزوں کی چاپلوسی اور جاسوسی میں مصروف تھے ،لیکن آزادی کے بعد وہ پورے ہندوستان کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ اپنا کام اس طرح کر رہے تھے کہ نہرو کو بھی اس بات کا احساس نہیں ہو سکا کہ آخر ان کا کھیل کیا ہے۔ آر ایس ایس اور ہندو مہا سبھا کے یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف خفیہ آرمی کی تشکیل دے رہے تھے ،جب سردار بلبھ بھائی پٹیل نے اس تنظیم پر پابندی لگائی تو تنظیم نے فوراً معافی مانگ لی ،کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لےگی بلکہ ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھے گی۔ اس کے اس چال کو بھی کانگریس نہیں سمجھ پائی ۔ سنگھ نے ثقافت کے نام پر بھولے بھالے ہندوؤں کی مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی جا ری رکھی اور اپنے ہی ہم خیال لوگوں کی ایک ٹیم کسی دوسرے نام سے سیاست میں سرگرم رکھا۔ برسوں کی کاوشوں اور جعلسازیوں اور فریب کاریوں کے سہارے اس نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں ۔
آزاد ہندوستان کی سیاست کا یہ خاصہ رہا ہے کہ یہاں رہنمائے قوم قوم کے مفاد کے لیے کبھی سرگرداں نہیں رہے ، وہ اپنی پارٹی اور اپنے مفاد کے لیے کوشاں رہے ہیں ، اس لیے موقع بہ موقع آر ایس ایسی ذہنیت والی پارٹیوں کو اپنا گرویدہ بناتی رہی اور اس کی حمایت کرتی رہی اور سیاسی مضبوطی حاصل کرتی رہی۔ پھر ہندوستان کی سیاست میں ایسا کل جگ آیا کہ ہنس دانا دُنکا چنتا رہ گیا اور کوا موتی کھانے لگا۔ پارلیمنٹ میں پہلے دو سیٹ ، پھر 187اور اب 282۔ گویا وہ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہو گئے۔ بھارت کی موجودہ سیاست پوری طرح بھگوا رنگ میں رنگی ہوئی ہے اور مجاہدین آزادی کی نسل ہاتھ مل رہی ہے۔ ایک ایسی پارٹی کا بھارت پر قبضہ ہے جس کی بھارت کی آزادی میں کسی طرح کی کوئی حصہ داری نہیں ہے ، لیکن اب ان کی سیاست دیکھئے اور ماؤنٹ بیٹن کو یاد کیجئے کہ جب اس نے کہاتھا کہ بھارت آزاد تو ہو رہا ہے ، لیکن آزادی کو بچا نہیں پائے گا۔
آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گجرات فساد میں سی بی آئی کا سامنا کرنے والے اس وقت کے وہاں کے سی ایم ، پی ایم بن گئے۔ آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہو اکہ گجرات کے فرضی انکائونٹر میں کئی کیسوں میں ملوث ، عدالت سے تڑی پار قرار شخص برسراقتدار پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بی جے پی کے سرپرست اعلیٰ آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں ترنگا نہ لہرائے جانے کے باوجود مدارس میں ترنگا لہرانےکی ویڈیو گرافی کا فرمان جا ری ہوا۔ آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مکہ مسجد بم دھماکہ میں ملوث ہونے کا ملزم بھارت کے ایک باضمیر نائب جمہوریہ کو بھارت چھوڑنے کی صلاح دے بیٹھا۔ آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک جانور یعنی گائے کو مارنے کی سزا انسان کو مارنے کی سزا سے زیادہ رکھی گئی۔ بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ گئو رکشکوں کی شکل میں ہجومی دہشتگردی کے سامنے پولیس و انتظامیہ بے بس نظر آیا۔ آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ عوام کی زبان مانی جانے والی میڈیا سرکار کی بھوپو بن گئی۔ اور آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ بچوں کو زندگی دینے کے لیے اپنے اکائونٹ سے آکسیجن لانے والے ڈاکٹر کو نوکری سے نکال دیا گیا۔آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ تاریخ کی کتاب کے ساتھ تاریخی تعمیرات اور تاریخی شہر کے نام بغیر کسی سبب تیزی کے ساتھ بدلے جانے لگے ،اور ان لوگوں کے نام منسوب کئے جانے لگے جس کا آزادی سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا۔ آزاد بھارت میں ایسا ماحول پہلی بار دیکھا گیا کہ اقتصادی بدحالی کے باوجود پی ایم کی جے جے کار سنی جا رہی ہے اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی جیسے سخت فیصلے کے بعد بھی آر ایس ایس کی واہ واہی کی جا رہی ہے۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے ، ظاہر ہے کہ جب اس کا جواب تلاش کیا جائے گا تو صرف ایک ہی بات نکل کر سامنے آئے گی کہ ہندوستان کو دراصل انگریزوں سے آزادی نہیں چاہیے تھی ، اسے مسلمانوں سے آزادی چاہیے تھی۔ اس کی دلیل میں اگر یہ بات کہی جائے کہ اس حکومت میں ہر وہ شخص نشانہ پر آیا ہے جو سیکولرازم یا قومی یکجہتی کی بات کر رہا ہو۔سیاستداں ہو، دانشور ہو ، اکیڈمیشین ہو ، آرٹسٹ ہو ، موسیقار ہو ، خدام خلق ہو ، شاعر ہو ، ادیب ہو یا پھر فلاسفر ہو، سب کے سب اس سرکار کے نشانہ پر ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سرکار ایسے کسی شخص کو نہیں بخشے گی جو ملک کے مفاد میں کام کرے گا یا جو سرکار کے نامناسب کاموں پر انگلی اٹھائے گا۔
ایک ایسی سرکار جسے انگریزوں سے محبت تھی وہ انگریزوں سے لی گئی آزادی کے موقعہ پر ترنگا لہرا کر خود کو مجاہدین آزادی کے زمرے میں لے جانے کی حتی الامکان کوشش کر رہی ہے۔ کبھی گاندھی کی تعریف کر کے ، کبھی امبیڈ کر کی سراہنا کر کے ، کبھی بھگت سنگھ اور چندرشیکھر کی ہمت کی داد دے کر بھارت کے عوام کویہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہم ہی ہیں جو تمہارے اچھے دن لا سکتے ہیں، جبکہ معاملہ بالکل برعکس ہے۔ ریلوے کی نجکاری ، بجلی کی نجکاری ، بینکوں کی نجکاری ، تعمیراتی کاموں کی نجکاری اور بنیادی سہولتوں کی نجکاری کر کے اپنا تمام اثاثہ غیر ملکی کمپنیوں کو دینے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے۔ میک ان انڈیا کا فارمولہ کارگر ثابت ہوتا تو تاریخ ہمیں اسی موڑ پر لے جاتی جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کا پھر سے ورود ہوجاتا۔
آزادی کا جشن ہم ضرور منائیں گے ،کیونکہ اسے ہم نے حاصل کیا ہے۔ بھارت ہمارا ہے ، ہمیں کسی سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم جشن منائیںگے کیونکہ ہم نے انگریزوں کے دانت کھٹے کئے تھے ، مگر آپ کس منہ سے جشن مناتے ہیں ،کہ آپ تو چاہتے ہی نہیں تھے کہ بھارت آزاد ہو۔ آج جب آپ کومفت میں آزاد بھارت کی حکومت مل گئی ہے تو اسے پھر سے غلام بنانے کی کوشش بہت دنوں تک کام نہیں آئے گی۔ بھارت ہندو مسلم ، سکھ عیسائی سب کا ہے ، آپ جیسے مٹھی بھر لوگوں کا نہیں ہے کہ ملک میں انارکی پھیلا کر ، دہشت بانٹ کر ، پابندیاں لگا کر چاہیں کہ عوام آپ کا ساتھ دیں گے ، بس وقت کا انتظار کریں کہ عوام آپ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے تیا رہو رہی ہے۔
آزاد بھارت میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ساری طاقت تین آدمی کے ہاتھ میں پہنچ گئی ۔ اور وہ بے نکیل گھوڑے کی طرح سرپٹ بھاگنے لگے۔ پردھان سیوک ، ارون جیٹلی اور امت شاہ سب سے جواب مانگ رہے ہیں ،لیکن خود کسی کے تئیں جوابدہ نہیں ہیں، نہ ہی پارلیمنٹ کے ، نہ ہی میڈیا کے ، نہ ہی عوام کے۔ اور آزادی جشن کا نام نہیں ذمہ داری نبھانے کا نام ہے۔
اور آخر میں یہی بات کہنا چاہوں گا کہ تاریخ اس پاکباز دوشیزہ کی طرح ہوتی ہے جو حیوانوں کے درمیان بھی باوقار زندگی گذارتی ہے اور سیاست کثیر الخصم عورت کی طرح ہوتی ہے جو جس کے بستر میں چلی جائے اسی کی ہو جاتی ہے ، ابھی وہ آر ایس ایس کے ساتھ ہمبستری میں مصروف ہے۔
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی