دمشق،2؍مارچ
ملت ٹائمز
اندازوں کے مطابق لبنان میں پناہ لینے والے تقریباً بیس فیصد شامی پناہ گزین مختلف اقسام کے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہیں اور اگر انہیں بر وقت علاج کی سہولیات فراہم نہ کی گئیں، تو اس کے خطے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
شامی شہری فاطمہ کی عمر اُس وقت قریب بارہ برس تھی، جب جنگجوؤں نے اُس کے گھر میں گُھس کر اُسے ہراساں کیا،مارا پیٹا اور اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی۔ وہ سن 2011 میں ہی اپنا وطن ترک کر کے لبنان چلی گئی تھی تاہم اُس کی مشکلات نے اُس کا پیچھا نہ چھوڑا۔ در اصل حملے کے چار ماہ بعد ہی فاطمہ میں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر یا کسی گہرے صدمے کے بعد شدید ذہنی دباؤ کی سی کیفیت کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔
ایک لبنانی نفسیاتی ماہر شاریل غزل کہتی ہیں، اُس کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کی تصدیق اُسی وقت ہو گئی تھی جب اُس نے سڑکوں پر چیخنا چلانا اور خود کو جسمانی نقصان پہنچانا شروع کیا۔ غزل کے بقول فاطمہ اکثر خواب میں یہی دیکھتی کہ کوئی اُسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اِس کیفیت کی وجہ سے وہ رات میں اپنے سرہانے چاقو رکھ کر جاگتی رہتی اور دن میں سویا کرتی تھی۔
شام میں مارچ 2011ء سے جاری خانہ جنگی کے سبب ایک ملین سے زائد شامی مہاجرین لبنان میں پناہ لے چکے ہیں جس کی وجہ سے اِس چھوٹے سے ملک میں طبی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ اندازوں کے مطابق شامی پناہ گزینوں میں سے بیس فیصد ذہنی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں لیکن لبنان میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے اکثریتی طور پر نجی اداروں کی موجودگی اور نفسیاتی ماہرین کی قلت کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر متاثرہ شامی مہاجرین کو علاج کی سہولت میسر نہیں ہو سکی ہے۔
لبنانی وزارت صحت میں ذہنی امراض سے متعلق محکمے کے سربراہ ربیع چامے کے مطابق اِس وقت شامی پناہ گزینوں کو دستیاب طبی سہولیات ناکافی ہیں اور متعلقہ ادارے کافی دباؤ کا شکار ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق اِس وقت لبنان میں موجود شامی مہاجرین میں سے بیس فیصد یعنی لگ بھگ دو لاکھ مختلف نوعیت کے نفسیاتی یا ذہنی امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ذہنی اور نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی، لبنان اور شام دونوں ہی ملکوں کے لیے سماجی اور اقتصادی لحاظ سے منفی ثابت ہو گی۔ ایک علاقائی نفسیاتی ماہر محمد الشازلی کے بقول اگر بچوں اور نابالغوں میں نفسیاتی امراض کا علاج نہ کرایا گیا، تو ایک پوری کی پوری نسل ضائع ہو سکتی ہے، جو طویل المدتی بنیادوں پر جنگ کے بعد کے شامی معاشرے کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔