” نئے ہندستان ‘‘کی تعمیرامن واتحاد کی بنیاد پر ہی ممکن : مولانا محمود مدنی،جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام ۲۱؍ستمبر کو نئی دہلی میں امن و اتحاد کانفرنس کا اعلان

مسلمان عام گزر گاہوں پر قربانی سے احتراز کریں : جمعیۃ علماء ہند کی تلقین

نئی دہلی (ملت ٹائمز)
آج یہاں جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر مسجد عبدالنبی نئی دہلی میں مغربی یوپی ،ہریانہ ،پنجاب ، اتراکھنڈاور دہلی کے ذمہ داروں کی ایک اہم مشاورتی میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں ملک کے موجودہ حالات میں امن واتحاد کی ضرورتوں پر زور ڈالتے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا ۔ اس موقع پر جمعےۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے اعلان کیا کہ آئندہ ماہ ۲۱؍ستمبر کو دہلی کے اندر ا گاندھی میں’’ امن واتحاد کانفرنس‘‘ منعقد کی جائے گی جس میں مختلف عقائد سے وابستہ اہم شخصیات کو مدعو کیا جائے گا۔ مولانا مدنی نے موجودہ حالات میں امن کے قیام کی ضرورت پر زور ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک میں نفرت کی سیاست کرنے والی طاقتیں عروج پر ہیں جومختلف مذاہب کے درمیان دوریاں پیدا کرکے اپنا سیاسی دائرہ اثر بڑھا رہی ہیں۔مولانا مدنی نے واضح طور سے کہا کہ فرقہ وارانہ عداوت اور ایک مخصوص نظریے کے تحت نیا ہندستان کا تصور مشکل ہے، نئے ہندستان کی تشکیل کے لیے ملک کا اتحاد ناگزیر ہے ۔ انھوں نے اس عز م کا اظہار کیا کہ ملک میں تمام طبقات میں محبت قائم ہو ، اس کے لیے جمیۃ علماء ہند ہر طرح کی جدوجہد کرے گی ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کی اسی فی صد آبادی ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں سے بغض نہیں رکھتی ، ہمیں ان تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔انھوں نے کہا کہ نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کے لیے ہر روز گاڑے اور چونے ڈالے جارہے ہیں ، نیا نیا پینترا اپنا یا جارہا ہے، مگر ہم نے بھی ٹھانا ہے کہ ہم انتی ہی قوت سے محبت پھیلائیں گے اور حتی الوسع نفرت کی خلیج کو پاٹنے کی کوشش کریں گے ۔ انھوں نے کہا کہ پیغمبر اسلام اور ان کے اصحاب کی زندگی ہمارے لیے نمونہ حیات ہے، ان کے طریقوں کو اپنا کر ہی ہم سرخرو ہو سکتے ہیں ۔ مولانا مدنی نے استدلال کیا کہ اسلام جنو ب کے ساحل ( مالابار ) سے داخل ہو ا اوریہیں سے پھلا پھولا نہ کہ شمال کی جانب سے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہندستان کے مسلم حکمراں اسلام کے نمائندے نہیں تھے بلکہ بوریہ نشیں فقراء اور اولیا ء اللہ نے اپنی محبت ، دوستی اور اتحاد کے پیغام کے ذریعہ ملک کے گوشے گوشے میں ایمان کی روشنی پھیلائی ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے اسلام کی بنیاد پر قائم پاکستان کے بجائے اس ملک میں رہنا اس لیے قبول نہیں کیا تھا کہ ایک دن ہم الگ تھلگ پڑ جائیں اور ہمیں عضو معطل تصور کیا جائے۔ اس لیے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ملک کی اکثریت تک امن کے پیغام کو پہنچائیں اور ان کو خود سے قریب کریں۔انھوں نے صاف کیا کہ ہمیں کسی کے اقتدار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ ہماری نگاہ اپنے نصب العین پر ہو ۔مولانا مدنی نے بتایا کہ پچھلے دنوں ملک کے آٹھ سو سے زائد شہروں میں امن مارچ منعقد ہوا، مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن کے ذمہ داران افراد بھی ہمارے ساتھ شریک ہوئے ۔ مرادآباد، مظفر نگر، امروہہ، گجرا ت وغیرہ میں لوگوں نے اپنی دکانیں بند کرکے ہمارے ساتھ شرکت کی ، ہم اسے خوش آیند سمجھتے ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں اسے جاری رکھیں گے ۔

مولانا مدنی نے عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے سلسلے میں پیدا شدہ خدشات کے تناظر میں کہا کہ ہمیں کسی طرح کا خوف نہیں پالنا چاہیے اور جہاں قربانی ہوتی تھی کہ وہاں ہر حال میں ہونی چاہیے ، لیکن شریعت اسلامیہ نے جانوروں کے حقوق بھی رکھے ہیں ، ایک گاڑی میں زیادہ جانوروں کو ٹھونس کر ٹرانسپورٹ نہ کریں ، اسی طرح ایک جانور کی موجودگی میں دوسر ے جانور کو ذبح نہیں کیا جائے ۔ عام گزرگاہوں پر قربانی سے احتراز کیا جائے ، جانور کے ذبح کے بعد آلائش وغیرہ کی صفائی کا پہلے سے ہی انتظام ہو ۔ مولانا مدنی نے بہار سیلاب متاثرین کے تعاون کے لیے بھی لوگوں کو متوجہ کیا ۔

آخر میں مولانا مدنی نے ذمہ داروں سے کہا کہ وہ امن و اتحاد کانفرنس کی اہمیت کے پیش نظر پوری تیار ی کے ساتھ کام شروع کردیں اور گاؤں گاؤ ں جا کر لوگوں تک جمعےۃ علماء کا پیغام پہنچائیں ۔ تمام ذمہ داروں نے اپنی طرف سے یقین دہانی کرائی اور اجلاس کے لیے ہر طرح کا تعاون دینے کا وعدہ کیا ۔اس اجلاس میں مولانا مدنی کے علاوہ مولانا متین الحق اسامہ کانپوری صدر جمعیۃ علماء اترپردیش، مولانا قاری شوکت علی ویٹ ، مولانا مفتی عفان منصورپوری ، مولانا حکیم الدین قاسمی سکریٹری جمعیۃعلما ہند ،مولانا یحی کریمی صدر جمعیۃ علما ء ہریانہ، پنجاب و ہماچل پردیش ،مولانا قاسالم قاسمی سکریٹری جمعیۃ علماء اترپردیش نے خطاب کیا ۔ دیگر اہم شرکاء میں درج ذیل حضرات کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں : مولانا معزالدین احمد امارت شرعیہ ہند، مولانا سید محمد مدنی ناظم اعلی جمعیۃ علماء اترپردیش ، مولانا افتخار قاسمی ہاپوڑ، دہلی سے مولانا محمد عابد قاسمی ،مولانا جاوید صدیقی قاسمی مولانا محمد قاسم فیروزآباد،ڈاکٹر اسلام قاسمی صدر جمعےۃ علماء اتراکھنڈ ،مفتی اویس اکرم بجنور، ذہین احمد دیوبند، مولانا معصوم اتراکھنڈ، مولانا محمد عاقل شاملی، مظفر نگر سے مفتی بنیامین، حافظ فرقان اسعدی، ڈاکٹر جمال قاسمی، مولانا موسی قاسمی ، مولانا ذاکر قاسمی ، پانی پت سے حاجی اکرام اور صوفی محمد ا سلام، غازی آباد سے مولانا اسجد قاسمی ، مولانا شعبان ، میرٹھ سے حنیف قریشی ، مولانا امیر اعظم، مولانا سلمان ،قاری زین الراشدین،مرادآباد سے قاری نفیس، مولانا مز مل قاسمی ، قاری نجیب الرحمن ، امروہہ سے قاری یامین، حافظ فرمان ، ماسٹر ذاکر ، مولانا عبدالجبار ، رام پو رسے مولانا لیاق ، مولانا عرفان ، بلند شہر سے مولانا عابد ، میوات سے مولانا شیر محمد امینی میوات ، مولانا فخرالدین ہاپوڑ، بہادرگڑھ ہریا نہ سے قارمحمد عابد وغیرہ شریک تھے ۔