سیلاب کے قہر سے تھم گئیں سانسیں اور رک گئیں زندگیاں

راشدالاسلام
بہار کا سیمانچل علاقہ بنیادی سہولتوں سے کوسوں دور ہے، ملک کی آزادی کے 70سال بعد بھی اس علاقے میں ترقی کی روشنی نہیں پہنچی ہے،اس علاقے میں ہر سال سیلاب کا قہر برپا ہو تا ہے لوگ دانے دانے کے لیے ترس جاتے ہیں،حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں، لیڈران آتے ہیں اور ووٹ لیکر چلے جاتے ہیں لیکن اس علاقے میں رہنے والے لوگوں کی پریشانی کا کوئی مستقل حل نہیں نکلتا،زیادہ تر لوگ کاشت کاری پر منحصر ہیں اور کھیتی ہی ان کا ذریعہ معاش ہے، اسی سے یہاں کے کاشت کار اپنے خاندان یا گھر والوں کی پرورش کر تے ہیں،لیکن آج کے اس دور میں ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ صرف کاشت کاری سے گھر والوں کی پرورش کر نا کافی مشکل کام ہے اور ایسے علاقے میں جہاں ہر سال سیلاب کا قہر برپا ہو تا ہے اور گھر ،روڈ، اسپتال اور تمام فصلوں کو بہا کر لے جاتا ہے ۔سیلاب کا یہی قہر ان دنوں سیمانچل میں برپا ہے۔سیلاب کے اس قہر سے لوگوں کی زندگیاں تھم گئیں اور سانس بھی لینا مشکل ہو گیا ہے،ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ سیلاب کا مستقل حل نکالا جائے تاکہ سیمانچل اپنی منزل طے کر سکے۔
ان دنوں بہار،آسام ،بنگال اوریوپی کے کچھ حصے میں زبردست سیلاب ہے جس کی وجہ سے ہرجاندارمخلوق نفسا نفسی اورپریشانی کے عالم میں ہے۔ اس حالت میں تمام طبقات کے لئے یہ سیلاب اوربھی زیادہ صبرآزماہوجاتاہے۔ خاص طورپرغرباء کیلئے اس کا سامنا کرنا بہت مشکل ہو جاتاہے۔خاص طور پر بہار کے سیمانچل میں آئے سیلاب کی تباہی کو دیکھتے ہوئے جس طرح فلاحی اداروں نے قدم اٹھا یا ہے وہ قابل تعریف ہے، اس کی وجہ سے جہاں سیلاب متاثرین نے راحت کی سانس لی ہے ۔ سیلاب سے ہوئی بڑی تباہی کو دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ اس پریشانی کے عالم میں سرکاری امدادکے علاوہ دیگرملی وفلاحی تنظیموں کے ذمہ داران کے ساتھ ساتھ سرکار کوبھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیناچاہیے تو بے جا نہ ہوگا۔بہارخصوصاً سیمانچل کے علاقے میں سیلاب کی صورتحال بے حد تشویشناک وخطرناک ہے سیلاب سے بہارمیں زبردست جانی ومالی نقصان ہوا ہے۔ بہارمیں سیلاب سے لاکھوں افرادبے گھرہوگئے،فصلیں بربادہو گئیں،گھروں میں پانی داخل ہوگیا،لاکھوں گھربہہ گئے،لاکھوں کروڑوں کامالی نقصان اورسیکڑوں جانیں گئیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 75لاکھ سے زائدلوگ سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں،جن سے سبھی قسم کارابطہ منقطع ہوچکا ہے ،ارریہ ،سپول، سہرسہ ،کشن گنج،مدھے پورہ، پورنیہ ،کٹیہار، مدھوبنی، دربھنگہ، مظفرپور، سیتامڑھی، شیوہر اورمغربی ومشرقی چمپارن میں خطرناک صورتحال پیدا ہوچکی ہے ،وہاں اس وقت پانی ،بجلی،دوائیاں،رہائشی ٹینٹ ،غذائی اشیاء خاص طور پر بچوں کی غذائی ضروریات کی سخت ضرورت ہے۔ وہاں ضروریات زندگی کا سامان کسی جگہ دستیاب نہیں ہے اور اس وقت وہاں جنگی پیمانہ پر امداد کی ضرورت ہے ۔مزیدمرکزی وریاستی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ ہندوستان کی پرائیویٹ ایئر لائنس کے مالکان کو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان لے جانے کے لئے احکامات دیں ،کیونکہ سڑک کے ذریعہ وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ واضح ہوکہ ذرائع ابلاغ او ر و سائل نقل وحمل کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے جانی و مالی اتلاف کا صحیح اندازہ نہیں ہو رہا ہے۔ اگر حکومتیں قبل از وقت خود حفاظتی انتظامات کرتیں تو اس قدرجانی و مالی نقصانات سے باشندوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ اس گھڑی میں تباہ حال لوگ ہماری ہر طرح کی امداد کے مستحق و محتاج ہیں ۔
سال 2008میں بہارکے ضلع سپول میں آئے سیلاب نے گھنٹوں کاکام منٹوں میں کے مترادف سیکڑوں ہزاروں گھروں کوتباہ وبربادکردیا،یعنی وہاں کے لوگوں کوگھرسے بے گھرکردیا،پتہ نہیں وہ لوگ کہاں کہاں جاکربسے ،سیکڑوں ہزاروں لوگ پانی میں غرق ہوئے اورہزاروں افرادہلاک وبربادہوئے یہاں تک کہ کتنے لوگوں کی نعشیں بھی نہیں مل پائیں اورکچے گھروں کی بات تودور،پکے مکانات دومنزلہ سہ منزلہ کوبھی سیلاب کی موجیں لہریں کاغذاورپتے کی طرح بہا لے گیا ،جس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگ پایا ۔ایسا ہی2010میں جموں وکشمیرکے لداخ علاقے کے شہرلیہہ میں زبردست بارش وسیلاب سے ہونے والے جانی ومالی نقصان بہارکے ضلع سپول سے کم نہیں تھا یہاں بادل پھٹنے کے بعداچانک آئے سیلاب میں 120افرادسے زائدکی موت ہوگئی اورتقریباً 500سے زائدافراد زخمی ہوگئے اورلیہہ سے تقریباً 13کلومیٹرکے فاصلے پرواقع چگلاسر میں تقریباً 200افرادبھی لاپتہ ہوگئے تھے،اسی وجہ سے ہندوستان کے تمام افراد غم زدہ تھے یہ نہایت ہی تکلیف دہ بات تھی۔
2014 میں بھی بہارکے ضلع سپول کے سیلاب کی طرح جموں وکشمیرمیں سیکڑوں ہزاروں گھروں کوتباہ وبربادکردیاتھا۔یعنی تقریباً ساٹھ سال بعد آنے والے قیامت خیز سیلاب نے ریاست جموں وکشمیر کو ہلاکر رکھ دیا تھا اوراس وقت ہندوستان کے علاوہ پوری دنیا کی نگاہیں ریاست جموں وکشمیر پر لگی ہوئی تھی ، تعاون کرنے والے اپنے اپنے اعتبار سے تعاون بھی کررہے تھے اور جو کچھ نہیں کرسکتے وہ خدا سے دعاؤں کے ذریعہ اس کا رحم طلب کررہے تھے۔ ہندوستان کی ریاست جموں وکشمیر میں بھیانک بارش اور اس کے نتیجے میں آئے تباہ کن سیلاب، بھیانک طغیانی اور جان و مال کی ہلاکت وبربادی ملک کی سب سے بڑی آفت کہیں توغلط نہیں ہوگا ۔یوں تو ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا درد باشندگان وطن سہہ رہے تھے لیکن بھارت کا وہ خطہ ارض کشمیر جسے جنت کہاجاتاہے۔ سیلاب کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں سے پورے طور پرسسک رہاتھا اور آہ و بکاء سے دو چار تھا۔حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مرکزی وزیرِ داخلہ نے ایک طرح سے اپنا ہاتھ کھڑاکرتے ہوئے ریاستی سرکاروں،غیر سرکاری تنظیموں اور عوام الناس سے اپیل کی تھی کہ جس سے جیسے اور جو ہوسکے ان آفت زدہ متاثرین کی مدد کریں۔بہارمیں اب بھی سیلاب کا قہر جاری ہے اور حالات میں کوئی بہتری نہیں ہے،اب تک سرکاری اعدادوشمارکے مطابق 300سے زائدلوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ لہذا ملک کے تمام باشندوں کو اپنے تباہ حال بھائیوں کی بھر پور امداد کرنی چاہئے اور ان کی راحت رسانی کے لیے حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے ۔ یہ ہمارا دینی، ملی ، قومی اور انسانی فریضہ ہے۔ اس طرح کے افراداورتنظیموں کومصائب کے ان موقعوں پرآگے آناچاہئے اورمخلوق خداکی خدمت کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔اسلئے تمام برادران کوچاہیے کہ اللہ کے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حکم بجالائیں اسی میں خیرہے اوراللہ ان بلاؤں سے حفاظت فرمائے آمین۔
صوبہ بہارکے شمالی ہندکا سیمانچل علاقہ(ارریہ، پورنیہ، کٹہار، فاربس گنج اورجوگبنی )جوبہارکے شمالی جانب اورنیپال کے سرحدی علاقہ اوردیگراضلاع کے عوام انتہائی غریب اورپسماندہ ہیں۔ارریہ شہرمیں واقع زیرومائل سے بیرگاچھی چوک ،جوکی ہاٹ ہوتے کشن گنج کوجوڑنے والی سڑ ک وہائی وے (زیرومائل سے جوکی ہاٹ کا فاصلہ تقریباً 16سے 17کلومیٹرہے)جگہ جگہ مین سڑکیں ٹوٹ گئیں اورکئی پل ٹوٹ گئے ہیں جس بناء پروہاں کے لوگوں کوآمدورفت میں بہت زیادہ دشواریاں ہورہی ہیں۔سڑکیں ٹوٹنے کی وجہ سے راحت کاری کیلئے سرکار کی جانب سے بھی اس علاقے میں کوئی ٹیم نہیں پہنچی اورنہ اس وقت ان لوگوں کی مددکیلئے کوئی ملی تنظیمیں پہنچ رہی ہیں ۔ ان لوگوں کی سب سے بڑی پریشانی اوردشوارکن بات ہے کہ ان کے سروں پرہمیشہ سیلاب منڈلاتے رہتے ہیں،بنابریں فصلیں اوراناج وغیرہ سے اپنی کوٹھیاں بھرنے سے قاصرہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے عوام ملک کے ہرخطے ، ہرعلاقے ،اورہرصوبے کے گوشے گوشے میں نوکری اورروزگاری سے جڑے ہوے ہیں۔ سیمانچل کے عوام خصوصاً ارریہ جہاں سیمانچل کے اضلاع بلکہ پورے بہار کی سب سے بڑی مسلم آبادی ہے۔ یہی وجہ کہ ہندوستان کے ہرعلاقے کے کونے کونے کے مدارس میں بکثرت طلباء ضلع ارریہ کے پائے جاتے ہیں۔مگریہاں کے طلباء وعوام الناس کی ایک سخت پریشانیاں ودشورایاں یہ ہیں کہ گاؤں اورگھروں سے شہرآنے کے لئے جوسڑکیں ہیں وہ انتہائی خستہ حال ہوگئی ہے جس سے آمدورفت میں بہت ہی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
رابطہ : 9810863428