اپنی تباہیوں کا کس سے گلہ کریں

سلیم صدیقی پورنوی
بہار سیلاب سے اب تک امارت شرعیہ کے تعداد و شمار اور ایک آنکڑے کے مطابق سو سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کروڑوں لوگ بے گھر ہوگئے ، اربوں کا مالی نقصان ہوگیا ، اچھے کھاتے پیتے لوگ دانے دانے کو ترس گئے ، پینے کے لئےصاف پانی تک انہیں میسر نہیں ہے، اور ہزاروں لوگ اب تک اپنے اہل خانہ سے دور ہیں ، نہ جانے وہ زندہ ہیں یا پھر وہ بھی کہیں بہہ گئے ، اس کا کچھ پتا نہیں۔
یہ وہ آنکڑہ اور تعداد و شمار ہے ، جہاں تک میڈیا پہنچی ہے ، یا راحت دل اور سماجی خدمت گار پہنچے ہیں اور انہوں نے اندازہ لگایا ہے ۔
ورنہ مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں تک پہنچتی ہے ۔
کئی علاقوں میں تو اب تک کوئی ملی یا سیاسی تنظیم یا راحت دل کے لوگ نہیں پہنچے ۔
مالی نقصان کتنا ہوا یہ شمار سے باہر ہے ، یوں کہ لیجئے جو لوگ بچے ہیں ان کی صرف جانیں بچی ہیں اور کچھ نہیں۔ عوامی رابطے مکمل طور پر بند ہیں ، نیٹورک سسٹم تو بالکل معطل ہے۔
چار پانچ دن کے بعد آج صبح والدہ سے بات ہوئی تو جان میں جان آئی ۔ مگر خوشی سے زیادہ دکھ ہوا اور کلیجہ منہ کو آگیا جب والدہ نے بتایا کہ ایک بچہ ہنڈی میں بیٹھا پانی کی لہر میں بہہ رہا تھا اور سب کی طرف ٹک ٹک دیکھ رہا تھا ، اور زبان حال سے کہ رہا تھا مجھے بچا لو مجھے بچا لو ۔مگر کسی میں اتنی ہمت نہ ہوسکی کہ اس معصوم کو بچاسکے
اور بالآخر وہ پانی کی نذر ہوگیا ۔
اسی طرح گاؤں سے قریب لکھنا میں ایک جواں سال لڑکی والدین کے سامنے پانی میں بہہ گئی مگر مجبور والدین موت کا تماشا دیکھنے کے سوا کچھ نہ کرسکے ۔ بعد میں بانس کی جڑوں میں لاش ملی ۔
اسی طرح پانی کے تھپیڑوں نے ایک قریبی گاؤں کے ایک باپ دو بیٹیوں کو نگل لیا۔
ایسے نا جانے کتنے پھول تھے جو بن کھلے مرجھاگیے ، کتنی شہزادیاں تھیں جو ڈولی میں بیٹھنے کی آس لئے موت کے گلے لگ گئیں اور جنازہ تک نہیں نصیب نہیں ہوا
معلوم نہیں کتنے معصوم بلکتے بچوں سے ان کے والدین چھین لئے ۔
مگر اب تک مرکزی و ریاستی سرکار نے ان تباہ حال عوام تک مدد نام کی کوئی چیز نہیں بھیجی ہے ۔ جہاں صوبائی سرکار مکمل دوغلہ پنی کررہی ہے وہیں مرکزی سرکارکی مجرمانہ خاموشی یہ بتاتی ہے کہ بہار کے عوام اور خاص طور پر کثیر مسلم آبادی والے سیمانچل کو تباہ کرنے کی سازش رچی گئی ہے ، ورنہ یک بیک اتنا بڑا تباہ کن فیصلہ نیپال سرکار کیسے کرسکتی ہے ؟ بارہ فٹ پانی پانی چھوڑا گیا اور پہلے سے متنبہ بھی نہیں کیا گیا ۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے ۔
چونکہ بہار کے اس خطے میں مسلمان کثیر تعداد میں ہیں اور بی جے پی کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔
اور اس بات سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ نتیش اور مودی نے اب تک ndrfکو وہاں نہیں پہنچنے دیا ۔
جب کہ یہ ٹیم تھوڑی سی تباہی کی خبر پاکر بھی مدد کو پہنچ جاتی ہے ۔ خیر ۔۔۔
جہاں ناگ نما انسان نتیش نے مکمل تباہی کے بعد بھی اب تک کوئی خاص حکمت عملی نہیں اپنائی ، وہیں ٹوییٹر باز مون وزیر اعظم بھی اب تک دو جملے نہیں پھینک سکے ۔
ایسی صورت حال میں ایم پی اے میل اے اور ضلع ادھیکاریوں کی مجرمانہ پالیسیاں بھی عوام کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ۔ مسلم ایم پی اے میل ایز کی بے حسی نے تو اور بھی شبہ میں ڈال دیا ہے ۔
پورنیہ ضلع کے قصہ بلاک کے اے میل اے آفاق عالم ہیں جن کو پچاسوں خط لکھ کر مدد کی گہار لگائی گئی ، ان کے گھر میں جا جاکر مدد کی درخواست کی گیعی ، لوگوں نے فون کرکر اپنی جانوں کی امان چاہی مگر انہوں نے سیلاب زدہ علاقوں کا رخ تک نہیں کیا ہے جبکہ آج سیلاب کا چھٹا دن ہے ۔
اسی طرح کٹیہار کے ممبر پارلیمنٹ طارق ہیں جو جیتنے کے بعد آج تک ادھر کا رخ نہیں کیا۔
یہی حال تسلیم الدین ، ماسٹر مجاہد ، اختر الایمان ، عابد الرحمن ،محبوب عالم اور دیگر مسلم ایم پی اے میل اے کے ہیں ۔
جہاں سرکاری دَلوں اور سرکاری مسلمانوں کی دوغلے رویوں سے مایوسی ہوتی ہے ۔ وہیں ملی تنظیموں کے رول بھی غیر ذمہ دارانہ اور بے توجہانہ ہیں ۔
کل بروز بدھ جمعیت علماء ہند بہار کے ناظم سے بات ہوئی کہ پورنیہ میں اب تک جمعیت یا کسی ملی تنظیم کی طرف سے کوئی مدد نہیں پہنچی ہے ، لوگ بدحال ہیں تو جواب بڑا غیر ذمہ دارانہ ملا کہ آپ کے یہاں کی جمعیت نے اب تک ہم سے رابطہ نہیں کیا ہے ۔ میرے پاس بھی کوئی فنڈ نہیں ہے ، ہم کوشش کررہے ہیں کچھ ہوگیا تو بھیجیں گے ۔
اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ملی تنظیموں کی کارکردگی کیسی ہے ؟ کیا مدد مانگنے پر مدد کی جائے گی ؟
تمام ملی تنظیموں کے رویے یکساں ہیں ۔ سب سیمانچل اور سیلاب زدہ علاقوں کے ساتھ سوتیلے رویے اپنا رہے ہیں۔
اس لئے عوام ہر ملی و سیاسی تنظیم سے مایوس ہوچکی ہے ۔ اب ان کی آس ہم اسی صورت میں جگا سکتے ہیں کہ ہم میں سے ہر فرد آگے بڑھ کر کچھ کرے۔
خاص طور پر بہار کے باشندے جو باہر ہیں ۔ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آگے بڑھ کر ان ڈوبنے والوں کے لئے تنکے کا سہارا بنیں۔
جزاک اللہ خیرا

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں